پاکستان میں پھنسے افغان مہاجرین کا پہلا گروپ جرمنی پہنچ گیا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT
جرمنی نے بالآخر پاکستان میں پھنسے افغان مہاجرین کے ایک گروپ کو پناہ دے دی۔ یہ 47 افراد پر مشتمل 10 خاندان تھے، جو طالبان کے 2021 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد پاکستان منتقل ہوئے تھے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق افغان مہاجرین استنبول سے ہنوور پہنچے، جہاں وزارتِ داخلہ نے ان کے داخلے کی تصدیق کی۔ ترجمان نے بتایا کہ یہ سب افراد قانونی ویزا اور سیکیورٹی جانچ مکمل کرنے کے بعد جرمنی میں داخل ہوئے۔
ایئر برج کابل نامی امدادی تنظیم نے بتایا کہ باقی دو افراد بھی بعد میں پرواز کے ذریعے پہنچ گئے۔ ان میں شامل ایک افغان ماں اور بیٹی نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ تعلیم اور روزگار کے بہتر مواقع کے ساتھ نئی زندگی شروع کر سکیں گی۔
خیال رہے کہ جرمنی نے شروع میں ان افغانوں کو پناہ دینے کا وعدہ کیا تھا، جنہوں نے جرمن اداروں کے لیے کام کیا یا جنہیں طالبان کے دور میں خطرات لاحق تھے۔ تاہم، موجودہ حکومت نے مئی 2025 میں اس پروگرام کو روک دیا تھا، جس سے ہزاروں افغان پاکستان میں پھنس گئے۔
گزشتہ ماہ جرمنی نے بتایا تھا کہ 450 افغان شہری گرفتار کیے گئے، جن میں سے 200 کو واپس افغانستان بھیج دیا گیا۔ اب صرف وہ افغان، جنہیں عدالتوں نے ویزا دینے کا حکم دیا ہے، مرحلہ وار جرمنی لائے جا رہے ہیں۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
تنزانیہ میں صدارتی انتخابات کے خلاف پُرتشدد مظاہرے، ہلاکتیں 700 تک پہنچ گئیں
تنزانیہ میں متنازع صدارتی انتخابات کے بعد شروع ہونے والے مظاہرے شدت اختیار کر گئے، جن میں ہلاکتوں کی تعداد 700 سے تجاوز کر گئی ہے۔ ملک کے مختلف شہروں میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے اور امن و امان مکمل طور پر بگڑ چکا ہے۔
اپوزیشن جماعت کے ترجمان کے مطابق صرف دارالسلام میں 350 اور موانزا میں 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ترجمان نے بتایا کہ یہ اعداد و شمار پارٹی کارکنوں نے اسپتالوں اور طبی مراکز سے جمع کی گئی معلومات کی بنیاد پر مرتب کیے ہیں۔
دوسری جانب ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ مصدقہ معلومات کے مطابق کم از کم 100 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہوچکی ہے، تاہم اصل تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔
بڑھتی ہوئی بدامنی کے باعث ملک بھر میں فوج تعینات کردی گئی ہے، جب کہ انٹرنیٹ سروس بند اور کرفیو نافذ ہے۔ کئی شہروں میں احتجاج تشدد میں بدل گیا، مشتعل مظاہرین نے دارالسلام ایئرپورٹ پر دھاوا بول دیا، بسوں، پیٹرول پمپس اور پولیس اسٹیشنز کو آگ لگا دی اور متعدد پولنگ مراکز تباہ کر دیے۔
بحران کی جڑ حالیہ صدارتی انتخابات ہیں جن میں صدر سامیہ سُلوحو حسن نے 96.99 فیصد ووٹ حاصل کیے، جب کہ دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کے امیدواروں کو انتخابی دوڑ سے قبل ہی نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔
اپوزیشن جماعتوں نے نتائج کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات “جمہوریت پر کھلا حملہ” اور “عوامی مینڈیٹ کی توہین” ہیں۔
تنزانیہ میں اس وقت نہ صرف سیاسی بلکہ انسانی حقوق کا بحران بھی گہرا ہوتا جا رہا ہے، اور عالمی برادری سے فوری مداخلت کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