انڈونیشیا میں احتجاجی مظاہرے
اشاعت کی تاریخ: 1st, September 2025 GMT
پچھلے تین دنوں سے (آبادی کے لحاظ سے) عالمِ اسلام کا سب سے بڑا ملک آتش و خون اور حکومت کے خلاف زبردست مظاہروں کی حدت میں جَل رہا ہے ۔انڈونیشیا کے29کروڑ عوام کمر توڑ مہنگائی ، ملک کی کرپٹ اشرافیہ ، بد عنوان پولیس اور انڈونیشیا کے ارکانِ اسمبلی کی تنخواہوں میں بے تحاشہ اضافے پر حکومت ، انتظامیہ اور بَیڈ گورننس کے خلاف بپھر گئے ہیں ۔ دیکھا جائے تو یہی حالات پاکستان کے 25کروڑ عوام کو بھی درپیش ہیں ۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اور انڈونیشیا ، دونوں اسلامی ممالک کے عوام سنگین سماجی ، سیاسی اور معاشی مسائل و مصائب کے لحاظ سے ایک ہی کشتی میں سوار ہیں ۔فرق یہ ہے کہ انڈونیشیائی عوام کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا ہے اور وہ دیوانہ وار’’اپنی‘‘ حکومت کے خلاف شدید احتجاج کرتے ہُوئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں ، جب کہ پاکستان کے عوام نے ابھی یہ راستہ اختیار نہیں کیا ہے ۔
اِس عوامی صبر سے ہماری حکومت اور ہمارے ہمہ قسم کے حکمرانوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ عوام میں حکومت کے خلاف باہر نکلنے کی سکت ہے نہ ہمت ۔ شاید حکومت کو یہ غلط فہمی ہے ۔ ملک میں مہنگائی ، سیلاب کی تباہ کاریوں اور اِن تباہ کاریوں کے سامنے مرکزی اور تمام صوبائی حکومتوں اور حکمرانوں کی ناکامی(اور حکمرانوں کے مسلسل جھوٹ) کے کارن سیلاب متاثرین کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے ۔ معلوم نہیں یہ پیمانہ کب چھلک پڑے؟
انڈونیشیا کے عوام اپنی حکومت اور اپنے صدر کے وعدوں کے لالی پوپ پر اعتبارکرنے کو مطلق تیار نہیں ہیں کہ جانتے ہیں یہ وعدے وقتی اور بد نیتی پر مبنی ہیں ، بالکل ہمارے ہر قسم کے مرکزی و صوبائی حکمرانوں کی مانند !پہلے تو انڈونیشیا کے صدر ( پرابو سوبیانتو) اور اُن کی انتظامیہ نے اپنے عوام کے احتجاج پر ، حسبِ معمول ، کان ہی نہ دھرا ، مگر جب بروز جمعہ (29اگست2025) غصے اور غیظ میں بپھرے انڈونیشیا کے عوام نے انڈونیشیا کے دارالحکومت ، جکارتہ ، میں پولیس ہیڈ کوارٹر پر زبردست سنگباری کی اور ہیڈ کوارٹر سے متصل عمارت کو نذرِ آتش بھی کر دیا تو صدرپرابو سوبیانتو ( Prabowo Subianto) کی آنکھیں کھلیں اور انھوں نے عوامی غیظ و غضب کو ٹھنڈا کرنے کے لیے یوں بیان دیا:’’میری حکومت اور میری لیڈر شپ پر اعتماد کریں۔ مَیں آپ کے غصے اور احتجاج کو سمجھتا ہُوں ۔ آپ لوگوں کے مطالبات کو جلد از جلد پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔‘‘
پرابو سوبیانتو کے بیان آنے تک مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔ نذرِ آتش ہونے والی عمارت میں کئی لوگ جَل مرے۔ انڈونیشیا کے احتجاجی اور غصہ وَر عوام کو اِس بات کا بھی غم و طیش ہے کہ اِسی جمعہ کو متکبر پولیس کی ایک گاڑی نے ایک غریب اور دیہاڑی دار ٹیکسی ڈرائیور کو ٹکر مار کر ہلاک کر ڈالا تھا اور افسوس تک نہ کیا ۔اب پرابو سوبیانتو صاحب اِس خونی سانحہ کی تحقیقات کروانے اور مرنے والے کے لواحقین کو مالی امداد فراہم کرنے کا اعلان بھی کررہے ہیں ، مگر عوام اِس وعدے پر بھی یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ پاکستان میں بھی حکمرانوں کا یہی وتیرہ ہے ۔
