سیلاب سے کیسے نبٹا جائے
اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT
پاکستان میں سیلاب کی خطرناک صورتحال برقرار ہے۔ پنجاب کے تمام دریاؤں میں سیلاب کی صورتحال ہے۔ سیلاب کی اس خطرناک صورتحال سے نبٹنے کے لیے صوبائی حکومتیں اپنے اپنے طور پر کام کر رہی ہیں۔ کوئی اچھا کام کر رہا ہے کوئی کم کام کر رہا ہے۔ اس پر بحث اور بات ہو سکتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ابھی صرف ریسکیو کاکام ہو رہا ہے۔ ابھی لوگوں کو زندہ بچانے اور انھیں سیلاب زدہ علاقوں سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچانے کا کام ہو رہا ہے۔ جو تباہی ہو گئی ہے وہ اپنی جگہ موجود ہے۔ جب پانی گزر جانے کے بعد لوگ واپس اپنے گھروں پر جائیں گے تو پھر مصیبتوں کا ایک پہاڑ اپنی جگہ موجود ہوگا۔
اس دفعہ سیلاب کی تباہ کاریوں میں حکومتیں تو کافی حد تک متحرک نظرآئی ہیں۔ لیکن مخیر حضرات خاموش نظر آئے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لوگوں میں مدد کرنے کا وہ جذبہ نظر نہیں آیا۔ سیاسی جماعتوں نے بھی لوگوں کی مدد کے لیے عوام کو متحرک نہیں کیا ہے، این جی اوز بھی اس طرح متحرک نظر نہیں آئی ہیں، بڑے کاروباری اداروں کی طرف سے بھی کوئی خاص اعلانات سامنے نہیں آئے ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔
میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ لوگوں کا جو نقصان ہوا ہے۔ اس میں ان کی بحالی کا کام بہت مشکل ہوگا۔ سیلاب نے بہت علاقوں کو متاثر کیا ہے، لوگوں کا بہت نقصان ہوگیا ہے، اس نقصان کے ازالے کی حکومت کے پاس ابھی کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ لوگوں کے گھر ڈوب گئے ہیں، کھیت تباہ ہوگئے ہیں، جانور بہہ گئے ہیں، گھر کی چیزیں تباہ ہو گئی ہیں۔ لوگوں کو سیلاب زدہ علاقوں سے نکالا گیا ہے لیکن وہ خالی ہاتھ نکالے گئے ہیں۔
ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی وہیں رہ گئی ہے۔ جب وہ واپس جائیں گے تو اس نقصان سے نبٹنا ان کے لیے بہت مشکل ہوگا۔ لوگ سڑکوں پر کیمپوں میں تو پہنچ گئے ہیں۔ وہاں انھیں کھانا بھی مل رہا ہے لیکن جب وہ گھر جائیں گے پانی اتر جائے گا تب دو وقت کی روٹی ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہوگا۔ میں نہیں سمجھتا کوئی بھی حکومت اتنے بڑے علاقے میں پانی سے آنے والی تباہی اور لوگوں کا نقصان پورا کر سکتی ہے۔ یہ نقصان لوگوں نے خود ہی سہنا ہے۔ ہمیں اس کا اندازہ ہونا چاہیے۔
پنجاب کے میدانی علاقوں میں ہونے والے نقصان کے بعد یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ سیلاب سے نبٹنے کے لیے کیا حکمت عملی بنائی جائے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے ڈیم نہیں بنائے اس لیے ہمارا اتنا زیادہ نقصان ہو گیا۔ اگر ہم نے ڈیم بنائے ہوتے تو اتنا نقصان نہیں ہوتا۔ یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ کیا سیلاب سے نبٹنے کے لیے ٖ ڈیم درست پالیسی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں جب بھارت سے پانی پاکستان میں داخل ہوتا ہے تو یہ سارا میدانی علاقہ ہے۔ ڈیم تو پہاڑی علاقوں میں بنتے ہیں۔ میدانی علاقوں میں تو ڈیم نہیں بن سکتے۔ سوال تو یہ ہے کہ پنجاب کے میدانی علاقوں کو سیلاب سے کیسے محفوظ کیا جائے۔
