Express News:
2025-11-03@02:03:58 GMT

سیلاب سے کیسے نبٹا جائے

اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT

پاکستان میں سیلاب کی خطرناک صورتحال برقرار ہے۔ پنجاب کے تمام دریاؤں میں سیلاب کی صورتحال ہے۔ سیلاب کی اس خطرناک صورتحال سے نبٹنے کے لیے صوبائی حکومتیں اپنے اپنے طور پر کام کر رہی ہیں۔ کوئی اچھا کام کر رہا ہے کوئی کم کام کر رہا ہے۔ اس پر بحث اور بات ہو سکتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ابھی صرف ریسکیو کاکام ہو رہا ہے۔ ابھی لوگوں کو زندہ بچانے اور انھیں سیلاب زدہ علاقوں سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچانے کا کام ہو رہا ہے۔ جو تباہی ہو گئی ہے وہ اپنی جگہ موجود ہے۔ جب پانی گزر جانے کے بعد لوگ واپس اپنے گھروں پر جائیں گے تو پھر مصیبتوں کا ایک پہاڑ اپنی جگہ موجود ہوگا۔

اس دفعہ سیلاب کی تباہ کاریوں میں حکومتیں تو کافی حد تک متحرک نظرآئی ہیں۔ لیکن مخیر حضرات خاموش نظر آئے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ لوگوں میں مدد کرنے کا وہ جذبہ نظر نہیں آیا۔ سیاسی جماعتوں نے بھی لوگوں کی مدد کے لیے عوام کو متحرک نہیں کیا ہے، این جی اوز بھی اس طرح متحرک نظر نہیں آئی ہیں، بڑے کاروباری اداروں کی طرف سے بھی کوئی خاص اعلانات سامنے نہیں آئے ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔

میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ لوگوں کا جو نقصان ہوا ہے۔ اس میں ان کی بحالی کا کام بہت مشکل ہوگا۔ سیلاب نے بہت علاقوں کو متاثر کیا ہے، لوگوں کا بہت نقصان ہوگیا ہے، اس نقصان کے ازالے کی حکومت کے پاس ابھی کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ لوگوں کے گھر ڈوب گئے ہیں، کھیت تباہ ہوگئے ہیں، جانور بہہ گئے ہیں، گھر کی چیزیں تباہ ہو گئی ہیں۔ لوگوں کو سیلاب زدہ علاقوں سے نکالا گیا ہے لیکن وہ خالی ہاتھ نکالے گئے ہیں۔

ان کی زندگی بھر کی جمع پونجی وہیں رہ گئی ہے۔ جب وہ واپس جائیں گے تو اس نقصان سے نبٹنا ان کے لیے بہت مشکل ہوگا۔ لوگ سڑکوں پر کیمپوں میں تو پہنچ گئے ہیں۔ وہاں انھیں کھانا بھی مل رہا ہے لیکن جب وہ گھر جائیں گے پانی اتر جائے گا تب دو وقت کی روٹی ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہوگا۔ میں نہیں سمجھتا کوئی بھی حکومت اتنے بڑے علاقے میں پانی سے آنے والی تباہی اور لوگوں کا نقصان پورا کر سکتی ہے۔ یہ نقصان لوگوں نے خود ہی سہنا ہے۔ ہمیں اس کا اندازہ ہونا چاہیے۔

پنجاب کے میدانی علاقوں میں ہونے والے نقصان کے بعد یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ سیلاب سے نبٹنے کے لیے کیا حکمت عملی بنائی جائے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے ڈیم نہیں بنائے اس لیے ہمارا اتنا زیادہ نقصان ہو گیا۔ اگر ہم نے ڈیم بنائے ہوتے تو اتنا نقصان نہیں ہوتا۔ یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ کیا سیلاب سے نبٹنے کے لیے ٖ ڈیم درست پالیسی ہے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں جب بھارت سے پانی پاکستان میں داخل ہوتا ہے تو یہ سارا میدانی علاقہ ہے۔ ڈیم تو پہاڑی علاقوں میں بنتے ہیں۔ میدانی علاقوں میں تو ڈیم نہیں بن سکتے۔ سوال تو یہ ہے کہ پنجاب کے میدانی علاقوں کو سیلاب سے کیسے محفوظ کیا جائے۔

سوال یہ بھی ہے کہ بارشیں زیادہ ہونے لگ گئی ہیں۔ کلاؤڈ برسٹ کا سامنا ہے۔ شہر بارشوں سے ڈوب رہے ہیں۔ شہروں کو محفوظ کرنے کی کیا حکمت عملی بنائی جائے۔ اربن فلڈنگ سے کیسے نبٹا جائے۔ محکمہ موسمیات والے پیش گوئی کر رہے ہیں کہ اگلے سال 22فیصد زیادہ بارشیںہونگی۔ سوال یہ بھی ہے کہ جب 22فیصد زیادہ بارشیں ہوں گی تو شہروں کی کیا حالت ہوگی۔ کیا ہم ہر سال خاموش تماشائی بن کر یہ تباہی دیکھا کریں گے یا ہمارے پاس اس ساری صورتحال سے نبٹنے کے لیے کوئی حکمت عملی ہے اور کیا ایک سال میں اس حکمت عملی پر کام مکمل ہو سکتا ہے۔ جہاں اس سال کی تباہی سے ہونے والے نقصانات کا سامنا ہے۔ وہاں اگلے سال زیادہ نقصان کا واضح خدشہ بھی موجود ہے۔ اس کی بھی کوئی حکمت عملی بنانی ہے۔

