Express News:
2025-11-03@00:32:05 GMT

بساط

اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT

دنیا کی سیاست کی بساط پہ وقت کے مہروں کی چالیں اکثر ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔ کبھی وہ لمحہ آتا ہے جب لگتا ہے کہ تاریخ اپنی پرانی زنبیل کھول کر دکھا رہی ہے کہ کیسے بادشاہ، سپہ سالار اور تاجر ایک ہی وقت میں اقتدار کے کھیل میں شامل رہے۔ آج بھی یہ کھیل جاری ہے، صرف نام بدل گئے ہیں۔ تخت و تاج کی جگہ صدارت اور وزارتِ عظمیٰ کے القاب نے لے لی ہیں۔

زر اور بندوق کے اشتراک نے وہی کہانیاں جنم دی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانی المیے کے سائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں دو خبریں آئیں، ایک نریندر مودی کا دورہ چین اور دوسری ڈونلڈ ٹرمپ کا بھارت کا دورہ منسوخ کرنا۔ ان دونوں خبروں کو الگ الگ پڑھنے والا شاید انھیں معمولی سفارتی امور سمجھے مگر جو ان کے پس منظر اور مستقبل پر نظر ڈالے گا، وہ جانتا ہے کہ یہ عالمی سیاست کے بڑے طوفان کے ابتدائی جھونکے ہیں۔

مودی اور شی جن پنگ کی تصویر جب ایک ساتھ میڈیا پر ابھری تو ماضی کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ یاد آیا کہ کبھی یہی دونوں ممالک لداخ اور ڈوکلام کی پہاڑیوں پر آمنے سامنے کھڑے تھے، کبھی گولی چلی، کبھی پتھر پھینکے گئے، کبھی سپاہی ایک دوسرے کو دھکیلتے رہے۔

سرحد پر دشمنی کی گرمی اور دارالحکومتوں میں سرد مہری کا موسم تھا لیکن آج وہی مودی جو انتخابی جلسوں میں چین کو للکارتے تھے، بیجنگ کی راہداریوں میں مسکراتے دکھائی دیے۔ اس منظر نے یہ سچ ایک بار پھر آشکار کیا کہ معیشت اور طاقت کی سیاست میں کوئی دشمن یا دوست مستقل نہیں ہوتا۔ بھارت کے صنعت کار اور تاجر جانتے ہیں کہ چین کے ساتھ کشیدگی ان کے خوابوں کو ریزہ ریزہ کر دے گی۔ بھارت کو اپنے ٹیکنالوجی سیکٹر، اپنی برآمدات اور سرمایہ کاری کے لیے چین کی مارکیٹ چاہیے اور چین بھی یہ سمجھتا ہے کہ بھارت کو نظر انداز کرنا اس کے Belt and Road Initiative بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے بڑے منصوبے میں خلا پیدا کرے گا، یوں دونوں لیڈروں نے مصافحہ کیا اور دنیا نے دیکھا کہ دشمنی کی تپش کو تجارت کی ٹھنڈک نے وقتی طور پر دبا دیا۔

اسی دوران دوسری طرف بحرِ اوقیانوس کے پار ایک اور منظر تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو کبھی بھارت جا کر اپنی انتخابی تقریروں میںHowdy Modi کے نعرے لگواتے تھے۔

انھوں نے اچانک اپنا دورہ منسوخ کردیا، یہ محض ایک تاریخ کا کٹاؤ نہیں تھا بلکہ ایک علامت تھی۔ امریکا کی سیاست اس وقت اپنی داخلی ہلچل میں پھنسی ہوئی ہے۔ انتخابی دباؤ، معاشی بحران اور عالمی سطح پر امریکا کے کمزور پڑتے اثرات نے ٹرمپ کو مجبور کیا کہ وہ اپنی توجہ اندرونی محاذ پر مرکوز کریں۔ بھارت کے لیے یہ پیغام تھا کہ امریکا کی محبت وقتی اور مفاد پرست ہے۔ واشنگٹن کے رہنما دہائیوں سے بھارت کو چین کے مقابلے میں ترازو کے پلڑے میں بٹھاتے آئے ہیں، مگر جب امریکا اپنے اندرونی بحران میں ہوتا ہے تو یہ پلڑا خالی رہ جاتا ہے۔