انڈونیشیا حکومت اورانڈونیشیائی صدر کے خلاف بپھرے انڈونیشیائی عوام کو اِس بات کا بھی غصہ ہے کہ حکومت نے انڈونیشیائی پارلیمنٹ کے ارکان (جن کی تعداد 580ہے) کی تنخواہوں میں یک بیک بے تحاشہ اضافہ کر دیا ہے۔ یہ اضافہ ایک عام انڈونیشیائی سرکاری ملازم کی تنخواہ سے 10گنا اور ایک عام انڈونیشیائی مزدور کی مزدُوری سے20گنا زیادہ ہے۔ اِس اضافے پر انڈونیشیا کے عوام تڑپ اُٹھے ہیں اور وہ بلند آواز سے مطالبہ کررہے ہیں کہ اِن تنخواہوں میں کٹوتی کی جائے ۔ احتجاج کناں انڈونیشیائی عوام کے ایک لیڈر (Gajayan Memanggil) کا کہنا ہے کہ ’’ہم ملک کی مقتدر، بدمعاش اور بدعنوان اشرافیہ کو عوام کا خون مزید نہیں پینے دیں گے۔‘‘
انڈونیشیا کے عوام بہادر ہیں کہ اپنی طاقتور سیاسی و غیر سیاسی کرپٹ اشرافیہ کو للکار بھی رہے ہیں اور اُن کی سرکاری مراعات کو کم کرنے کی جدوجہد کے لیے سڑکوں پر بھی ہیں۔ جب سے صدر پرابو سوبیانتو اقتدارمیں آئے ہیں ، انھیں پہلی بار اتنے بڑے عوامی احتجاج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ یہ صاحب خیر سے سابق انڈونیشیائی جرنیل ہیں۔
انڈونیشیا کے عوام کو ہم اس لیے بھی غیور اور بہادر کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے سیکڑوں ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں بے تحاشہ اضافے پر حکومت کے خلاف سڑکوں پر ہیں ، جب کہ یہ کام ہم پاکستان کے عوام نہیں کر سکے ۔ فروری2025میں جب پاکستان کے سیکڑوں ارکانِ پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں 300فیصد اضافہ کیا گیا تو پورے پاکستان کے عوام کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگی ۔ اور جون2025 میں اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہوں میں500فیصد اضافہ کیا گیا تو بھی پاکستانی عوام خاموش ہی رہے ۔
تو کیا اِس خاموشی کا یہ مطلب ہے کہ پاکستانی عوام نے پاکستان کی منہ زور اشرافیہ کی نہ رکنے والی زیادتیوں پر صبر کررکھا ہے ؟ غربت و مہنگائی ، بے روز گاری اور بے سرو سامانی کے بڑھتے گراف پرپاکستان کے عوام کے دماغوں اور دلوں میں ہمہ قسم کے حکمرانوں ، مقتدرین اور فیصلہ سازوں کے خلاف مسلسل غصہ اور طیش بڑھ رہا ہے ، بالکل انڈونیشیا کے عوام کی مانند ۔ رواں ماہ کے دوران پاکستان میں آٹے ، گھی اور چینی کے نرخوں میں ایک بار پھر بے تحاشہ اضافہ ہُوا ہے ، کیا عوام اِسے مزید ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیں گے ؟ حیرانی کی بات یہ بھی ہے کہ مرکزی حکومت مسلسل کہہ رہی ہے کہ ’’ملک میں مہنگائی کا گراف نیچے آیا ہے ۔‘‘ ارے ، کہاں اور کب نیچے آیا ہے ؟ لگتا ہے اشرافیہ کبھی آٹا لون لینے باہر نکلے ہی نہیں۔ جب پنجاب سیلابی پانیوں میں غرقاب ہورہا تھا اور پنجاب کے عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا ، عین اِن ایامِ آزمائش سے چند دن پہلے ہمارے صوبائی حکمران بیرونِ ملک Pleasure Trip سے واپس آئے تھے ۔
17ہزار سے زائد جزائر پر آبادانڈونیشیا کے29کروڑ عوام کو اپنی کرپٹ پولیس، بے تحاشہ مہنگائی اور ہر روز بڑھتے ٹیکسوں کے خلاف جو غصہ ہے ، پاکستانی عوام کے قلوب میں بھی بالعموم ایسا ہی غصہ پنپ رہا ہے ۔ ہماری اشرافیہ نے مگر اِس عوامی پنپتے غصے پر اپنی آنکھیں بند کررکھی ہیں۔ سیلابوں کی بے اَنت تباہ کاریوں کے سامنے مرکزی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتیں ( بشمول آزاد کشمیر و گلگت بلتستان) جس بُری طرح سیلاب زدگان کی دستگیری کرنے میں ناکام ہُوئی ہیں، اِس منظر نامے نے عوامی غیظ و غضب کو دو چند کر دیا ہے ۔ کہنے دیا جائے کہ سیلابوںنے ہمارے مرکزی اور صوبائی حکمرانوں کی قلعی کھول دی ہے ۔
