قومی اسمبلی اجلاس؛ جنگلات کاٹنے اور دریاؤں پر سوسائٹیز بنانے کیخلاف کارروائی کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, September 2025 GMT
اسلام آباد:
قومی اسمبلی کے اجلاس میں ارکان نے جنگلات کاٹنے اور دریاؤں پر ہاؤسنگ سوسائٹیز بنانے کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
اسپیکر سردار ایاز صادق کی صدارت میں قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا، جس میں وفاقی وزیر ریاض حسین پیرزادہ نے ایجنڈا معطل کرنے کی تحریک پیش کی گئی، جسے منظور کرلیا گیا۔
اجلاس میں اسد قیصر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب کے بہن بھائی مشکل میں ہیں، ہم ان کے ساتھ ہیں۔ آج ہم نے فیصلہ کیا کہ احتجاجاً واک آؤٹ کریں گے۔ نظام کا ظلم جبر کی بنیاد پر چل رہا ہے۔ ہم نے قائمہ کمیٹیوں سے استعفے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس موقع پر پی ٹی آئی ارکان ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔ اسپیکر نے کہا کہ جن کے متاثرہ اضلاع ہیں، ان کو بات تو کرنے دیجیے۔
رکن اسمبلی سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ میرا حلقہ چناب کے کنارے پر ہے، وہاں اس سے پہلے کبھی اتنا زیادہ پانی نہیں آیا۔ گھروں اور انفرا اسٹرکچر کا بہت زیادہ نقصان ہوا۔ بتایا جارہا ہے کہ آنے والے وقت میں 22 فیصد زیادہ بارشیں اور سیلاب آنے ہیں۔
ثمینہ خالد نے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کیا احتیاطی تدابیر کی ہیں؟ راوی کے علاقے میں کس طرح ڈیولپمنٹ ہوئی ہے؟۔ مصیبت زدہ لوگ کھانے کو بھی ترس رہے ہیں۔
شاہدہ اختر علی نے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ غیر قانونی تعمیرات کا خاتمہ نہیں کیا گیا۔ شجرکاری کے منصوبوں پر عمل نہیں کیا گیا۔ بروقت اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے تمام چیزیں ہمارے سامنے آئیں ۔ خیبرپختونخوا میں کس طرح جنگلوں کو کاٹا گیا ہے۔ کسی ایک کمپنی کو مورد الزام ٹھہرانا یا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا وقت نہیں ہے۔ جتنی بھی سوسائٹیاں ہیں ان کا دوبارہ کمیٹی تشکیل دے کر جائزہ لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں سخت سے سخت قانون بنانے کی ضرورت ہے۔
نور عالم خان نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو دریاؤں پر گھر بنانے کی اجازت کس نے دی ؟۔ آپ پہلے اسلام آباد سے کارروائی شروع کریں ۔ خیبر پختونخوا کی پی ڈی ایم اے 12 لوگوں کو نہیں بچا سکی ۔ ان کے پاس رسی تک نہیں تھی۔ سیلاب سندھ میں پہنچے گا تو کیا صورتحال ہوگی ؟۔ اصل قصوروار بیوروکریسی ہے کیونکہ انہوں نے این او سیز دیں ۔
انہوں نے کہا کہ آج کلائمیٹ چینج کا وزیر کہاں پر ہے؟۔ بھارت نے پانی چھوڑ کر آپ سے دشمنی کی ہے ۔ آپ بتائیں وزیر آبی وسائل کہاں ہیں؟۔ ہم نے اٹھارہویں ترمیم سے ملک کو کمزور کیا ۔ سیاستدانوں کے بجائے بیوروکریسی کا احتساب ہونا چاہیے ۔ سیلاب اور دہشت گردی میں یہ بیوروکریسی مال کماتے ہیں۔
اس موقع پر وفاقی وزیر حنیف عباسی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں بیوروکریسی کو گالم گلوچ کرنے کا بہت شوق ہے۔ کبھی ہم ہائبرڈ نظام کی بات کرتے ہیں ۔ یہ باتیں کرنی ہیں تو حکومت چھوڑ دینی چاہیے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پنڈی میں غلط کام ہو اور میرا قصور نہ ہو۔ آپ 40 سال تک اس نظام کا حصہ رہے ہیں ، پاکستان کا دفاع اور معیشت مضبوط ہاتھوں میں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ریٹائرڈ کرنل سیلابی ریلے کی نذر ہوا تو لوگوں نے میمز بنائیں۔ ہم خود اس ایوان کا تقدس پامال کرتے ہیں ۔ ہمیں وائرل ہونے کے لیے کسی کو ڈس کریڈٹ نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں ایسی باتیں کرتے ہوئے اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا۔
حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ ہم نے بڑے بڑے پل، اسپتال بنائے، کسی کنٹریکٹر پر الزام نہیں لگایا۔ کس کنٹریکٹ کی جرات ہےکہ راولپنڈی میں غیر معیاری کام کرکےپیمنٹ لے لے۔ اپنے آدھا کلو گوشت کی خاطر پوری بھینس ذبح کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
وفاقی وزیر آبی وسائل معین وٹو کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم لمحہ بہ لمحہ سیلاب کی آگاہی حاصل کر رہے ہیں اور فوری احکامات بھی جاری کررہے ہیں۔ آنے والے وقت کی پیش بندی کے لیے وزیر اعظم منصوبوں پر غور کر رہے ہیں ۔ مختلف منصوبوں کے حوالے تجاویز بھی دی جا رہی ہیں ۔ ایسے جامع منصوبے بنائے جائیں گے جس پر کوئی اعتراض نہ کرسکے ۔ فصلوں اور مکانات کے نقصانات کا سروے بھی جاری ہے۔ جن لوگوں کا نقصان ہوا ہے، حکومت ان کی مدد کرے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے کہا کہ انہوں نے رہے ہیں
پڑھیں:
کراچی میں ای چالان کیخلاف سندھ اسمبلی میں تحریک التو جمع، سہولیات کے بغیر جرمانے ظلم قرار
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رکنِ سندھ اسمبلی انجینئیر عادل عسکری نے کراچی کے شہریوں پر بنیادی سہولیات اور انفراسٹرکچر کی فراہمی کے بغیر الیکٹرانک چالان کے نفاذ کے خلاف سندھ اسمبلی میں فوری عوامی اہمیت کی تحریکِ التواء جمع کرادی ہے۔
تحریکِ التواء میں عادل عسکری نے کہا ہے کہ سندھ حکومت نے ٹریفک کے بنیادی انتظامات اور روڈ سیفٹی کے اقدامات کو یقینی بنائے بغیر شہریوں پر الیکٹرانک چالان کا نفاذ کیا ہے، جو سراسر ناانصافی، قبل از وقت اور نقصان دہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پورے شہر اور صوبے میں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، شہریوں کے لیے روزانہ مشکلات اور حادثات کا باعث بن رہی ہیں، شہر میں نقل و حمل کا کوئی مناسب نظام موجود نہیں اور مسافروں کے پاس عوامی نقل و حمل کے کوئی قابل عمل آپشن دستیاب نہیں ہیں۔
رکن اسمبلی نے نشاندہی کی کہ غیر فعال ٹریفک سگنل سسٹم، سڑک کے نشانات، زیبرا کراسنگ اور ٹریفک سائن بورڈز کی کمی ڈرائیوروں اور پیدل چلنے والوں کے لیے ٹریفک قوانین پر عمل کرنا ناممکن بنا رہی ہے، جبکہ مافیاز اور ناجائز قابضین کی طرف سے تجاوزات مین سڑکوں کو تنگ کر کے ٹریفک کی روانی میں مزید رکاوٹ پیدا کر رکھی ہے۔
انجینئیر عادل عسکری نے مطالبہ کیا کہ ان سنگین حالات میں شہریوں پر بھاری الیکٹرانک چالان لگانا ایک عذاب اور ظلم ہے، حکومت سڑکوں کے بنیادی انفراسٹرکچر کو یقینی بنانے کے بجائے، ناقص اور غیر منصفانہ نظام کے تحت شہریوں کو سزائیں دے رہی ہے۔
ایم کیو ایم کے رکن نے پرزور مطالبہ کیا کہ ایوان اس مسئلے پر فوری ایکشن لے اور جب تک انفراسٹرکچر بہتر نہیں ہوتا اس ریورس الیکٹرانک چالان سسٹم کو فوری طور پر معطل رکھا جائے، ساتھ ہی سڑکوں کی مرمت، فعال سگنلز لگانے، اور ناجائز تجاوزات ہٹانے کے لیے ایک جامع منصوبہ شروع کیا جائے۔
انہوں نے تحریک التواء کے ذریعے ایوان سے مطالبہ کیا کہ فوری عوامی اہمیت کے اس معاملے پر بحث کے لیے ایوان کی معمول کی کارروائی ملتوی کی جائے۔