 یہ دونوں خبریں دراصل ایک بڑے مثلث کی کہانی ہیں۔ ایک کونے پر چین ہے جو اپنے بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبے کے ذریعے ایشیا، افریقہ اور یورپ کو اپنی معیشت کے ساتھ باندھنا چاہتا ہے۔ دوسرے کونے پر امریکا ہے جو سرد جنگ کے بعد واحد سپر پاور رہا مگر اب اس کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے۔ تیسرے کونے پر بھارت ہے جو اپنی آبادی، منڈی اور ٹیکنالوجی کی بدولت ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے مگر اس کی مشکلات یہ ہیں کہ وہ ایک ہی وقت میں دونوں طاقتوں یعنی امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔ یہ پالیسی بظاہر اسے لچکدار بناتی ہے مگر حقیقت میں یہ اسے دو طرفہ دباؤ میں لے آتی ہے۔

اس سارے منظر نامے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ ہمارا ملک کئی دہائیوں سے بڑی طاقتوں کے کھیل کا حصہ رہا ہے۔ کبھی ہم نے امریکا کی جنگوں میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کیا، کبھی چین کے ساتھ تعلقات کو اپنی بقا کا سہارا بنایا۔ آج بھی یہی صورتحال ہے۔ چین نے سی پیک کے ذریعے ہمیں اپنے بڑے منصوبوں کا حصہ بنایا مگر امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات وقت کے ساتھ کمزور اورکٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بھارت کا چین کے ساتھ قریب ہونا پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خطے کی سیاست میں ہمیں مزید تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ قربت وقتی ہو اور جیسے ہی سرحدی کشیدگی دوبارہ ابھرے بیجنگ اور دہلی کے راستے پھر جدا ہو جائیں۔

 یہاں یاد آتا ہے کہ تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے ،کبھی امریکا نے پاکستان کو سوویت یونین کے خلاف اپنا اتحادی بنایا، پھر ایک دن ہمیں چھوڑ کر بھارت کی طرف چلا گیا۔ کبھی چین نے بھارت کے ساتھ جنگ کی اور پاکستان کو اپنا قریبی دوست بنایا۔ اب وقت پھر بدل رہا ہے، شاید یہ وہی منظر ہے جس کے لیے شاعر نے کہا تھا۔بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔

اس تمام کھیل میں سب سے بڑا نقصان کس کا ہوگا؟ عوام کا جو غربت، بے روزگاری اور ناانصافی کا شکار ہیں۔ مودی اور شی جن پنگ کے ہاتھ ملانے سے دہلی کی کچی بستیوں میں بیٹھے مزدور کی زندگی نہیں بدلتی۔ ٹرمپ کے دورے کے منسوخ ہونے سے نیو یارک میں رہنے والے عام امریکی کی زندگی پہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا۔ پاکستان کے کسان اور مزدور بھی جانتے ہیں کہ ان کے حصے میں صرف نعرے اور وعدے آتے ہیں۔ بڑی طاقتیں جب بات کرتی ہیں تو ان کے درمیان کھیلنے والی بساط پر بس ہتھیار، تجارت اور اثر و رسوخ کے خانے ہوتے ہیں۔ انسانیت اور انصاف کا خانہ ہمیشہ خالی رہتا ہے۔

تاریخ کا المیہ یہی ہے کہ طاقت کے کھیل میں چھوٹے ملکوں کے عوام محض تماشائی نہیں بلکہ قربانی کا بکرا بن جاتے ہیں۔ وقت بدل رہا ہے، منظر نامے بدل رہے ہیں لیکن انسان کا دکھ، اس کی محرومی اور اس کی بے بسی وہیں کی وہیں ہے۔ شاید ایک دن آئے جب دنیا کے حکمران امن اور انصاف کے ساتھ ہاتھ ملائیں مگر آج کے دن یہ خواب بہت دور دکھائی دیتا ہے۔ تب تک ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی سیاست رنگ بدلتی ہے اور بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: چین کے ساتھ کی سیاست بھی یہ ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقیقت یا فسانہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکی صدر ٹرمپ اور زی شی پنگ کے درمیان ہونے مذاکرات کے فوری بعد ہی دنیا میں کے سامنے بھارت اور امریکا کے دفاعی معاہدے کا معاہدے کا ہنگا مہ شروع ہو گیا اور بھارتی میڈیا نے دنیا کو یہ بتانے کی کو شش شروع کر دی ہے کہ پاکستان سعودی عرب جیسا امریکا اور بھارت کے درمیان معاہدہ ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے ۔بھارت اور امریکا نے درمیان یہ دفاعی معاہدہ چند عسکری امور پر اور یہ معاہد
2025ءکے معاہدے کا تسلسل ہے ،2025ءکو نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دور جب بھارت نے پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کر نے کی کوشش شروع کر دی تو امریکا نے نے بھارت کو ایشیا کا چوھدری بنانے فیصلہ کر لیا تھا اسی وقت پاکستان نے بھارت کو بتا دیا تھا کہ ایسا نہیں کر نے کی پاکستان اجسازت نہیں دے گا ۔اس معاہدے کی تجدید 2015ءاور اب 2025ءمیں کیا گیا ہے ۔اس کی تفصیہ یہ ہے کہ اس معاہدے کے تحت امریکا بھارت کو اسلحہ فروخت کر گا ،خفیہ عسکری معلامات امریکا بھارت کو فراہم کر گا اور دونوں ممالک کی افواج مشترکہ فوجی مشقیں ساو ¿تھ چائینہ سی میں کر یں گی اور چین کے خلاف جنگ کی تیاری کی جائے گی لیکن اب بھارت دنیا کو یہ ثابت کر ے کی کو شش کر رہا ہے کہ امریکا اور بھارت کا معاہدہ پاکستان کے خلاف بھی لیکن حقیقت اس سے مختلاف ہے
پاکستان نے امریکا،بھارت دفاعی معاہدے کا جائزہ لے رہے ہیں