یہ حکمران تباہ کن سیلابوں کی ذمے داری بھارت پر ڈال رہے ہیں ، مگر اپنی نااہلیوں پر سینہ کوبی کرنے والا کوئی نہیں ۔ سچی بات یہ ہے کہ حکومتی دعووں کے باوصف کروڑوں کرلاتے پاکستانی سیلاب زدگان کی فریاد سننے والا کوئی نہیں ۔ آج وفاقی وزیر ، خواجہ آصف ، سیالکوٹ میں سیلابی پانی میں اپنی کھڑی گاڑی میں بیٹھے تصویر کھنچواتے نظر آ رہے ہیں ، مگر اِس سوال کا جواب دینے کے لیے کوئی تیار نہیں ہے کہ پورا سیالکوٹ شہر سیلابی پانی میں ڈُوبا تو کیونکر؟؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انڈونیشیا کے عوام کی تنخواہوں میں پاکستان کے عوام پرابو سوبیانتو حکومت کے خلاف حکومت اور رہے ہیں عوام کے عوام کو رہا ہے ہیں کہ
پڑھیں:
حکومت کا توشہ خانہ میں جمع تحائف کا مکمل ریکارڈ عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: حکومت پاکستان نے توشہ خانہ میں جمع کرائے گئے تحائف کا ریکارڈ عوام کے سامنے لانے کا فیصلہ کر لیا ہے اور کابینہ ڈویژن کی جانب سے یکم جنوری سے 30 جون 2025 تک کا مکمل ریکارڈ جاری کر دیا گیا ہے، اس ریکارڈ میں صدرِ مملکت آصف زرداری، وزیر اعظم شہباز شریف، فیلڈ مارشل حافظ عاصم منیر اور دیگر اعلیٰ سول و عسکری قیادت کے جمع کرائے گئے تحائف شامل ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر مملکت اور وزیر اعظم کو اس عرصے کے دوران غیر ملکی دوروں اور ملاقاتوں میں قیمتی تحائف پیش کیے گئے جنہیں انہوں نے توشہ خانہ میں جمع کرا دیا۔ اسی طرح فیلڈ مارشل ، ایئر چیف اور چیف آف نیول اسٹاف کو بھی مختلف ممالک کے حکام اور غیر ملکی وفود کی جانب سے تحائف دیے گئے، جو توشہ خانہ کے ریکارڈ میں شامل ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز، وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اقتصادی امور احد چیمہ نے بھی غیر ملکی شخصیات سے قیمتی تحائف وصول کیے، جو قواعد و ضوابط کے مطابق توشہ خانہ میں جمع کرا دیے گئے، مزید برآں چیف آف جنرل اسٹاف عامر رضا، وائس ایڈمرل راجہ ربنواز اور دیگر اعلیٰ عسکری افسران کو بھی مختلف مواقع پر تحائف دیے گئے۔
تحائف وصول کرنے والی دیگر اہم شخصیات میں چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) نذیر احمد، وزیر تجارت اور سیکرٹری تجارت سمیت ملک احمد خان، محمد علی رندھاوا، رفعت مختار راجہ اور سابق کرکٹر و مشیر کھیل وہاب ریاض شامل ہیں۔
اس کے علاوہ زین عاصم، عثمان باجوہ، طارق فاطمی اور خواجہ عمران نذیر سمیت کئی دیگر سرکاری و سیاسی شخصیات کو بھی تحائف موصول ہوئے جنہیں توشہ خانہ کے ریکارڈ میں شامل کر لیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستانی حکام کو ملنے والے زیادہ تر تحائف غیر ملکی اعلیٰ حکومتی شخصیات اور مختلف ممالک کے وفود کی جانب سے دیے گئے تھے۔ حکومت کے مطابق تحائف کے ریکارڈ کو عوامی سطح پر لانے کا مقصد شفافیت کو یقینی بنانا اور اس حوالے سے ماضی میں اٹھنے والے سوالات اور تنازعات کا ازالہ کرنا ہے۔