دنیا کی سیاست کی بساط پہ وقت کے مہروں کی چالیں اکثر ہمیں حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔ کبھی وہ لمحہ آتا ہے جب لگتا ہے کہ تاریخ اپنی پرانی زنبیل کھول کر دکھا رہی ہے کہ کیسے بادشاہ، سپہ سالار اور تاجر ایک ہی وقت میں اقتدار کے کھیل میں شامل رہے۔ آج بھی یہ کھیل جاری ہے، صرف نام بدل گئے ہیں۔ تخت و تاج کی جگہ صدارت اور وزارتِ عظمیٰ کے القاب نے لے لی ہیں۔
زر اور بندوق کے اشتراک نے وہی کہانیاں جنم دی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسانی المیے کے سائے بڑھتے جا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں دو خبریں آئیں، ایک نریندر مودی کا دورہ چین اور دوسری ڈونلڈ ٹرمپ کا بھارت کا دورہ منسوخ کرنا۔ ان دونوں خبروں کو الگ الگ پڑھنے والا شاید انھیں معمولی سفارتی امور سمجھے مگر جو ان کے پس منظر اور مستقبل پر نظر ڈالے گا، وہ جانتا ہے کہ یہ عالمی سیاست کے بڑے طوفان کے ابتدائی جھونکے ہیں۔
مودی اور شی جن پنگ کی تصویر جب ایک ساتھ میڈیا پر ابھری تو ماضی کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ یاد آیا کہ کبھی یہی دونوں ممالک لداخ اور ڈوکلام کی پہاڑیوں پر آمنے سامنے کھڑے تھے، کبھی گولی چلی، کبھی پتھر پھینکے گئے، کبھی سپاہی ایک دوسرے کو دھکیلتے رہے۔
سرحد پر دشمنی کی گرمی اور دارالحکومتوں میں سرد مہری کا موسم تھا لیکن آج وہی مودی جو انتخابی جلسوں میں چین کو للکارتے تھے، بیجنگ کی راہداریوں میں مسکراتے دکھائی دیے۔ اس منظر نے یہ سچ ایک بار پھر آشکار کیا کہ معیشت اور طاقت کی سیاست میں کوئی دشمن یا دوست مستقل نہیں ہوتا۔ بھارت کے صنعت کار اور تاجر جانتے ہیں کہ چین کے ساتھ کشیدگی ان کے خوابوں کو ریزہ ریزہ کر دے گی۔ بھارت کو اپنے ٹیکنالوجی سیکٹر، اپنی برآمدات اور سرمایہ کاری کے لیے چین کی مارکیٹ چاہیے اور چین بھی یہ سمجھتا ہے کہ بھارت کو نظر انداز کرنا اس کے Belt and Road Initiative بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے بڑے منصوبے میں خلا پیدا کرے گا، یوں دونوں لیڈروں نے مصافحہ کیا اور دنیا نے دیکھا کہ دشمنی کی تپش کو تجارت کی ٹھنڈک نے وقتی طور پر دبا دیا۔
اسی دوران دوسری طرف بحرِ اوقیانوس کے پار ایک اور منظر تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو کبھی بھارت جا کر اپنی انتخابی تقریروں میںHowdy Modi کے نعرے لگواتے تھے۔
انھوں نے اچانک اپنا دورہ منسوخ کردیا، یہ محض ایک تاریخ کا کٹاؤ نہیں تھا بلکہ ایک علامت تھی۔ امریکا کی سیاست اس وقت اپنی داخلی ہلچل میں پھنسی ہوئی ہے۔ انتخابی دباؤ، معاشی بحران اور عالمی سطح پر امریکا کے کمزور پڑتے اثرات نے ٹرمپ کو مجبور کیا کہ وہ اپنی توجہ اندرونی محاذ پر مرکوز کریں۔ بھارت کے لیے یہ پیغام تھا کہ امریکا کی محبت وقتی اور مفاد پرست ہے۔ واشنگٹن کے رہنما دہائیوں سے بھارت کو چین کے مقابلے میں ترازو کے پلڑے میں بٹھاتے آئے ہیں، مگر جب امریکا اپنے اندرونی بحران میں ہوتا ہے تو یہ پلڑا خالی رہ جاتا ہے۔
یہ دونوں خبریں دراصل ایک بڑے مثلث کی کہانی ہیں۔ ایک کونے پر چین ہے جو اپنے بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبے کے ذریعے ایشیا، افریقہ اور یورپ کو اپنی معیشت کے ساتھ باندھنا چاہتا ہے۔ دوسرے کونے پر امریکا ہے جو سرد جنگ کے بعد واحد سپر پاور رہا مگر اب اس کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے۔ تیسرے کونے پر بھارت ہے جو اپنی آبادی، منڈی اور ٹیکنالوجی کی بدولت ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے مگر اس کی مشکلات یہ ہیں کہ وہ ایک ہی وقت میں دونوں طاقتوں یعنی امریکا اور چین کے ساتھ تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔ یہ پالیسی بظاہر اسے لچکدار بناتی ہے مگر حقیقت میں یہ اسے دو طرفہ دباؤ میں لے آتی ہے۔