مسلح افواج کی بھارتی مشقوں پر نظر ، افغانستان نے دہشتگردوں کی موجودگی تسلیم کی:دفترخارجہ امریکا اور بھارت کے درمیان 10 سالہ دفاعی معاہدہ ، راج ناتھ سنگھ اور پیٹ ہیگسیتھ کے دستخط کیے
اسلام آباد،کوالالمپور(اے ایف پی ،رائٹرز،مانیٹرنگ ڈیسک)امریکا اور بھارت کے درمیان 10سالہ دفاعی معاہدہ طے پا گیا ،امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ نے گزشتہ روز تصدیق کردی کہ امریکا نے بھارت کے ساتھ 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط کر دئیے ہیں ،پاکستانی دفترخارجہ کے ترجمان کا کہناہے کہ پاکستان نے امریکا اور بھارت کے درمیان ہونے والے دفاعی معاہدے کا نوٹس لیا ہے اورخطے پر اس کے ہونیوالے اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے کہا کہ مسلح افواج بھارتی فوجی مشقوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں، بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ ان کاکہنا کہ یہ سوال کہ پاکستان نے کتنے بھارتی جنگی جہاز گرائے ؟ ،یہ بھارت سے پوچھنا چاہئے ، حقیقت بھارت کے لئے شاید بہت تلخ ہو۔ پاک افغان تعلقات میں پیشرفت بھارت کو خوش نہیں کرسکتی لیکن بھارت کی خوشنودی یا ناراضی پاکستان کے لئے معنی نہیں رکھتی۔ افغان طالبان حکام نے کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کی افغانستان میں موجودگی کو تسلیم کیا اور ان تنظیموں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے مختلف جواز پیش کئے ،پاکستان کو امید ہے کہ 6 نومبر کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے اگلے دورکا نتیجہ مثبت نکلے گا، پاکستان مصالحتی عمل میں اپنا کردار جاری رکھے گا اور امن کے قیام کیلئے تمام سفارتی راستے کھلے رکھے گا۔ طاہر اندرابی نے واضح کیا کہ پاکستان اپنی خودمختاری اور عوام کے تحفظ کیلئے ہر ضروری اقدام اٹھائے گا، انہوں نے قطر اور ترکیہ کے تعمیری کردارکو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو 6 نومبر کے مذاکرات سے مثبت اور پائیدار نتائج کی امید ہے۔

سرحد کی بندش کا فیصلہ سکیورٹی صورتحال کے جائزے پر مبنی ہے ، سرحد فی الحال بند رہے گی اور مزید اطلاع تک سرحد بند رکھنے کا فیصلہ برقرار رہے گا،مزید کشیدگی نہیں چاہتے تاہم مستقبل میں کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ادھر پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک پریس ریلیز میں انڈین میڈیا کے دعوو ¿ں کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ پر ‘اسرائیل کیلئے “ناقابل استعمال”کی شق بدستور برقرار ہے ، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ خبر رساں اداروں رائٹرز اور اے ایف پی کی رپورٹس کے مطابق امریکی وزیردفاع پیٹ ہیگسیتھ نے ایکس پوسٹ میں بتایا کہ بھارت کیساتھ دفاعی فریم ورک معاہدہ خطے میں استحکام اور دفاعی توازن کیلئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے ، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعاون، معلومات کے تبادلے اور تکنیکی اشتراک میں اضافہ ہوگا،ہماری دفاعی شراکت داری پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق بھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ اور پیٹ ہیگستھ کی ملاقات کوالالمپور میں ہونے والے آسیان ڈیفنس منسٹرز میٹنگ پلس کے موقع پر ہوئی جس کا باقاعدہ ا?غاز آج ہوگا۔معاہدے پر دستخط کے بعد پیٹ ہیگسیتھ نے بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کی سب سے اہم امریکی بھارتی شراکت داریوں میں سے ایک ہے ، یہ 10 سالہ دفاعی فریم ورک ایک وسیع اور اہم معاہدہ ہے ، جو دونوں ممالک کی افواج کیلئے مستقبل میں مزید گہرے اور بامعنی تعاون کی راہ ہموار کرے گا۔
امریکا اور بھارت نے 10 سالہ دفاعی فریم ورک معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ امریکی وزیرِ دفاع پِیٹ ہیگسیتھ نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون، ٹیکنالوجی کے تبادلے اور معلومات کے اشتراک کو مزید مضبوط بنائے گا۔

