دوسری عالمی جنگ اور فراموشی کیخلاف مزاحمت کرتی چین کی یادیں
اشاعت کی تاریخ: 1st, September 2025 GMT
یانگ جیان ہونگ کے بچپن کی یادوں میں، ریڈیو سے آنے والی بین الاقوامی خبروں کی آوازیں آلو بخارے سے بنی مٹھائی کی خوشبو کی طرح جانی پہچانی تھیں۔
یانگ کے والد یانگ یانگ ژینگ ایک خاموش طبع انسان تھے اور ان کے معمولات غیر متزلزل تھے۔ وہ ریڈیو نشریات بیٹھ کر پورے انہماک سے سنتے اور آلو بخارے سے بنی مٹھائی کی تیز شیرینی کا مزہ لیتے، جو شنگھائی کی ایک خاص مٹھائی تھی۔
یانگ جیان ہونگ نے اس خاص مٹھائی کی اہمیت کو بہت بعد میں جا کرسمجھا۔ یہ مٹھائی اس کے والدکے لیے مشرقی چین کے ایک بڑے شہر کی یاد تازہ کرتی تھی۔ وہ شہر جہاں 1937ء میں ایک 23 سالہ نوجوان نے اپنے ساتھی سپاہیوں کے ہمراہ لڑائی لڑی تھی اور ایک گودام میں اپنے سے کئی گنا زیادہ جاپانی افواج کو روکے رکھا تھا۔
ان چینی سپاہیوں کا، جو بعد میں’’800 ہیروز ‘‘کے طور پر امر ہوگئے، جاپانی افواج کو اس طرح روکے رکھنا اس جنگ میں چینی جدوجہد کی ایک واضح علامت بن گیا۔ یہ جاپان کی جارحیت کے خلاف چینی عوامی مزاحمت تھی جو بہت پہلے شروع ہو گئی تھی جسے دنیا نے بعد میں دوسری عالمی جنگ کا ایک حصہ تسلیم کیا۔
چین ان اولین ممالک میں شامل تھا جنہوں نے فاشسٹ جارحیت کے خلاف مزاحمت کی۔ بہت سے مورخین1931 میں شمال مشرقی چین پر جاپانی حملے کو دوسری جنگ عظیم کے ایشیائی تھیٹر کا پیش خیمہ قرار دیتے ہیں۔ چین کی بھرپور مزاحمتی جنگ 1937 میں شروع ہوئی جس سے دوسری عالمی جنگ کے ایشیائی تھیٹر کا آغاز ہوا۔ چین اس جنگ میں برطانیہ، فرانس اور امریکہ سے پہلے داخل ہو گیا تھا۔ یانگ اس جنگ میں دن رات چار روز تک شنگھائی کا دفاع کرتا رہا اور اس دوران اس نے اپنی بائیں آنکھ بھی کھو دی۔کچھ دنوں بعد شہر مفتوح ہوگیا۔
یانگ زخمی تھا لیکن اس نے حوصلہ نہیں ہارا ۔ بالآخر وہ مغرب میں چھونگ چھنگ کی طرف پیچھے ہٹ گیا جو جنگ کے وقت چین کا دارالحکومت بن چکا تھا۔ پھر کئی سال گزرنے کے بعد، پہاڑوں کے درمیان بسا ہوا اور دریائے یانگسی اور جیالنگ سے کی حفاظت میں موجود یہ جنوب مغربی شہر ایک محفوظ دفاعی قلعہ بن گیا اور پھر اس شہر نے یانگ کی طرح، جنگی افراتفری سے بھاگنے والے دیگر لاکھوں فوجیوں اور پناہ گزینوں کا خیرمقدم کیا۔
آلو بخارے والی مٹھائی یانگ کی تسکین کا سبب بنی رہی، گزرے ایام کا ایک لمحاتی ذائقہ جس سے تھوڑے ہی لوگ واقف ہوں گے۔ سال 2010 میں، زندہ بچ جانے والے ’’800 ہیروز ‘‘کے آخری فرد یانگ کا انتقال ہوگیا۔
یانگ کا بیٹا یانگ جیان ہونگ کہتا ہے، ’’وہ دوسری عالمی جنگ کے ہیرو سے بھی بڑھ کر تھے۔ وہ ایسے انسان تھے جس کی میری ماں نے ساری زندگی پوجا کی۔ ‘‘ یانگ نے بتایا کہ یہ مٹھائی چاہے کتنی ہی کمیاب یا مہنگی کیوں نہ ہوتی ، ماں ہمیشہ ان کے لیے کہیں نہ کہیں سے اس کا انتظام کر لیتیں۔
جاپان کے ہتھیار ڈالنے کی یاد میں، ہر سال یہ خاندان میز پر چند اضافی پکوان رکھتا۔ اس روایت کا آغاز اُس وقت ہوا جب یانگ یانگ ژینگ نے اس عورت سے شادی کر لی جس سے وہ محبت کرتا تھا، اور یہ شادی بندوقوں کے خاموش ہونے کے صرف ایک دن بعد ہوئی۔