سوال یہ بھی ہے کہ بارشیں زیادہ ہونے لگ گئی ہیں۔ کلاؤڈ برسٹ کا سامنا ہے۔ شہر بارشوں سے ڈوب رہے ہیں۔ شہروں کو محفوظ کرنے کی کیا حکمت عملی بنائی جائے۔ اربن فلڈنگ سے کیسے نبٹا جائے۔ محکمہ موسمیات والے پیش گوئی کر رہے ہیں کہ اگلے سال 22فیصد زیادہ بارشیںہونگی۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب 22فیصد زیادہ بارشیں ہوں گی تو شہروں کی کیا حالت ہوگی۔ کیا ہم ہر سال خاموش تماشائی بن کر یہ تباہی دیکھا کریں گے یا ہمارے پاس اس ساری صورتحال سے نبٹنے کے لیے کوئی حکمت عملی ہے اور کیا ایک سال میں اس حکمت عملی پر کام مکمل ہو سکتا ہے۔ جہاں اس سال کی تباہی سے ہونے والے نقصانات کا سامنا ہے۔ وہاں اگلے سال زیادہ نقصان کا واضح خدشہ بھی موجود ہے۔ اس کی بھی کوئی حکمت عملی بنانی ہے۔
صوبہ سندھ والوں کے گلے شکوے سنے ہیں۔ انھیں شاید پنجاب سے بری صورتحال کا سامنا ہے۔ پنجاب کے تمام دریاؤں کا پانی اکٹھا ہو کر سندھ پہنچ رہا ہے۔ میں نے وزیر اعلیٰ سندھ کو سنا ہے کہ انھیں پنجاب سے بڑے خطرات کا سامنا ہے۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس کا ایک سیاسی طنز میں جواب دیا ہے کہ سندھ والوں کے لیے تو دریائے سندھ کا پانی بہت مقدس ہے وہ اس کو سنبھال کر رکھ لیں۔
وہ یہ بات اس لیے کر رہے ہیں کہ سندھ والے دریائے سندھ پر نہ تو کوئی ڈیم بنانے دیتے ہیں اور نہ ہی دریائے سندھ سے کوئی نہر نکالنے دیتے ہیں۔ اس لیے جب وہ پانی کو اسٹور کرنے کے ہی خلاف ہیں تو اس سیلاب کی تباہی سے انھیں کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ 2022میں بھی دریائے سندھ پر شدید سیلاب آیا تھا۔ لاکھوں لوگوں کے گھر تباہ ہوگئے تھے۔ عالمی امداد سے سندھ حکومت ان لوگوں کو گھر بنا کر بھی دے رہی ہے۔
لیکن سوال پھر وہی ہے کہ 2022 کے سیلاب متاثرین کو گھر تو بنا کر دیے جا رہے ہیں، وہ گھر ابھی مکمل بنے بھی نہیں ہیں اور پھر ایک اور بڑے سیلاب کا سامنا ہے۔ پھر ہزاروں لاکھوں متاثرین سامنے آجائیں گے۔ کیا حکومتوں کا زور صرف ریسکیو کے کاموں پر ہی ہوگا۔ ہم سیلاب سے نبٹنے کے لیے کوئی کام نہیں کریں گے۔ سیلاب کے پانی کی تباہی سے کیسے بچا جائے اور پھر اس کوکیسے استعمال میں لایا جائے اس پر کوئی کام نظر نہیں آرہا ہے۔
پنجاب میں دریاؤں کے راستوں میں آباد کاری ہوگئی ہے۔ لوگوں نے گھر بنا لیے ہیں۔ لیکن اب ان کے گھرسیلاب سے تباہ ہوگئے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ان گھروں کو بحال کر بھی لیا جائے تو اگلے سال پھر تباہ ہو جائیں گے۔ ہمیں کسی مستقل حل کی طرف جانا ہوگا۔ دریاؤں کے راستے صاف کرنے ہوں گے۔ حکومت کو ایک سخت پالیسی بنانی ہوگی۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اب ہر سال یا ہر دوسرے سال اتنا پانی آسکتا ہے۔ ہم نے اس کی تیاری کرنی ہے ۔ جو ابھی تک ہم نے نہیں کی ہے۔ یہ بڑا مسئلہ ہے۔