اس سارے منظر نامے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ ہمارا ملک کئی دہائیوں سے بڑی طاقتوں کے کھیل کا حصہ رہا ہے۔ کبھی ہم نے امریکا کی جنگوں میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کیا، کبھی چین کے ساتھ تعلقات کو اپنی بقا کا سہارا بنایا۔ آج بھی یہی صورتحال ہے۔ چین نے سی پیک کے ذریعے ہمیں اپنے بڑے منصوبوں کا حصہ بنایا مگر امریکا کے ساتھ ہمارے تعلقات وقت کے ساتھ کمزور اورکٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بھارت کا چین کے ساتھ قریب ہونا پاکستان کے لیے تشویش کا باعث ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خطے کی سیاست میں ہمیں مزید تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ یہ قربت وقتی ہو اور جیسے ہی سرحدی کشیدگی دوبارہ ابھرے بیجنگ اور دہلی کے راستے پھر جدا ہو جائیں۔
یہاں یاد آتا ہے کہ تاریخ ہمیشہ اپنے آپ کو دہراتی ہے ،کبھی امریکا نے پاکستان کو سوویت یونین کے خلاف اپنا اتحادی بنایا، پھر ایک دن ہمیں چھوڑ کر بھارت کی طرف چلا گیا۔ کبھی چین نے بھارت کے ساتھ جنگ کی اور پاکستان کو اپنا قریبی دوست بنایا۔ اب وقت پھر بدل رہا ہے، شاید یہ وہی منظر ہے جس کے لیے شاعر نے کہا تھا۔بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔
اس تمام کھیل میں سب سے بڑا نقصان کس کا ہوگا؟ عوام کا جو غربت، بے روزگاری اور ناانصافی کا شکار ہیں۔ مودی اور شی جن پنگ کے ہاتھ ملانے سے دہلی کی کچی بستیوں میں بیٹھے مزدور کی زندگی نہیں بدلتی۔ ٹرمپ کے دورے کے منسوخ ہونے سے نیو یارک میں رہنے والے عام امریکی کی زندگی پہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا۔ پاکستان کے کسان اور مزدور بھی جانتے ہیں کہ ان کے حصے میں صرف نعرے اور وعدے آتے ہیں۔ بڑی طاقتیں جب بات کرتی ہیں تو ان کے درمیان کھیلنے والی بساط پر بس ہتھیار، تجارت اور اثر و رسوخ کے خانے ہوتے ہیں۔ انسانیت اور انصاف کا خانہ ہمیشہ خالی رہتا ہے۔
تاریخ کا المیہ یہی ہے کہ طاقت کے کھیل میں چھوٹے ملکوں کے عوام محض تماشائی نہیں بلکہ قربانی کا بکرا بن جاتے ہیں۔ وقت بدل رہا ہے، منظر نامے بدل رہے ہیں لیکن انسان کا دکھ، اس کی محرومی اور اس کی بے بسی وہیں کی وہیں ہے۔ شاید ایک دن آئے جب دنیا کے حکمران امن اور انصاف کے ساتھ ہاتھ ملائیں مگر آج کے دن یہ خواب بہت دور دکھائی دیتا ہے۔ تب تک ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی سیاست رنگ بدلتی ہے اور بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: چین کے ساتھ کی سیاست بھی یہ ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
امریکا اور بھارت کے درمیان تجارتی مذاکرات کل نئی دہلی میں ہوں گے
بھارت اور امریکا کے درمیان تجارتی مذاکرات کل نئی دہلی میں ہوں گے، یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیائی ملک سے درآمدات پر محصولات عائد کئے، جس سے اگست میں بھارت کی برآمدات 9 ماہ کی کم ترین سطح پر آ گئیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق بھارت اور امریکا تجارتی مذاکرات کو ’ تیزی’ سے آگے بڑھائیں گے، راجیش اگروال، بھارت کے چیف مذاکرات کار اور وزارتِ تجارت میں خصوصی سیکریٹری نے تجارتی اعداد و شمار جاری کرنے کی تقریب میں صحافیوں کو بتایا، تاہم انہوں نے مزید تفصیلات نہیں دیں۔
راجیش گروال نے کہا کہ امریکا کے تجارتی نمائندہ برائے جنوبی ایشیا برینڈن لنچ منگل کو ایک روزہ دورے پر نئی دہلی پہنچیں گے۔
بھارت کی برآمدات جو جولائی میں 37 ارب 24 کروڑ ڈالر تھیں، اگست میں کم ہوکر 35 ارب 10 کروڑ ڈالر رہ گئیں، اور اس کا تجارتی خسارہ جولائی کے 27 ارب 35 کروڑ ارب ڈالر کے مقابلے میں کم ہوکر اگست میں 26 ارب 49 کروڑ ڈالر ہو گیا۔
واضح رہے کہ امریکا نے 27 اگست سے بھارت کی جانب سے روسی تیل کی خریداری جاری رکھنے پر بھارتی مصنوعات پر اضافی 25 فیصد محصول عائد کیا تھا جس سے امریکی منڈی میں بھارتی برآمدات پر مجموعی محصول 50 فیصد ہو گیا، جو کسی بھی امریکی تجارتی شراکت دار کے لیے سب سے زیادہ ہے۔
امریکا کو بھارت کی برآمدات جو جولائی میں 8 ارب ایک کروڑ ڈالر تھیں اگست میں کم ہوکر 6 ارب 86 کروڑ ڈالر رہ گئیں۔
اپریل سے اگست کے دوران واشنگٹن کو بھارت کی ترسیلات 40 ارب 39 کروڑ ڈالر رہیں، امریکا کی جانب سے بھارتی مصنوعات پر بلند محصولات کا مکمل اثر اگلے ماہ محسوس کیا جائے گا۔