ہیگسیتھاس بعد چین چ؛ی گئیں اور وہاں انھوں تائیوان کا ذکر دیا جس کے ایسا محسوس ہوا کہ
ہیگسیتھ کے ایشیا میں آتے ہیں امریکا چین کے درمیان ایک تناو ¿ پیدا ہو گیا ۔ہیگسیتھ کے مطابق، یہ فریم ورک علاقائی استحکام اور مشترکہ سلامتی کے لیے سنگِ میل ثابت ہوگا۔ انہوں نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر کہا: “ہمارے دفاعی تعلقات پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔”
بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کے ساتھ یہ ملاقات آسیان دفاعی وزرائے اجلاس پلس کے موقع پر کوالالمپور میں ہوئی۔ معاہدے پر دستخط کے بعد امریکی وزیرِ دفاع نے بھارت کے ساتھ تعلقات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “یہ تعلقات دنیا کے سب سے اہم شراکت داریوں میں سے ایک ہیں۔”ہیگسیتھ نے اس معاہدے کو “مہتواکانکشی اور تاریخی” قرار دیا اور کہا کہ یہ دونوں افواج کے درمیان مزید گہرے اور بامعنی تعاون کی راہ ہموار کرے گا۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے حال ہی میں بھارتی وزیرِ خارجہ سبرامنیم جے شنکر سے ملاقات کی تھی۔ دونوں رہنماو ¿ں نے دوطرفہ تعلقات اور خطے کی سلامتی پر گفتگو کی۔
یاد رہے کہ حالیہ مہینوں میں امریکا اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی دیکھی گئی تھی، جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت پر 50 فیصد تجارتی محصولات عائد کیے تھے اور نئی دہلی پر روس سے تیل خریدنے کے الزامات لگائے تھے۔
اسی سلسلے میں بھارت کو امریکا 2025ءمیں خطے میں چین کی فوجی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے ڈیجیٹل خفیہ معلومات کا نظام بھی دیا تھا لیکن اس کے بعد چین نے خاموشی سے گلوان ویلی اور لداخ کے کچھ علاقوں پر قبضہ کر تھا۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے 10مئی 2025ءکو جب پاکستان نے بھارت پر جوابی حمہ کی اتھا اس وقت بھی امریکا اور بھارت کا دفاعی معاہدہ ای طرح قائم تھا لیکن پاکستان نے جم کر بھارت کی خوب پٹائی کی اور امریکا اس وقت سے آج تک یہی کہہ رہا ہے اگر صدر ٹرمپ جنگ نہ رکوائی ہوتی تو بھارت کو نا قابل ِحد تک تباہ کن صورتحال کا سامنا کر نا پڑتا۔اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقئقت یا فسانہ ہے ۔

قاضی جاوید گلزار

متعلقہ مضامین

  • PTCLانتظامیہ اور CBAیونین کی ڈیمانڈ پر دستخط کی تقریب
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے‘ کبھی تھا نہ کبھی ہوگا‘ پاکستانی مندوب
  • امریکا بھارت دفاعی معاہد ہ حقیقت یا فسانہ
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستان
  • حیران کن پیش رفت،امریکا نے بھارت سے10سالہ دفاعی معاہدہ کرلیا
  • ایران امریکا ڈیل بہت مشکل ہے لیکن برابری کی بنیاد پر ہوسکتی ہے
  • بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو لیکر اسلامی تعاون تنظیم کے ریمارکس کو مسترد کر دیا
  • امریکا نے بھارت کے ساتھ 10 سالہ دفاعی معاہدے پر دستخط کردیے