دوسری عالمی جنگ اور فراموشی کیخلاف مزاحمت کرتی چین کی یادیں
اشاعت کی تاریخ: 1st, September 2025 GMT
یانگ جیان ہونگ کے بچپن کی یادوں میں، ریڈیو سے آنے والی بین الاقوامی خبروں کی آوازیں آلو بخارے سے بنی مٹھائی کی خوشبو کی طرح جانی پہچانی تھیں۔
یانگ کے والد یانگ یانگ ژینگ ایک خاموش طبع انسان تھے اور ان کے معمولات غیر متزلزل تھے۔ وہ ریڈیو نشریات بیٹھ کر پورے انہماک سے سنتے اور آلو بخارے سے بنی مٹھائی کی تیز شیرینی کا مزہ لیتے، جو شنگھائی کی ایک خاص مٹھائی تھی۔
یانگ جیان ہونگ نے اس خاص مٹھائی کی اہمیت کو بہت بعد میں جا کرسمجھا۔ یہ مٹھائی اس کے والدکے لیے مشرقی چین کے ایک بڑے شہر کی یاد تازہ کرتی تھی۔ وہ شہر جہاں 1937ء میں ایک 23 سالہ نوجوان نے اپنے ساتھی سپاہیوں کے ہمراہ لڑائی لڑی تھی اور ایک گودام میں اپنے سے کئی گنا زیادہ جاپانی افواج کو روکے رکھا تھا۔
ان چینی سپاہیوں کا، جو بعد میں’’800 ہیروز ‘‘کے طور پر امر ہوگئے، جاپانی افواج کو اس طرح روکے رکھنا اس جنگ میں چینی جدوجہد کی ایک واضح علامت بن گیا۔ یہ جاپان کی جارحیت کے خلاف چینی عوامی مزاحمت تھی جو بہت پہلے شروع ہو گئی تھی جسے دنیا نے بعد میں دوسری عالمی جنگ کا ایک حصہ تسلیم کیا۔
چین ان اولین ممالک میں شامل تھا جنہوں نے فاشسٹ جارحیت کے خلاف مزاحمت کی۔ بہت سے مورخین1931 میں شمال مشرقی چین پر جاپانی حملے کو دوسری جنگ عظیم کے ایشیائی تھیٹر کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں۔ چین کی بھرپور مزاحمتی جنگ 1937 میں شروع ہوئی جس سے دوسری عالمی جنگ کے ایشیائی تھیٹر کا آغاز ہوا۔ چین اس جنگ میں برطانیہ، فرانس اور امریکہ سے پہلے داخل ہو گیا تھا۔ یانگ اس جنگ میں دن رات چار روز تک شنگھائی کا دفاع کرتا رہا اور اس دوران اس نے اپنی بائیں آنکھ بھی کھو دی۔کچھ دنوں بعد شہر مفتوح ہوگیا۔
یانگ زخمی تھا لیکن اس نے حوصلہ نہیں ہارا ۔ بالآخر وہ مغرب میں چھونگ چھنگ کی طرف پیچھے ہٹ گیا جو جنگ کے وقت چین کا دارالحکومت بن چکا تھا۔ پھر کئی سال گزرنے کے بعد، پہاڑوں کے درمیان بسا ہوا اور دریائے یانگسی اور جیالنگ سے کی حفاظت میں موجود یہ جنوب مغربی شہر ایک محفوظ دفاعی قلعہ بن گیا اور پھر اس شہر نے یانگ کی طرح، جنگی افراتفری سے بھاگنے والے دیگر لاکھوں فوجیوں اور پناہ گزینوں کا خیرمقدم کیا۔
آلو بخارے والی مٹھائی یانگ کی تسکین کا سبب بنی رہی، گزرے ایام کا ایک لمحاتی ذائقہ جس سے تھوڑے ہی لوگ واقف ہوں گے۔ سال 2010 میں، زندہ بچ جانے والے ’’800 ہیروز ‘‘کے آخری فرد یانگ کا انتقال ہوگیا۔
یانگ کا بیٹا یانگ جیان ہونگ کہتا ہے، ’’وہ دوسری عالمی جنگ کے ہیرو سے بھی بڑھ کر تھے۔ وہ ایسے انسان تھے جس کی میری ماں نے ساری زندگی پوجا کی۔ ‘‘ یانگ نے بتایا کہ یہ مٹھائی چاہے کتنی ہی کمیاب یا مہنگی کیوں نہ ہوتی ، ماں ہمیشہ ان کے لیے کہیں نہ کہیں سے اس کا انتظام کر لیتیں۔
