قازقستان کے سفیر کا میری ٹائم سیکٹر میں دوطرفہ تعاون کو وسعت دینے میں گہری دلچسپی کا اظہار
اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT
پاکستان اور قازقستان نے تجارت کے فروغ کے لیے مشترکہ منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا۔وزیر برائے بحری امور محمد جنید انور چوہدری اور قازقستان کے سفیر یرژان کِسٹافن نے میری ٹائم سیکٹر میں دوطرفہ تعاون کو وسعت دینے میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔دونوں رہنماؤں کے درمیان آج اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات میں دلچسپی ظاہر کی گئی۔
دونوں فریقوں نے پاکستانی بندرگاہوں کے ذریعے تجارتی تعاون کو بڑھانے کے لیے تفصیلی بات چیت کی، مشترکہ منصوبوں اور تجارتی سہولتوں کے مواقع پر توجہ مرکوز کی۔گوادر کے فری زونز میں ممکنہ شراکت داری کو اجاگر کرتے ہوئے وزیر نے کراچی اور گوادر بندرگاہوں پر مشترکہ منصوبے شروع کرنے کی تجویز دی۔
انہوں نے کہا کہ ان کوششوں کا مقصد قازقستان کے لیے تجارتی رسائی کو بڑھانے کے لیے پاکستان کے اسٹریٹجک بندرگاہ کے بنیادی ڈھانچے کو استعمال کرنا ہے، جو کہ ایک خشکی میں گھرا ہوا ملک ہے جو وسیع سمندری رابطے کا خواہاں ہے۔
وزیر نے قازقستان اور دیگر خشکی سے گھرے وسطی ایشیائی ممالک کو خلیج فارس، افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا کی منڈیوں تک براہ راست رسائی فراہم کرنے والے گیٹ ویز کے طور پر پاکستانی بندرگاہوں کے اہم کردار پر زور دیا۔
انہوں نے پاکستان کے بحری شعبے کی جدت پسندانہ نقطہ نظر اپناتے ہوئے اور بین الاقوامی شراکت داری کو تقویت دے کر علاقائی تجارتی مرکز بننے کے عزم کو مزید اجاگر کیا۔
جنید انور چوہدری نے کہا کہ قازقستان کے وفد کے آئندہ دورہ پاکستان سے توقع ہے کہ مشترکہ منصوبوں اور تجارتی سہولتوں پر پیشرفت میں تیزی آئے گی، میری ٹائم انفراسٹرکچر کی ترقی، لاجسٹکس اور بلیو اکانومی کے ذریعے تعلقات مضبوط ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کوششیں علاقائی تعاون کے فریم ورک کے ساتھ منسلک ہیں اور پاکستان کے وسیع تر مقصد سے جنوبی اور وسطی ایشیا میں تجارتی رابطوں کو فروغ ملے گا۔
وزیر نے کہا کہ اس تعاون کے ذریعے پاکستان کا مقصد نہ صرف اپنے بندرگاہوں کے آپریشنز کو بڑھانا ہے بلکہ قازقستان اور وسطی ایشیا کے بڑے خطے کے ساتھ بڑھتے ہوئے اقتصادی انضمام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو ایک اسٹریٹجک تجارت اور ٹرانزٹ حب کے طور پر کھڑا کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بڑھتی ہوئی شراکت داری بحری راستوں کے ذریعے اقتصادی تعلقات کو گہرا کرنے کے مشترکہ عزم کو بھی اجاگر کرتی ہے، جس سے پاکستان کی بندرگاہوں کو وسطی ایشیا کی عالمی منڈیوں تک رسائی کے لیے کلیدی گیٹ ویز میں تبدیل کیا جائے گا۔
اپنے تبصروں میں، قازق سفیر نے ان اقدامات کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ ان کا ملک پاکستانی بندرگاہوں کو نہ صرف قازقستان بلکہ وسط ایشیائی خطے کے لیے بھی ٹرانزٹ ہب کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ قازقستان کے وزیر مواصلات کی قیادت میں وزارتی سطح کا وفد جو کہ بحری امور کی نگرانی بھی کرتا ہے، جلد ہی پاکستان کا دورہ کرنے والا ہے۔
سفیر نے کہا کہ وفد سمندری تجارت اور لاجسٹکس میں مزید تعاون تلاش کرنے کے لیے میری ٹائم امور کے وزیر کے ساتھ گہرائی سے بات چیت کرے گا۔
اشتہار
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: قازقستان کے وسطی ایشیا میری ٹائم نے کہا کہ کے ذریعے انہوں نے کے لیے
پڑھیں:
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کو نسل کا اجلاس،اسرائیل کے کڑے احتساب کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-01-19