سیلاب سے نبٹنے کے لیے چاروں صوبوں کا وسیع اتفاق رائے بھی ضروری ہے۔ میرا پانی میرا پانی کی سوچ سے باہر آنا ہوگا، پانی سب کا نقصان کر رہا ہے۔ پانی سب کی تباہی کر رہا ہے۔ وہ میری اور آپ کی کوئی تقسیم نہیں کر رہا ہے۔ صرف پنجاب اکیلا خود کو محفوظ نہیں کر سکتا۔ پنجاب اور سندھ کو مل کر محفوظ کرنا ہوگا۔ جب سب اکٹھے بیٹھیں گے تو حل نکلے گا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سیلاب سے نبٹنے کے لیے دریائے سندھ کا سامنا ہے حکمت عملی کر رہا ہے سیلاب کی کی تباہی پنجاب کے جائیں گے کی تباہ گئے ہیں سے کیسے تباہ ہو رہے ہیں نہیں ا
پڑھیں:
کسانوں کے نقصان کا ازالہ نہ ہوا تو فوڈ سیکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی، وزیراعلیٰ سندھ
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سیلاب کی پیک گڈو بیراج سے گزر چکی ہے اور اب اس میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے، جب کہ اس وقت سکھر بیراج پر پیک موجود ہے اور امید ہے کہ آج وہاں بھی صورتحال بہتر ہونا شروع ہوجائے گی۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سیلاب سے کسانوں کو پہنچنے والے نقصان کا فوری حل نکالنا ضروری ہے ورنہ فوڈ سیکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی۔ کراچی میں وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سیلاب سے کسانوں کو پہنچنے والے نقصان کا فوری حل نکالنا ضروری ہے، بصورت دیگر ملک میں فوڈ سیکیورٹی کے سنگین مسائل پیدا ہوں گے جنہیں سنبھالنا مشکل ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے چیئرمین بلاول بھٹو کی تجویز پر نوٹس لیتے ہوئے ایگریکلچرل ایمرجنسی نافذ کی ہے اور وفاقی سطح پر ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے، جس میں صوبوں کے نمائندے شامل ہیں جو موجودہ صورتحال کے حل کے لیے اقدامات کریں گے۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر سندھ حکومت نے کسانوں کی امداد کے لیے ایک پیکج کا خاکہ تیار کیا ہے، جس کی تفصیلات اگلے ہفتے سامنے لائی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین بلاول بھٹو کا وژن تھا کہ اقوام متحدہ کی سطح پر فلیش اپیل کی جائے اور گزشتہ روز وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والی میٹنگ میں یہ معاملہ زیر بحث آیا، جس پر سندھ سمیت تمام صوبائی حکومتوں نے اتفاق کیا۔ انہوں نے بتایا کہ سیلاب کے آغاز پر ہی سندھ حکومت نے اپنی تیاری شروع کردی تھی، جس میں اولین ترجیح لوگوں کی جان بچانا، بیراجز کو محفوظ بنانا اور بندوں کو مضبوط کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سیلاب کی پیک گڈو بیراج سے گزر چکی ہے اور اب اس میں کمی آنا شروع ہوگئی ہے، جب کہ اس وقت سکھر بیراج پر پیک موجود ہے اور امید ہے کہ آج وہاں بھی صورتحال بہتر ہونا شروع ہوجائے گی۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اب پانی سکھر سے کوٹھری کی جانب بڑھ رہا ہے، جہاں پر منتخب نمائندے اور ڈیزاسٹر منیجمنٹ کی ٹیمیں موجود ہیں تاکہ پانی خیریت سے گزر سکے، پیش گوئی کے مطابق 8 سے 11 لاکھ کیوسک پانی آنے کا خدشہ تھا، اسی حساب سے صوبہ سندھ نے اپنی تیاری مکمل رکھی۔ مراد علی شاہ نے کہا کہ اس موقع پر ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ، ڈیزاسٹر منیجمنٹ، ضلعی انتظامیہ، محکمہ صحت، لائف اسٹاک ڈپارٹمنٹ اور مقامی افراد نے بھرپور تعاون اور کردار ادا کیا ہے، جس پر وہ سب کے شکر گزار ہیں۔