جاپان کے ہتھیار ڈالنے کی یاد میں، ہر سال یہ خاندان میز پر چند اضافی پکوان رکھتا۔ اس روایت کا آغاز اُس وقت ہوا جب یانگ یانگ ژینگ نے اس عورت سے شادی کر لی جس سے وہ محبت کرتا تھا، اور یہ شادی بندوقوں کے خاموش ہونے کے صرف ایک دن بعد ہوئی۔
یانگ کی وراثت اس کے بعد بھی زندہ رہی، وہ یانگ جسے چھونگ چھنگ کی دس سب سے متاثرکن شخصیات میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔
جنگ کی کٹھالی
فاشزم کے خلاف عالمی جنگ میں چین کے میدانِ جنگ نے مشرقی محاذ کی حیثیت سے اتحادیوں کی فتح میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
اُس وقت کے برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے ایک بار خبردارکرتے ہوئے کہا تھا، ’’اگر جاپانی مغربی بحر ہند پر حملہ کرتے ہیں تو مشرق وسطیٰ میں ہماری تمام پوزیشنیں ختم ہو جائیں گی، اس صورت ِ حال کو روکنے میں صرف چین ہی ہماری مدد کر سکتا ہے۔‘‘
1938ء میں جنگ کا آغاز کر کے، جاپان نے چھونگ چھنگ کے خلاف بے رحمانہ بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا، مقصد ایک ایسے شہر کو جھکانا تھا جو جھکنا نہیں جانتا تھا۔
برسوں تک، چھونگ چھنگ نے فضائی حملوں کی لہروں کو برداشت کیا۔ ’’ایشین بلٹز‘‘ نے، جس سے کم ہی لوگ واقف ہیں 32 ہزار سے زیادہ افراد کو ہلاک یا زخمی کر دیا۔ ان حملوں نے اس شہر کو آگ اور مزاحمت کا ویسا ہی ایک مرکز بنا دیا جیسے لندن جرمن فضائیہ (لفٹ وافے) کے حملوں کے دوران بن گیا تھا۔
چھونگ چھنگ میں جگہ جگہ فضائی حملوں سے بچنے کے لیے بنائی گئی سولہ سو سے زائدپناہ گاہیں اس وقت دنیا میں سب سے بڑے شہری دفاعی نیٹ ورکس میں سے ایک تھیں۔ ان حملوں میں زندہ بچ جانے والے سو یوانکوئی ، جن کی عمر اب 92 سال ہے، ان حملوں کی سوزشیں اب بھی اپنے ذہن میں محسوس کرتے ہیں۔
5جون 1941 کو جب بموں کی بارش ہو رہی تھی تو اس وقت آٹھ سالہ سو فضائی حملوں سے بچائو کی ایک سرنگ میں گھس گیا تھا۔ اس دوران، دم گھٹنے والی گرمی میں تیل سے روشن کیے گئے لیمپ ٹمٹما رہے تھے، لڑاکا طیاروں کی چنگھاڑ لوگوں کی چیخوں اور ملامتوں میں گھل مل رہی تھی۔
اگلی صبح جب سُو بیدار ہوا تو وہ لاشوں میں گھرا ہوا تھا۔ اس کی دو بہنیں ان ایک ہزار سے زیادہ افراد میں شامل تھیں جو دم گھٹنے اور بھگدڑ کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے جسے بعد میں دوسری عالمی جنگ کے فضائی حملے کے سب سے مہلک سانحات میں سے ایک قرار دیا گیا۔
سُو نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا،’’ اُفق تباہی کا منظر پیش کر رہا تھا اور ایک عمارت بھی محفوظ نہ رہی تھی۔‘‘ تاہم اتنی ہولناکیوں کے باوجودبھی، مجموعی طور پر چھونگ چھنگ اور چین نے کسی موقع پر بھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ انہوں نے سب کچھ جھیلا اور لڑتے رہے۔
جاپانی جارحیت کے خلاف ہونے والی چینی عوامی مزاحمتی جنگ کے دوران، چینی فوج اور شہریوں نے3کروڑ 50 لاکھ جانی نقصان کی قیمت چکائی لیکن جاپان کی50 فیصد سے زیادہ سمندر پار سے آنے والی افواج کو ختم کر دیا، جس نے فسطائی مخالف عالمی جنگ کی فتح میں زبردست کردار ادا کیا۔