یانگ کی وراثت اس کے بعد بھی زندہ رہی، وہ یانگ جسے چھونگ چھنگ کی دس سب سے متاثرکن شخصیات میں سے ایک قرار دیا گیا تھا۔
جنگ کی کٹھالی
فاشزم کے خلاف عالمی جنگ میں چین کے میدانِ جنگ نے مشرقی محاذ کی حیثیت سے اتحادیوں کی فتح میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
اُس وقت کے برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل نے ایک بار خبردارکرتے ہوئے کہا تھا، ’’اگر جاپانی مغربی بحر ہند پر حملہ کرتے ہیں تو مشرق وسطیٰ میں ہماری تمام پوزیشنیں ختم ہو جائیں گی، اس صورت ِ حال کو روکنے میں صرف چین ہی ہماری مدد کر سکتا ہے۔‘‘
1938ء میں جنگ کا آغاز کر کے، جاپان نے چھونگ چھنگ کے خلاف بے رحمانہ بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا، مقصد ایک ایسے شہر کو جھکانا تھا جو جھکنا نہیں جانتا تھا۔
برسوں تک، چھونگ چھنگ نے فضائی حملوں کی لہروں کو برداشت کیا۔ ’’ایشین بلٹز‘‘ نے، جس سے کم ہی لوگ واقف ہیں 32 ہزار سے زیادہ افراد کو ہلاک یا زخمی کر دیا۔ ان حملوں نے اس شہر کو آگ اور مزاحمت کا ویسا ہی ایک مرکز بنا دیا جیسے لندن جرمن فضائیہ (لفٹ وافے) کے حملوں کے دوران بن گیا تھا۔
چھونگ چھنگ میں جگہ جگہ فضائی حملوں سے بچنے کے لیے بنائی گئی سولہ سو سے زائدپناہ گاہیں اس وقت دنیا میں سب سے بڑے شہری دفاعی نیٹ ورکس میں سے ایک تھیں۔ ان حملوں میں زندہ بچ جانے والے سو یوانکوئی ، جن کی عمر اب 92 سال ہے، ان حملوں کی سوزشیں اب بھی اپنے ذہن میں محسوس کرتے ہیں۔
5جون 1941 کو جب بموں کی بارش ہو رہی تھی تو اس وقت آٹھ سالہ سو فضائی حملوں سے بچائو کی ایک سرنگ میں گھس گیا تھا۔ اس دوران، دم گھٹنے والی گرمی میں تیل سے روشن کیے گئے لیمپ ٹمٹما رہے تھے، لڑاکا طیاروں کی چنگھاڑ لوگوں کی چیخوں اور ملامتوں میں گھل مل رہی تھی۔
اگلی صبح جب سُو بیدار ہوا تو وہ لاشوں میں گھرا ہوا تھا۔ اس کی دو بہنیں ان ایک ہزار سے زیادہ افراد میں شامل تھیں جو دم گھٹنے اور بھگدڑ کی وجہ سے ہلاک ہوگئے تھے جسے بعد میں دوسری عالمی جنگ کے فضائی حملے کے سب سے مہلک سانحات میں سے ایک قرار دیا گیا۔
سُو نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتایا،’’ اُفق تباہی کا منظر پیش کر رہا تھا اور ایک عمارت بھی محفوظ نہ رہی تھی۔‘‘ تاہم اتنی ہولناکیوں کے باوجودبھی، مجموعی طور پر چھونگ چھنگ اور چین نے کسی موقع پر بھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ انہوں نے سب کچھ جھیلا اور لڑتے رہے۔
جاپانی جارحیت کے خلاف ہونے والی چینی عوامی مزاحمتی جنگ کے دوران، چینی فوج اور شہریوں نے3کروڑ 50 لاکھ جانی نقصان کی قیمت چکائی لیکن جاپان کی50 فیصد سے زیادہ سمندر پار سے آنے والی افواج کو ختم کر دیا، جس نے فسطائی مخالف عالمی جنگ کی فتح میں زبردست کردار ادا کیا۔
اتحادی جسے فراموش کر دیا گیا
چھونگ چھنگ شہر کی اہمیت فاشسٹ بمباری کے ہدف سے بڑھ کر تھی۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں دوسری عالمی جنگ کے اہم فیصلے ہوئے تھے، جیسے چین اور اتحادیوں کی مہمات، میانمار میں جوابی کارروائی اور ہمالیہ کے اوپر ہمپ ایئر لفٹ میں ایک دوسرے کی مدد کرنا۔ اس شہر نے عالمی اینٹی فاشسٹ جنگ کے دوران مشرق بعید کے کمانڈ سینٹر کے طور پر کام کیا تھا۔
