پاکستان میں دو سے 3 ارب کے آن لائن فراڈ کیسز رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT
اسلام آباد:
نیشنل سائبر کرائم ایجنسی (این سی سی آئی اے) نے کہا ہے کہ پاکستان میں 2 سے 3 ارب روپے کی آن لائن مالی فراڈ کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں تاہم مجموعی طور پر 63 غیر قانونی کال سینیٹرز پر چھاپے مارے گئے ہیں۔
سینیٹ قائمہ کمیٹی آئی ٹی اینڈ ٹیلی کام کا اجلاس سینیٹر پلوشہ خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں ہوا جہاں کمیٹی کو ملک بھر میں کال سینٹرز اور سافٹ ویئر ہاؤسز کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔
این سی سی آئی اے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ غیر قانونی کال سینٹرز سے عام آدمی کو مختلف کالز آتی ہیں، مختلف حیلے بہانوں سے لوٹنے کے لیے سرمایہ کاری کی ترغیب دی جاتی ہے، آج کل واٹس ایپ ہیکنگ کے ذریعے مالی فراڈ زیادہ چل رہا ہے، فیملی اور دوستوں سے واٹس ایپ کے ذریعے پیسے منگوا لیے جاتے ہیں۔
سینیٹ کمیٹی کو بتایا گیا کہ پاکستان میں 2 سے 3 ارب روپے کی آن لائن مالی فراڈ کے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں اور مجموعی طور پر 63 غیر قانونی کال سینٹرز پر چھاپے مارے ہیں، 7 کروڑ 20 لاکھ کی رقم کا مالی فراڈ ہوا اور متعدد ایف آئی آرز بھی رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ کرائم کی 60 فیصد سے زائد شکایات الیکٹرونک کرائمز کی ہیں اور پاکستان میں الیکٹرانک فراڈ 3 ارب تک پہنچ گیا ہے، ایک سال میں 63 کال سینٹرز پر چھاپے مارے اور 450 افراد کو گرفتار کیا گیا۔
این سی سی آئی اے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ آن لائن لون کمپنیوں کی طرف سے 1800 فیصد سود لیا جاتا رہا ہے، نان بینکنگ فنانشل کمپنیاں قرضوں کے فراڈ میں ملوث ہیں جبکہ ایس ای سی پی نے 2020 میں ان کمپنیوں کو لائسنس دیے تھے۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ ان کمپنیوں کے لیے ایس ای سی پی نے کوئی شرائط عائد نہیں کی تھیں، ایپ ڈاون لوڈ کرنے سے گیلری اور رابطہ نمبروں تک رسائی حاصل کرلیتے تھے، قرضہ لینے کے بعد کوئی بھی شہری پھنس جاتا تھا یہاں تک کہ اگر کسی نے کھانا کھانے کے لیے 5 ہزار کا قرضہ لیا تو وہ بھی پھنس جاتا تھا۔
این سی سی آئی اے نے بتایا کہ ایس ای سی پی نے قرضے پر سود کی شرح مقرر نہیں کی تھی، ایک کمپنی کا قرضہ واپس کرنے کے لیے شہری دوسری کمپنی سے قرضہ لیتے تھے تام ایس ای سی پی نے اپنی ریگولیشنز میں بہتری کی اور اب کمپنی قرض پر صرف 100 فیصد سود لے سکتی ہے اورکوئی بھی شہری قرض لینے کے لیے تین افراد کی تفصیلات جمع کروانے کا پابند ہوگا۔
بریفنگ میں بتایا گیا کہ آن لائن قرضہ ایپ کمپنی شہریوں کی گیلری اور نمبرز تک رسائی کی مجاز نہیں ہوگی، آن لائن قرضہ فراڈ میں ملوث 90 فیصد ایپ کمپنیوں کے خلاف کارروائی کی گئی اور بڑی حد تک یہ فراڈ روکنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایس ای سی پی نے کمیٹی کو بتایا بتایا گیا کہ پاکستان میں کال سینٹرز مالی فراڈ آن لائن کے لیے
پڑھیں:
پاکستان کا مجموعی قرضہ جی ڈی پی کے 83.6فیصد کے برابر ہونا تشویش کا باعث ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور(کامرس ڈیسک)سینئر ایگزیکٹو کمیٹی ممبر لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری علی عمران آصف نے کہا ہے کہ پاکستان کا مجموعی قرضہ جی ڈی پی کے 83.6فیصد کے برابر ہونا تشویش کا باعث ہے ،پاکستان میں فی کس سرکاری قرضے کا بوجھ اب 318,252روپے ہے جبکہ ایک دہائی قبل یہ فی کس 90,047روپے کی سطح پر تھا،سالانہ تقریباً 13فیصد کی شرح نمو سے یہ بوجھ ہر چھ سال میں دوگنا ہو رہا ہے۔اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ سرکاری قرضے کی مجموعی مقدار نے بھی جی ڈی پی کے تناسب کے طور پر بڑھنے کا رجحان ظاہر کیا ہے، ڈیڑھ دہائی قبل2009-10میں یہ جی ڈی پی کا 54.6فیصد تھا جو 2014-15تک بڑھ کر 57.1فیصد تک پہنچ گیا اور 2019-20میں جی ڈی پی کے 76.6فیصد کی بلند ترین سطح پر جا پہنچا۔یہ شرح تیزی سے گر کر 2023-24میں جی ڈی پی کے 67.8فیصد پر آ گئی لیکن 2024-25میں دوبارہ بڑھ کر 70فیصد سے اوپر جا چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ سرکاری قرضے اور جی ڈی پی کے تناسب کا موازنہ منتخب ایشیائی ممالک کے ساتھ کیا جائے تو پاکستان میں یہ تناسب فی الوقت 70.2فیصد ہے،سب سے کم سطح بنگلہ دیش میں ہے جہاں سرکاری قرضہ جی ڈی پی کے 36.4فیصد کے برابر ہے۔