جنیوا(مانیٹرنگ ڈیسک+صباح نیوز)اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں پاکستان سمیت دیگر ممالک نے قطر پر حملہ کرنے پر اسرائیل کے کڑے احتساب کا مطالبہ کردیا۔برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ فولکر ترک نے انسانی حقوق کونسل میں اس حملے پر ہونے والی ہنگامی بحث کے دوران کہا کہ یہ بین الاقوامی قانون کی ایک چونکا دینے والی خلاف ورزی تھی۔انہوں نے اس حملے کو علاقائی امن اور استحکام پر حملہ قرار دیتے ہوئے غیر قانونی اموات پر احتساب کا مطالبہ کیا۔قطر اور درجنوں ممالک کے نمائندوں نے تین گھنٹے طویل بحث میں فولکر ترک کے مؤقف کی تائید کی۔قطری وزیر برائے بین الاقوامی تعاون مریم بنت علی بن ناصر المیسنَد نے اسرائیل کے غدارانہ حملے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور مطالبہ کیا کہ عالمی برادری عملی اقدامات کرے تاکہ حملہ آوروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکے اور انہیں استثنا نہ ملے۔انہوں نے کہا کہ یہ حملہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ قطر کے کردار کو مسخ کرنے اور اس کی سفارتی کوششوں کو روکنے کی ایک وسیع تر مہم کا حصہ ہے۔پاکستانی سفیر بلال احمد نے خبردار کیا کہ یہ بلاجواز اور اشتعال انگیز حملہ صورتحال میں خطرناک بگاڑ پیدا کرے گا۔ اقوام متحدہ کی انسانی کونسل کا اجلاس پاکستان اور کویت کی درخواست پر طلب کیا گیا تھا۔اسرائیل اور اس کے سب سے بڑے حامی امریکا نے اجلاس میں شرکت نہیں کی جو رواں سال کے آغاز ہی میں انسانی حقوق کونسل سے علیحدہ ہوگئے تھے لیکن جنیوا میں اسرائیلی سفیر ڈینیئل میرون نے اس اجلاس کو سائیڈ لائن سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔انہوں نے صحافیوں سے کہا کہ ’یہ انسانی حقوق کونسل کی جاری زیادتیوں کا ایک اور شرمناک باب ہے۔انہوں نے کونسل پر الزام لگایا کہ وہ اسرائیل مخالف پروپیگنڈے کے پلیٹ فارم کے طور پر کام کر رہی ہے اور زمینی حقائق اور حماس کی بربریت کو نظر انداز کر رہی ہے۔یورپی یونین کی سفیر ڈائیکے پوٹزل نے یورپ کے ہر قسم کی دہشت گردی کے خلاف اصولی مؤقف‘ پر زور دیا اور ساتھ ہی قطر کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کا اعادہ کیا اور اسرائیل پر بین الاقوامی قانون کا احترام کرنے پر زور دیا۔انہوں نے کہا کہ ہم تمام فریقوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کریں جو ثالثی کے چینلز اور علاقائی استحکام کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔چین کے سفیر چن ڑو نے کہا کہ ان کا ملک 9 ستمبر کے حملے کو مکمل طور پر مسترد کرتا ہے اور اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ’مذاکراتی عمل کو پٹڑی سے اتارنے کی دانستہ کوشش‘ تھی۔سب سے سخت تنقید جنوبی افریقا کی جانب سے سامنے آئی، جس نے اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں غزہ میں نسل کشی کے الزامات کا مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔جنوبی افریقا کے سفیر مکزولسی نکوسی نے کہا کہ یہ حملہ ’ ثالثی کے عمل کی بنیاد پر وار‘ ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ اسرائیل فلسطینی عوام کے خلاف اپنی نسل کشی کی جنگ ختم نہیں کرنا چاہتا۔انہوں نے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری عملی اقدامات کے ذریعے یہ واضح کرے کہ اسرائیل کو احتساب سے کسی خاص استثنا کا فائدہ حاصل نہیں ہے۔اجلاس سے قبل پریس کانفرنس کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کے لیے سنجیدہ نہیں ہے،غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے وہ بہت ہولناک ہے، غزہ میں جاری صورتحال اخلاقی، سیاسی اور قانونی اعتبار سے کسی طور قبول نہیں۔ انہوں نے کہا کہ غزہ کے حوالے سے قطر کی جانب سے ثالثی کی کوششیں انتہائی اہم ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ میں غزہ اور مغربی کنارے کی سنگین صورتحال سے متعلق عالمی فوجداری عدالت کوآگاہ کروںگا۔