یہ چھونگ چھنگ شہر ہی تھا کہ جہاں مشرقِ بعید سے آخری ترسیلات بھیجی گئی تھیں اور وہ بھی ستمبر 1945میں یو ایس ایس میسوری پر جاپان کے ہتھیار ڈالنے کے معاہدے پر دستخط کرنے سے ذرا پہلے۔
سابق امریکی صدر فرینکلن ڈی روز ویلٹ نے ایک بار چھونگ چھنگ کے لوگوں کو ’’مضبوط اور ناقابل فتح‘‘ قرار دیا تھا۔
ٹائم کے صحافی تھیوڈور ایچ وائٹ نے ان لوگوں کوایسی آبادی کے طور پر بیان کیا تھا جسے ’’چین کی عظمت پر یقین اور جاپانیوں کے خلاف اپنی سرزمین کو تھامے رکھنے کے جذبے ‘‘نے متحد کر دیا تھا۔
تاہم ،اسٹالن گراڈ یا لندن کے برعکس، چین کے اس سورمائی شہر کو اس طرح کی پہچان کم ہی حاصل ہوئی۔ آکسفورڈ کے مورخ رانا مٹر نے اپنی کتاب "فراموش کردہ اتحادی: چین کی دوسری جنگ عظیم، ‘‘1937-1945میں لکھا ، ’’کئی دہائیوں سے، اس عالمی تنازعہ کے بارے میں ہماری سمجھ چین کے کردار کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام ہے۔‘‘
رانا مٹر نے اپنی اس کتاب میں، جسے وال اسٹریٹ جرنل نے چین کو اس کا ’’تاریخی حق دینا ‘‘کے طور پر بیان کیا ہے، یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ ’’اگر ہم آج کے عالمی معاشرے میں چین کے کردار کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں خود کو اس المناک، ٹائٹینک جدوجہد کے بارے میں اچھی طرح سے یاد دلاتے رہنا چاہیے جو اس ملک نے 1930 اور 1940کی دہائیوں میں کی تھی۔‘‘
بم گرنے سے گڑھا پڑ جانے والی ایک جگہ پر،چھونگ چھنگ کے رہائشیوں نے ایک بار لکڑی کا ایک ٹاور کھڑا کیا تھا جس پرجلی حروف میں لکھا تھا:’’حوصلہ مندی کا قلعہ‘‘۔ اب یہ جگہ لبریشن مونومنٹ کے طور پر نمایاں ہے ، اور شہر کی ایک اہم نشانی ہے۔
سو یوانکوئی جس دفتر میں کام کرتے ہیں وہ’’5جون والی ٹنل ٹریجڈی‘‘ کے کھنڈرات سے قریب واقع ہے۔ انہوں نے جاپانی بمباری کے متاثرین کو انصاف دلوالنے کے لیے اپنی طویل قانونی جنگ کا ذکر ایک ایسے بینر کے سامنے کیا جس پر لکھا ہے ’’وقار کا دفاع کرو، انصاف کو تھامے رہو۔‘‘
2015میں، جاپان کے شہر ٹوکیو کی ایک ضلعی عدالت نے سُو اور دیگر زندہ بچ جانے والے مدعیان، جن کی تعداد مجموعی طور پر 188تھی، کی طرف سے لائے گئے مقدمے کو مسترد کر دیا ۔ یہ ایک چونکا دینے والی مختصر عدالتی کارروائی تھی جو محض 48 سیکنڈ تک جاری رہی۔
سُو نے کہا ، ’’آپ کسی کے قدموں پر قدم رکھیں، اور پھر ان ہی سے معافی کی امید رکھیں۔افسوس کا اظہار تو ایک طرف رہا، یہ لوگ تو اتنے سارے لوگوں کو قتل کرنے کو ہی تسلیم نہیں کریں گے۔
امن کا مستقل حصول
چھونگ چھنگ اسٹیل ویل میوزیم میں زائرین دوسری عالمی جنگ کے دوران چینی فوجیوں کے شانہ بشانہ لڑنے والے امریکی کمانڈر جنرل جوزف اسٹیل ویل کی میراث ڈھونڈ سکتے ہیں۔
یہاں رکھی نمائشی اشیا میں ، اس کی چینی نصابی کتب سے لے کر امریکی ہوا بازوں کی وردیوں پر سلائی ہوئی ’’کپڑے کی پرچیاں‘‘ جن پر لکھا ہے: ’’یہ غیر ملکی چین کی مدد کے لیے آیا ہے۔ براہِ کرم اسے بچائو‘‘ ایک مشترکہ جدوجہد کی گواہ ہیں۔
میوزیم کے کیوریٹر تایان کا کہنا تھا، ’’ایک میوزیم کو صرف تاریخ ہی نہیں، مستقبل بھی دکھانا چاہیے۔‘‘