اتحادی جسے فراموش کر دیا گیا
چھونگ چھنگ شہر کی اہمیت فاشسٹ بمباری کے ہدف سے بڑھ کر تھی۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں دوسری عالمی جنگ کے اہم فیصلے ہوئے تھے، جیسے چین اور اتحادیوں کی مہمات، میانمار میں جوابی کارروائی اور ہمالیہ کے اوپر ہمپ ایئر لفٹ میں ایک دوسرے کی مدد کرنا۔ اس شہر نے عالمی اینٹی فاشسٹ جنگ کے دوران مشرق بعید کے کمانڈ سینٹر کے طور پر کام کیا تھا۔
یہ چھونگ چھنگ شہر ہی تھا کہ جہاں مشرقِ بعید سے آخری ترسیلات بھیجی گئی تھیں اور وہ بھی ستمبر 1945میں یو ایس ایس میسوری پر جاپان کے ہتھیار ڈالنے کے معاہدے پر دستخط کرنے سے ذرا پہلے۔
سابق امریکی صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے ایک بار چھونگ چھنگ کے لوگوں کو ’’مضبوط اور ناقابل فتح‘‘ قرار دیا تھا۔
ٹائم کے صحافی تھیوڈور ایچ وائٹ نے ان لوگوں کوایسی آبادی کے طور پر بیان کیا تھا جسے ’’چین کی عظمت پر یقین اور جاپانیوں کے خلاف اپنی سرزمین کو تھامے رکھنے کے جذبے ‘‘نے متحد کر دیا تھا۔
تاہم ،اسٹالن گراڈ یا لندن کے برعکس، چین کے اس سورمائی شہر کو اس طرح کی پہچان کم ہی حاصل ہوئی۔ آکسفورڈ کے مورخ رانا مٹر نے اپنی کتاب "فراموش کردہ اتحادی: چین کی دوسری جنگ عظیم، ‘‘1937-1945میں لکھا ، ’’کئی دہائیوں سے، اس عالمی تنازعہ کے بارے میں ہماری سمجھ چین کے کردار کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام ہے۔‘‘
رانا مٹر نے اپنی اس کتاب میں، جسے وال اسٹریٹ جرنل نے چین کو اس کا ’’تاریخی حق دینا ‘‘کے طور پر بیان کیا ہے، یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ ’’اگر ہم آج کے عالمی معاشرے میں چین کے کردار کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں خود کو اس المناک، ٹائٹینک جدوجہد کے بارے میں اچھی طرح سے یاد دلاتے رہنا چاہیے جو اس ملک نے 1930 اور 1940کی دہائیوں میں کی تھی۔‘‘
بم گرنے سے گڑھا پڑ جانے والی ایک جگہ پر،چھونگ چھنگ کے رہائشیوں نے ایک بار لکڑی کا ایک ٹاور کھڑا کیا تھا جس پرجلی حروف میں لکھا تھا:’’حوصلہ مندی کا قلعہ‘‘۔ اب یہ جگہ لبریشن مونومنٹ کے طور پر نمایاں ہے ، اور شہر کی ایک اہم نشانی ہے۔
سو یوانکوئی جس دفتر میں کام کرتے ہیں وہ’’5جون والی ٹنل ٹریجڈی‘‘ کے کھنڈرات سے قریب واقع ہے۔ انہوں نے جاپانی بمباری کے متاثرین کو انصاف دلوالنے کے لیے اپنی طویل قانونی جنگ کا ذکر ایک ایسے بینر کے سامنے کیا جس پر لکھا ہے ’’وقار کا دفاع کرو، انصاف کو تھامے رہو۔‘‘
2015میں، جاپان کے شہر ٹوکیو کی ایک ضلعی عدالت نے سُو اور دیگر زندہ بچ جانے والے مدعیان، جن کی تعداد مجموعی طور پر 188تھی، کی طرف سے لائے گئے مقدمے کو مسترد کر دیا ۔ یہ ایک چونکا دینے والی مختصر عدالتی کارروائی تھی جو محض 48 سیکنڈ تک جاری رہی۔
سُو نے کہا ، ’’آپ کسی کے قدموں پر قدم رکھیں، اور پھر ان ہی سے معافی کی امید رکھیں۔افسوس کا اظہار تو ایک طرف رہا، یہ لوگ تو اتنے سارے لوگوں کو قتل کرنے کو ہی تسلیم نہیں کریں گے۔