صوبہ سندھ والوں کے گلے شکوے سنے ہیں۔ انھیں شاید پنجاب سے بری صورتحال کا سامنا ہے۔ پنجاب کے تمام دریاؤں کا پانی اکٹھا ہو کر سندھ پہنچ رہا ہے۔ میں نے وزیر اعلیٰ سندھ کو سنا ہے کہ انھیں پنجاب سے بڑے خطرات کا سامنا ہے۔ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس کا ایک سیاسی طنز میں جواب دیا ہے کہ سندھ والوں کے لیے تو دریائے سندھ کا پانی بہت مقدس ہے وہ اس کو سنبھال کر رکھ لیں۔

وہ یہ بات اس لیے کر رہے ہیں کہ سندھ والے دریائے سندھ پر نہ تو کوئی ڈیم بنانے دیتے ہیں اور نہ ہی دریائے سندھ سے کوئی نہر نکالنے دیتے ہیں۔ اس لیے جب وہ پانی کو اسٹور کرنے کے ہی خلاف ہیں تو اس سیلاب کی تباہی سے انھیں کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ یہ درست ہے کہ 2022میں بھی دریائے سندھ پر شدید سیلاب آیا تھا۔ لاکھوں لوگوں کے گھر تباہ ہوگئے تھے۔ عالمی امداد سے سندھ حکومت ان لوگوں کو گھر بنا کر بھی دے رہی ہے۔

لیکن سوال پھر وہی ہے کہ 2022 کے سیلاب متاثرین کو گھر تو بنا کر دیے جا رہے ہیں، وہ گھر ابھی مکمل بنے بھی نہیں ہیں اور پھر ایک اور بڑے سیلاب کا سامنا ہے۔ پھر ہزاروں لاکھوں متاثرین سامنے آجائیں گے۔ کیا حکومتوں کا زور صرف ریسکیو کے کاموں پر ہی ہوگا۔ ہم سیلاب سے نبٹنے کے لیے کوئی کام نہیں کریں گے۔ سیلاب کے پانی کی تباہی سے کیسے بچا جائے اور پھر اس کوکیسے استعمال میں لایا جائے اس پر کوئی کام نظر نہیں آرہا ہے۔

پنجاب میں دریاؤں کے راستوں میں آباد کاری ہوگئی ہے۔ لوگوں نے گھر بنا لیے ہیں۔ لیکن اب ان کے گھرسیلاب سے تباہ ہوگئے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ان گھروں کو بحال کر بھی لیا جائے تو اگلے سال پھر تباہ ہو جائیں گے۔ ہمیں کسی مستقل حل کی طرف جانا ہوگا۔ دریاؤں کے راستے صاف کرنے ہوں گے۔ حکومت کو ایک سخت پالیسی بنانی ہوگی۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اب ہر سال یا ہر دوسرے سال اتنا پانی آسکتا ہے۔ ہم نے اس کی تیاری کرنی ہے ۔ جو ابھی تک ہم نے نہیں کی ہے۔ یہ بڑا مسئلہ ہے۔

سیلاب سے نبٹنے کے لیے چاروں صوبوں کا وسیع اتفاق رائے بھی ضروری ہے۔ میرا پانی میرا پانی کی سوچ سے باہر آنا ہوگا، پانی سب کا نقصان کر رہا ہے۔ پانی سب کی تباہی کر رہا ہے۔ وہ میری اور آپ کی کوئی تقسیم نہیں کر رہا ہے۔ صرف پنجاب اکیلا خود کو محفوظ نہیں کر سکتا۔ پنجاب اور سندھ کو مل کر محفوظ کرنا ہوگا۔ جب سب اکٹھے بیٹھیں گے تو حل نکلے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سیلاب سے نبٹنے کے لیے دریائے سندھ کا سامنا ہے حکمت عملی کر رہا ہے سیلاب کی کی تباہی پنجاب کے جائیں گے کی تباہ گئے ہیں سے کیسے تباہ ہو رہے ہیں نہیں ا

پڑھیں:

پاکستان کرکٹ زندہ باد

کراچی:

’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔ 

اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔ 

اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔ 

تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟

بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔

اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔ 

ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔ 

البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟

ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔ 

اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔

یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟

مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔ 

پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔

لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔ 

یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟

پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔ 

خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔

میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟

ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟

ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • لیفٹیننٹ گورنر"ریاستی درجے" کے معاملے پر لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں، فاروق عبداللہ
  • سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف
  • بغیر نمبر پلیٹ گاڑیوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم
  • ڈنگی کی وبا، بلدیاتی اداروں اور محکمہ صحت کی غفلت
  • لاہورمیں الیکٹرک ٹرام منصوبہ مؤخر، فنڈز سیلاب متاثرین کو منتقل
  • دہشت گردی پاکستان کےلیے ریڈ لائن ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، بیرسٹر دانیال چوہدری
  • معاملات بہتر کیسے ہونگے؟
  • کراچی گندا نہیں، لوگوں کی سوچ گندی ہے:جویریہ سعود