ایک امریکی مہمان نے حال ہی میں مہمانوں کی کتاب میں اپنے ایک پیغام میں لکھا: ’’خدا کرے دوستی قائم رہے، اور دنیا امن سے آشنا ہو جائے۔‘‘
اسّی سال بعد بھی، چین، جو دوسری عالمی جنگ میں ایک اہم اتحادی ملک تھا، اب بھی محوری طاقتوں کے خلاف اپنی جدوجہد کی یادوں کو عزت دیتا ہے، اور انھیں محفوظ اور یاد رکھنے کی کوششیں جار ی رکھے ہوئے ہے۔
چینی اسکالروں نے دوسری عالمی جنگ پر بنائی گئی آسکر ایوارڈ یافتہ ایک دستاویزی فلم ’’کوکان‘‘ کو بحال کر دیا ہے، اور اسے جون میں امریکہ میں دکھایا گیا ہے۔
اسٹیل ویل میوزیم کیلیفورنیا میں ایک تصویری نمائش کی میزبانی کرے گا اور یوں چین بھر سے حاصل کیے گئے جنگ کے نوادرات زائرین کو اپنی طرف متوجہ کریں گے۔
چینی مورخ ژو یونگ کے نزدیک، جنگ کا حقیقی نتیجہ اب بھی غیر واضح ہے۔ انہوں نے کہا ، ’’فاشزم کو شکست دینا ایک مشترکہ انسانی فتح تھی۔تاہم ،ابھی تک انصاف، تسلیم کیے جانے اور یاد رکھے جانے کے اہم وعدے پورے نہیں کیے گئے۔‘‘
دوسری عالمی جنگ کے بعد، چین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن اور ایک آزاد طاقت کے طور پر ابھرا، جس نے جنگ کے بعد کی دنیا کی تشکیل میں مدد کی۔ اب جب کہ چین ستمبر میں دوبارہ فتح کی یاد منانے کی تیاری کر رہا ہے، جنگ کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔
سویوانکوئی جاپانی جارحیت کے خلاف چینی مزاحمت کی تاریخ کی چینی اکیڈمی کے نائب صدر بھی ہیں، ان کا کہنا ہے، ’’یاد رکھنے کا مطلب صرف ماضی کو یاد رکھنا نہیں، ہمارے جیسے ملک کے لیے، اس کا مطلب مستقبل کا سامنا کرنے کے لیے طاقت کا حصول ہے۔‘‘
7جون 1941کو جنوب مغربی چین کے چھونگ چھنگ میں جاپانی فوج کی طرف سے کیے گئے فضائی حملوں کے بعد کی صورتِ حال۔ لوگ آگ بجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ (شِنہوا-فائل فوٹو)
23 اگست 2025 ء کو جنوب مغربی چین کی چھونگ چھنگ میونسپلٹی میں شام کے وقت شہر کا منظر (شِنہوا)
19جون 2025ء میں امریکی نوجوان جنوب مغربی چین کی چھونگ چھنگ میونسپلٹی میں اسٹیل ویل میوزیم کا دورہ کر رہے ہیں۔ (شِنہوا)
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: دوسری عالمی جنگ کے جارحیت کے خلاف فضائی حملوں کے طور پر کے دوران گیا تھا کیے گئے میں ایک کر دیا نے ایک کے لیے جنگ کا چین کی کے بعد کی یاد کی ایک چین کے
پڑھیں:
نیو یارک ڈیکلریشن: اسرائیل کی سفارتی تنہائی؟؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250918-03-6
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی حالیہ قرارداد نے مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی منظرنامے میں ایک نئی لہر پیدا کر دی ہے۔ یہ قرارداد، جسے نیو یارک ڈیکلریشن کہا گیا، 142 ووٹوں کی بھاری اکثریت کے ساتھ منظور ہوئی اور اس نے اسرائیل کو ایک واضح سفارتی شکست سے دوچار کیا۔ دنیا کے اکثر ممالک نے ایک بار پھر اسرائیلی جارحیت کو کھلے لفظوں میں چیلنج کیا۔ یہ واقعہ محض ایک ووٹنگ یا علامتی قرارداد نہیں بلکہ بدلتے ہوئے عالمی رجحانات، نئے سفارتی اتحادوں اور طاقت کے توازن کی نشاندہی کرتا ہے۔ فلسطین اور اسرائیل کا تنازع کوئی نیا نہیں۔ یہ مسئلہ ایک صدی سے زائد عرصے سے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتا آ رہا ہے۔ 