امن کا مستقل حصول
چھونگ چھنگ اسٹیل ویل میوزیم میں زائرین دوسری عالمی جنگ کے دوران چینی فوجیوں کے شانہ بشانہ لڑنے والے امریکی کمانڈر جنرل جوزف اسٹیل ویل کی میراث ڈھونڈ سکتے ہیں۔
یہاں رکھی نمائشی اشیا میں ، اس کی چینی نصابی کتب سے لے کر امریکی ہوا بازوں کی وردیوں پر سلائی ہوئی ’’کپڑے کی پرچیاں‘‘ جن پر لکھا ہے: ’’یہ غیر ملکی چین کی مدد کے لیے آیا ہے۔ براہِ کرم اسے بچائو‘‘ ایک مشترکہ جدوجہد کی گواہ ہیں۔
میوزیم کے کیوریٹر تایان کا کہنا تھا، ’’ایک میوزیم کو صرف تاریخ ہی نہیں، مستقبل بھی دکھانا چاہیے۔‘‘
ایک امریکی مہمان نے حال ہی میں مہمانوں کی کتاب میں اپنے ایک پیغام میں لکھا: ’’خدا کرے دوستی قائم رہے، اور دنیا امن سے آشنا ہو جائے۔‘‘
اسّی سال بعد بھی، چین، جو دوسری عالمی جنگ میں ایک اہم اتحادی ملک تھا، اب بھی محوری طاقتوں کے خلاف اپنی جدوجہد کی یادوں کو عزت دیتا ہے، اور انھیں محفوظ اور یاد رکھنے کی کوششیں جار ی رکھے ہوئے ہے۔
چینی اسکالروں نے دوسری عالمی جنگ پر بنائی گئی آسکر ایوارڈ یافتہ ایک دستاویزی فلم ’’کوکان‘‘ کو بحال کر دیا ہے، اور اسے جون میں امریکہ میں دکھایا گیا ہے۔
اسٹیل ویل میوزیم کیلیفورنیا میں ایک تصویری نمائش کی میزبانی کرے گا اور یوں چین بھر سے حاصل کیے گئے جنگ کے نوادرات زائرین کو اپنی طرف متوجہ کریں گے۔
چینی مورخ ژو یونگ کے نزدیک، جنگ کا حقیقی نتیجہ اب بھی غیر واضح ہے۔ انہوں نے کہا ، ’’فاشزم کو شکست دینا ایک مشترکہ انسانی فتح تھی۔تاہم ،ابھی تک انصاف، تسلیم کیے جانے اور یاد رکھے جانے کے اہم وعدے پورے نہیں کیے گئے۔‘‘
دوسری عالمی جنگ کے بعد، چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن اور ایک آزاد طاقت کے طور پر ابھرا، جس نے جنگ کے بعد کی دنیا کی تشکیل میں مدد کی۔ اب جب کہ چین ستمبر میں دوبارہ فتح کی یاد منانے کی تیاری کر رہا ہے، جنگ کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔
سویوانکوئی جاپانی جارحیت کے خلاف چینی مزاحمت کی تاریخ کی چینی اکیڈمی کے نائب صدر بھی ہیں، ان کا کہنا ہے، ’’یاد رکھنے کا مطلب صرف ماضی کو یاد رکھنا نہیں، ہمارے جیسے ملک کے لیے، اس کا مطلب مستقبل کا سامنا کرنے کے لیے طاقت کا حصول ہے۔‘‘
7جون 1941کو جنوب مغربی چین کے چھونگ چھنگ میں جاپانی فوج کی طرف سے کیے گئے فضائی حملوں کے بعد کی صورتِ حال۔ لوگ آگ بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (شِنہوا-فائل فوٹو)
23 اگست 2025 ء کو جنوب مغربی چین کی چھونگ چھنگ میونسپلٹی میں شام کے وقت شہر کا منظر (شِنہوا)
19جون 2025ء میں امریکی نوجوان جنوب مغربی چین کی چھونگ چھنگ میونسپلٹی میں اسٹیل ویل میوزیم کا دورہ کر رہے ہیں۔ (شِنہوا)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دوسری عالمی جنگ کے جارحیت کے خلاف فضائی حملوں کے طور پر کے دوران گیا تھا کیے گئے میں ایک کر دیا نے ایک کے لیے جنگ کا چین کی کے بعد کی یاد کی ایک چین کے
