سینیٹ کمیٹی کا اسپیکٹرم کی نیلامی میں تاخیر اظہار تشویش، سائبر فراڈز پر فوری اصلاحات کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن نے اسپیکٹرم کی نیلامی میں تاخیر پر اظہار تشویش کرتے ہوئے ٹیرف میں اضافے اور سائبر فراڈز پر فوری اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 5G اسپیکٹرم نیلامی کی پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے کا فیصلہ
قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشن کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں چیئرپرسن سینیٹر پلوشہ محمد زئی خان کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں پاکستان کے ڈیجیٹل اور ٹیلی کام سیکٹرز کو درپیش سنگین چیلنجز پر تفصیلی غور کیا گیا۔
’اسپیکٹرم نیلامی میں تاخیر ڈیجیٹل ترقی کے لیے خطرہ ہے‘فریکوئنسی الاٹمنٹ بورڈ نے کمیٹی کو بتایا کہ سنہ 2021 سے پاکستان نے عالمی فائیو جی تقاضوں کے مطابق متعدد اسپیکٹرم بینڈز دستیاب کر دیے ہیں جن میں 30 میگا ہرٹز کا بینڈ بھی شامل ہے۔ تاہم قانونی پیچیدگیوں اور عدالتوں سے جاری اسٹے آرڈرز کے باعث نیلامی میں تاخیر ہو رہی ہے، جس سے نہ صرف اربوں روپے کا معاشی نقصان ہو رہا ہے بلکہ ملک کی ڈیجیٹل ترقی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
وزارت آئی ٹی کے اسپیشل سیکریٹری نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ وزیراعظم کی ہدایت کے مطابق اسپیکٹرم نیلامی دسمبر 2025 تک مکمل کر لی جائے گی۔
ٹیلی کام کمپنیوں پر الزامات اور مالی بے ضابطگیاںکمیٹی کو بتایا گیا کہ ایک آڈٹ رپورٹ کے مطابق معروف موبائل نیٹ ورک کمپنی جیز نے صارفین سے 6.
مزید پڑھیے: 20 کروڑ موبائل سمز سبسکرپشن کی خوشی میں کون سی سروسز فری میں دی جا رہی ہیں؟
علاوہ ازیں ایک اور کیس میں زونگ کی جانب سے 6.6 میگا ہرٹز اسپیکٹرم کے مبینہ غیر قانونی استعمال پر بھی بات ہوئی۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے باوجود معاملہ ماتحت عدالتوں میں زیر التوا ہے جس پر کمیٹی نے تاخیری حربوں پر تشویش کا اظہار کیا اور وزارت قانون کے نمائندوں کو آئندہ اجلاس میں طلب کر لیا۔
سائبر کرائمز اور آن لائن فراڈ: بڑھتا ہوا خطرہنیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ پاکستان میں آن لائن فراڈز سالانہ 30 ارب روپے سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ان فراڈز میں غیر قانونی کال سینٹرز، جعلی قرض ایپس، آن لائن جوا، اور سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کی مہمات شامل ہیں۔
ایجنسی نے بتایا کہ حالیہ مہینوں میں 63 غیر قانونی کال سینٹرز بند کیے گئے 450 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا اور تقریباً 40 ملین روپے کی ریکوری عمل میں آئی۔
کمیٹی نے سائبر سیکیورٹی کے لیے اداروں کے درمیان مؤثر تعاون، مصنوعی ذہانت کے ذریعے خطرات کی بروقت نشاندہی اور بینکنگ سیکٹر کے ساتھ مربوط حکمت عملی پر زور دیا۔
اداروں سے تعاون نہ کرنے پر برہمیکمیٹی نے یوفون کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تنخواہوں، عہدوں اور ادائیگیوں کی تفصیلات فراہم نہ کرنے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور خبردار کیا کہ اگر آئندہ اجلاس تک معلومات فراہم نہ کی گئیں تو استحقاق کی تحریک پیش کی جا سکتی ہے۔
کمیٹی کی سفارشات اور آئندہ لائحہ عملکمیٹی نے تمام متعلقہ اداروں کو ہدایت کی کہ وہ شفافیت، تیز تر عدالتی فیصلوں اور عوامی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ اسپیکٹرم کی نیلامی، صارفین کے حقوق اور سائبر سیکیورٹی جیسے اہم معاملات پر عمل درآمد کو اگلے اجلاس میں مزید جانچا جائے گا۔
مزید پڑھیں: پاکستان 5 جی لانچ کرنے میں ناکام کیوں؟ اصل وجہ سامنے آگئی
اجلاس میں سینیٹر انوشہ رحمان، پرویز رشید، ڈاکٹر افنان اللہ خان، ڈاکٹر محمد ہمایوں مہمند، سیف اللہ سرور نیازی، ندیم احمد بھٹو، اسپیشل سیکریٹری وزارت آئی ٹی اور دیگر متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام بھی شریک تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسپیکٹرم نیلامی سینیٹ سینیٹ قائمہ کمیٹی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی و ٹیلی کمیونیکیشنذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسپیکٹرم نیلامی سینیٹ سینیٹ قائمہ کمیٹی نیلامی میں تاخیر اسپیکٹرم نیلامی قائمہ کمیٹی اجلاس میں کمیٹی نے کمیٹی کو
پڑھیں:
ٹیلی کام کمپنیوں کی کمپٹیشن کمیشن کے خلاف دائر درخواستیں مسترد
اسلام آباد:ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے دائر کی گئیں کمپٹیشن کمیشن کے خلاف درخواستیں عدالت نے مسترد کردیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے جاز، ٹیلی نار، زونگ، یوفون، وارد، پی ٹی سی ایل اور وائی ٹرائب کی درخواستیں خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ کمپٹیشن کمیشن کو ٹیلی کام سمیت تمام شعبوں میں انکوائری کا اختیار حاصل ہے۔
واضح رہے کہ کمپٹیشن کمیشن نے گمراہ کن مارکیٹنگ پر ٹیلی کام کمپنیوں کو شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔ یہ شوکاز نوٹسز پری پیڈ کارڈز پر اضافی فیس ’’سروس مینٹیننس‘‘ فیس پر کیے گئے تھے جب کہ ٹیلی کام کمپنیوں نے 2014ء سے نوٹس پر اسٹے حاصل کر رکھا تھا ۔
موبائل کمپنیوں کے ’’ان لِمٹڈ انٹرنیٹ‘‘ پیکیجز کو گمراہ کن مارکیٹنگ قرار دیا گیا تھا۔
پی ٹی سی ایل نے فکسڈ لوکل لوپ سروسز میں امتیازی قیمتوں پر انکوائری پر اسٹے لیا تھا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ کمپٹیشن کے قانون کا دائرہ اختیار معیشت کے تمام شعبوں تک ہے۔ ریگولیٹری ادارے بھی کمپٹیشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں آ سکتے ہیں۔ عدالت نے ٹیلی کام کمپنیوں کی ساتوں منسلک درخواستیں ناقابلِ سماعت قرار دے کر مسترد کردیں۔