1917ء کے بالفور اعلامیہ سے لے کر 1948ء کے قیامِ اسرائیل اور اس کے بعد کی عرب اسرائیل جنگوں تک، فلسطینیوں کے حقِ خود ارادیت کو مسلسل پامال کیا گیا۔ 1967ء کی جنگ کے بعد اسرائیل نے مزید فلسطینی علاقوں پر قبضہ کر لیا اور اقوامِ متحدہ کی قرارداد 242 اور دیگر دستاویزات کے باوجود ان علاقوں سے پسپائی اختیار نہ کی۔ فلسطینی عوام کی نسل در نسل جدوجہد اور مسلسل قربانیوں کے باوجود، عالمی برادری کی سیاسی کمزوری اور بڑی طاقتوں کے مفادات نے ہمیشہ اسرائیل کو استثنیٰ بخشا۔
اسی تاریخی تناظر میں جنرل اسمبلی کی حالیہ قرارداد ایک بڑی تبدیلی کا عندیہ دیتی ہے۔ اگرچہ جنرل اسمبلی کی قراردادیں لازمی نفاذ کی قوت نہیں رکھتیں، لیکن یہ دنیا کے اجتماعی شعور اور عالمی سیاسی فضا کا اظہار ضرور کرتی ہیں۔ اسرائیل اور اس کے قریبی اتحادی امریکا کے علاوہ محض نو دیگر ممالک نے اس کی مخالفت کی، جبکہ بارہ ممالک نے غیر جانبداری اختیار کی۔ باقی دنیا کی اکثریت نے دو ریاستی حل کی حمایت کرتے ہوئے اسرائیل پر دباؤ بڑھانے کا پیغام دیا۔ یہ اسرائیل کے لیے ایک سفارتی تنہائی کا لمحہ ہے، جس کے اثرات دیرپا بھی ہو سکتے ہیں۔
قرارداد کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں حماس کی مذمت بھی شامل ہے اور اس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ تاہم یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ قرارداد میں حماس کو آئندہ کسی سیاسی تصفیے میں کردار سے الگ کر دیا گیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حماس کو مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا تو کیا غزہ میں پائیدار امن ممکن ہوگا؟ زمینی حقیقت یہ ہے کہ حماس کو عوامی حمایت حاصل ہے اور اس کے عسکری ڈھانچے کو یکسر نظرانداز کرنا کسی بھی سیاسی بندوبست کو کمزور کر سکتا ہے۔
قطر پر اسرائیل کا حالیہ حملہ اس پورے تناظر میں ایک نیا اور خطرناک رخ ہے۔ قطر وہ ملک ہے جس نے مسلسل ثالث کا کردار ادا کیا، غزہ میں جنگ بندی کی کوششوں میں حصہ لیا اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدوں میں کلیدی شراکت کی۔ ایسے ملک پر حملہ دراصل امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان نے بجا طور پر اس حملے کو غیر قانونی، بلااشتعال اور عالمی قوانین کے منافی قرار دیا۔ پاکستانی مندوب نے اسرائیلی نمائندے کے غیر مناسب بیانات پر بروقت اور سخت ردعمل دے کر یہ ثابت کیا کہ پاکستان نہ صرف فلسطین بلکہ قطر جیسے برادر ممالک کی خودمختاری کے دفاع میں بھی دو ٹوک موقف رکھتا ہے۔
پاکستان کی یہ پالیسی محض اخلاقی یا جذباتی نہیں بلکہ ایک عملی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف اپنی قربانیوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ واضح کیا کہ اسرائیل کی طرف سے دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرنے کی کوشش محض ایک فریب ہے۔ عالمی برادری بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہے کہ پاکستان نے القاعدہ کو ختم کرنے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو کردار ادا کیا وہ کسی اور ملک کے حصے میں نہیں آیا۔ لہٰذا اسرائیل کی جانب سے پاکستان کو نشانہ بنانا نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ اپنی غیر قانونی کارروائیوں سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