پڑھیں:
کراچی: براق پیٹرول پمپ سچل موڑ کے قریب ڈکیتی کی واردات کے دوران مزاحمت پر بھتیجا جاں بحق، چچا زخمی
سپرہائیوے پرواقع براق پیٹرول پمپ سچل موڑ کے قریب ڈکیتی کی واردات کے دوران مزاحمت بھتیجا جاں بحق اورچچا زخمی ہوگیا،چچا کی فائرنگ مسلح ملزمان کی زخمی ہوئے جوکہ موقع پر سے فرارہوگئے۔رواں سال شہر قائد میں ڈکیتی مزاحمت پر جاں بحق ہونے والے شہریوں کی تعداد 76 ہو گئی۔
رپورٹ کے مطابق سچل تھانے کے علاقے سپرہائیوے پر واقع براق پیٹرول پمپ سچل موڑ کے قریب نامعلوم مسلح ملزمان کی فائرنگ سے بچے سمیت 2 افراد شدید زخمی ہو گئے جنہیں فوری طور پرچھیپا ایمبولنس کے ذریعے اسپارکو روڈ پرواقع ڈاؤ اسپتال منتقل کیا گیا جہاں فائرنگ سے شدید زخمی ہونے والے بچے کے جاں بحق ہونے والے بچے کی تصدیق کردی گئی۔
جاں بحق بچے کی شناخت 12 سالہ حسنین ولد محمد قاسم اورزخمی کی شناخت 55 سالہ علی اصغر ولد حاجی بخش کے نام سے کی گئی فائرنگ سے جاں بحق بچہ اورزخمی شخص چچا بھیجا ہیں اوراندرون سندھ دادو کے رہائشی ہیں۔
ایس ایس پی ایسٹ ڈاکٹر فرخ رضا کا کہنا ہے کہ ابتدائی معلومات کے مطابق چھینا جھپٹی کرتے ہوئے فائرنگ ہوئی جس میں 2 اشخاص شدید زخمی ہوئے۔
اسپتال ذرائع ایک شدید زخمی بچے کے جابحق ہونے کی تصدیق کررہے ہیں ایس ایچ او سچل حسب ضابطہ معاملات کی پڑتال کررہے ہیں اور ملزمان کو گرفتار کرتے ہوئے کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔
رابطہ کرنے پر ایس ایچ او سچل امین کھوسو نے بتایا کہ فائرنگ سے جاں بحق و زخمی چچھا بھتیجا سہراب گوٹھ سے حیدر آباد جانے والے سپر ہائیوے پر براق پیٹرول پمپ سچل موڑ کے قریب سڑک کنارے درختوں کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے کہ اسی دوران موٹر سائیکل سوار 2 مسلح ملزمان ڈکیتی کی نیت سے ان کے پاس آکر رکے تو چچا نے اپنا اسلحہ نکال لیا جس پرنامعلوم مسلح ملزمان نے فائرنگ کردی۔
چچا کی جانب سے بھی فائرنگ کی گئی، 2 طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں چچا بھیجا زخمی ہوگئے جب کہ مسلح ملزمان بھی زخمی حالت میں موقع پر سے فرارہوئے۔
زخمی چچا بھتیجے کو فوری طور پر قریبی اسپتال منقتل کیا گیا جہاں فائرنگ سے شدید زخمی ہونے والا 12 سالہ حسنین ولد محمد قاسم جانبر نہ ہوسکا۔
انھوں نے بتایاکہ فائرنگ کا واقعہ ڈکیتی کی واردات کے دوران مزاحمت پر پیش آیا ہے،پولیس زخمی حالت میں موقع پر سے فرار ہونے والے ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔
ملزمان جلد قانون کی گرفت میں ہوںگے ،ادھرنیوکراچی تھانے کے نارتھ کراچی اللہ والی مسجد کے قریب ڈکیتی کی واردات کے دوران مزاحمت پرمسلح ملزمان کی فائرنگ سے 35 سالہ نجم نواز ولد حق نواز زخمی ہوگیا جسے فوری طور پرعباسی شہید اسپتال منتقل کردیا گیا۔
پولیس نے واقعے کی تفتیش شروع کردی۔رواں سال شہرقائد میں ڈکیتی مزاحمت پرجاں بحق ہونے والے شہریوں کی تعداد 76 ہوگئی ۔