قطر نے سوال اٹھایا کہ دنیا کی تاریخ میں کب کسی ثالث کو اس طرح نشانہ بنایا گیا ہے؟ امریکا نے طالبان سے مذاکرات کے دوران کبھی اس طرح کی کارروائی نہیں کی۔ فرانس، برطانیہ، چین اور روس جیسے ممالک نے بھی اسرائیلی حملے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور سفارتی عمل کے لیے نقصان دہ قرار دیا۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے جب اسرائیل کے سب سے قریبی مغربی اتحادی بھی اس کی پالیسیوں پر کھلے لفظوں میں تنقید کر رہے ہیں۔
یہاں ایک بنیادی سوال ابھر کر سامنے آتا ہے: کیا یہ قرارداد اسرائیل کی پالیسیوں میں کوئی حقیقی تبدیلی لا سکے گی؟ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ اسرائیل اکثر قراردادوں کو نظرانداز کرتا آیا ہے۔ 1967ء اور 1973ء کے بعد بھی اقوامِ متحدہ نے کئی قراردادیں منظور کیں، لیکن اسرائیل نے ان پر عمل نہ کیا۔ آج بھی صورت حال مختلف نہیں ہے۔ اسرائیل کو امریکا کی غیر مشروط حمایت اور بعض یورپی ممالک کے تحفظ کی یقین دہانی حاصل رہتی ہے، اس لیے اس کے لیے اقوامِ متحدہ کی قراردادیں محض علامتی دباؤ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ تاہم اس بار فرق یہ ہے کہ عالمی رائے عامہ بدل رہی ہے۔ یورپ کے اندر بھی اسرائیلی پالیسیوں پر تنقید بڑھ رہی ہے، مسلم ممالک زیادہ منظم ہو رہے ہیں، اور چین و روس جیسے ممالک اپنی موجودگی کو زیادہ نمایاں کر رہے ہیں۔
مستقبل کے امکانات کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر یہ دباؤ بڑھتا رہا تو اسرائیل کو سفارتی تنہائی کا سامنا ہوگا، جو بالآخر اسے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی پر مجبور کر سکتا ہے۔ نیو یارک ڈیکلریشن کے بعد 22 ستمبر کو ہونے والا نیویارک اجلاس اور پھر دوحا کانفرنس اس حوالے سے اگلے سنگِ میل ثابت ہو سکتے ہیں۔ اگر مسلم دنیا، یورپی ممالک اور عالمی طاقتیں مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں تو نہ صرف غزہ میں جنگ بندی ممکن ہوگی۔
اختتامی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی حالیہ قرارداد اسرائیل کے لیے ایک بڑی سفارتی شکست ہے۔ قطر پر حملہ اور اس کے بعد کے عالمی ردعمل نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل اب اپنی پالیسیوں کو بغیر کسی احتساب کے جاری نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان اور دیگر ممالک کا دو ٹوک موقف اس حقیقت کا غماز ہے کہ اب دنیا کے بیشتر ممالک اسرائیل کی طاقت کے سامنے خاموش رہنے کو تیار نہیں۔ البتہ اصل امتحان آنے والے دنوں کا ہے جب یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا یہ قراردادیں محض کاغذی بیانات تک محدود رہتی ہیں یا پھر عملی اقدامات کی صورت اختیار کرتی ہیں۔ عالمی برادری کو اس بار اپنی سنجیدگی اور عزم کا ثبوت دینا ہوگا، کیونکہ فلسطین کا مسئلہ محض ایک خطے کا مسئلہ نہیں بلکہ عالمی انصاف، انسانی حقوق اور بین الاقوامی امن کا سوال ہے۔