اسرائیل کے خود ساختہ دارالحکومت یروشلم میں وزیرِاعظم نیتن یاہو کی جارحانہ پالیسیوں اور یرغمالیوں کی رہائی پر ناکامی کے خلاف پُرتشدد مظاہرے جاری ہیں۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ مظاہرے وسعت اور شدت پکڑتے جا رہے ہیں یہاں تک کہ نیتن یاہو کی رہائش گاہ بھی محفوظ نہیں رہی۔

عوام کی بڑی تعداد نے آج اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کی رہائش گاہ کے قریب شدید احتجاج کیا جس کے دوران وہاں ایک ٹینک کو بھی آگ لگادی گئی۔

ٹینک میں لگی آگ اتنی خوفناک تھی کہ اس نے ساتھ کھڑی اسرائیلی فوجی اہلکار کی ایک کار کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ٹینک اور گاڑی دونوں جل کر خاکستر ہوگئے۔

متاثرہ گاڑی کے مالک اسرائیلی فوجی اہلکار نے بتایا کہ غزہ میں جنگ کے دوران مسلسل خدمات انجام دے چکا ہوں اور یرغمالیوں کے خاندانوں کے ساتھ ہوں لیکن یہ آگ عوام اور فوج کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکا رہی ہے۔

מפגינים התבצרו על גג הספרייה הלאומית הסמוכה לכנסת | תיעוד@YCiechanover pic.

twitter.com/jvgolcWnYC

— כאן חדשות (@kann_news) September 3, 2025

اس عوامی مظاہرے کے باعث اسرائیلی وزیراعظم کی رہائش گاہ کے قرب و جوار میں رہنے والے رہائشیوں کو اپنے گھروں سے نکل کر محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا۔

مظاہرین نے کچرے کے ڈبوں اور ٹائروں کو بھی آگ لگا دی جس سے آگ قریبی گھروں اور گاڑیوں تک پھیل گئی تھی۔

یاد رہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف یہ احتجاج "یومِ خلل" (Day of Disruption) کے موقع پر ہوا جس کا مقصد غزہ میں قید 48 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا۔

ادھر اسرائیلی پولیس نے اس احتجاج کو "جرم اور دہشت گردی" قرار دیا اور کہا کہ یہ اقدامات کسی بھی پرامن مظاہرے کا حصہ نہیں ہو سکتے۔

وزیرِانصاف یاریو لیوِن اور انتہاپسند وزیرِقومی سلامتی ایتمار بن گویر نے مظاہرین کو "آتش زن دہشت گرد" قرار دیتے ہوئے طاقت کے استعمال کا حکم دیا۔

اسی دوران حکومت نے حسبِ روایت اپنے اندرونی اختلافات کا ذمہ دار اٹارنی جنرل گالی بہاراو-میارا اور اعلیٰ عدالت کو ٹھہرانا شروع کر دیا۔

دوسری جانب حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے بھی گاڑیوں کو آگ لگانے کی مذمت کی لیکن ساتھ ہی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ اصل جرم یہ ہے کہ حکومت نے غزہ میں قید یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کوئی معاہدہ نہ ہونے دیا۔

اپوزیشن رہنماؤں یائیر لپیڈ اور بینی گینتز نے کہا کہ پُرامن احتجاج ہر شہری کا جمہوری حق ہے، لیکن تشدد سے جدوجہد کو نقصان پہنچتا ہے۔

یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا ہے جب اسرائیل اندرونی طور پر شدید سیاسی و سماجی بحران کا شکار ہے۔ ایک طرف نیتن یاہو کی حکومت اپنی انتہاپسند پالیسیوں کے باعث تنقید کی زد میں ہے، تو دوسری جانب غزہ میں جاری قتل و غارت اور یرغمالیوں کی بازیابی میں ناکامی نے عوامی غصے کو مزید بڑھا دیا ہے۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے دانستہ طور پر غزہ کے ساتھ ممکنہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کو سبوتاژ کیا تاکہ اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھایا جا سکے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں بڑھتی ہوئی بدامنی اور حکومت مخالف تحریک اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ نیتن یاہو کی انتہاپسند پالیسیوں نے نہ صرف فلسطینی عوام بلکہ اسرائیلی معاشرے کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔

عالمی برادری کے لیے یہ ایک اور موقع ہے کہ وہ اسرائیل کے غیرذمہ دارانہ رویے اور غزہ میں انسانی المیے پر خاموش تماشائی بننے کے بجائے دباؤ ڈالے تاکہ اصل امن قائم ہو سکے۔

گزشتہ روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی کہا تھا کہ اسرائیل نے غزہ میں جنگ کو جاری رکھا ہوا ہے جس سے اس کی عالمی سطح پر ساکھ متاثر ہورہی ہے اور اتحادی ممالک بھی اب اس کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آتے۔

 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیر یرغمالیوں کی نیتن یاہو کی کہ اسرائیل کے ساتھ کو بھی

پڑھیں:

اسرائیل  نے 30 فلسطینیوں کی لاشیں ناصر اسپتال کے حوالے کردیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں واقع ناصر اسپتال نے بتایا ہے کہ اسے اسرائیل کی جانب سے بین الاقوامی کمیٹی آف ریڈ کراس (ICRC) کے ذریعے مزید 30 فلسطینیوں کی لاشیں موصول ہوئی ہیں، جس کے بعد جنگ بندی کے بعد سے موصول ہونے والی لاشوں کی مجموعی تعداد 225 ہوگئی ہے۔

عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق اسپتال کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ آج اسرائیلی قابض افواج نے بین الاقوامی کمیٹی آف ریڈ کراس کے ذریعے 30 فلسطینی شہداء کی لاشیں حوالے کیں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق اسرائیل کی جانب سے واپس کی گئی متعدد لاشوں پر تشدد، ہاتھ باندھنے، آنکھوں پر پٹیاں باندھنے اور چہرے بگاڑنے کے آثار پائے گئے ہیں جب کہ بیشتر لاشیں شناخت کے بغیر واپس کی گئی ہیں۔

واضح  رہےکہ  یہ اقدام 10 اکتوبر کو نافذ ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کا حصہ ہے، جس کے تحت اسرائیل اور حماس کے درمیان قیدیوں اور لاشوں کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔ اس معاہدے میں مصر، قطر اور ترکی ثالثی کے کردار میں ہیں، جب کہ امریکا نگرانی کر رہا ہے۔

رپورٹس کے مطابق، غزہ میں تباہ شدہ فرانزک لیبارٹریوں اور اسرائیلی محاصرے کے باعث اہلِ خانہ اپنے پیاروں کی شناخت جسمانی نشانات یا کپڑوں سے کر رہے ہیں۔ اسپتال کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ نئی موصولہ لاشوں پر تشدد کے نشانات یا شناخت سے متعلق معلومات بعد میں جاری کی جائیں گی۔

فلسطینی نیشنل کمپین برائے بازیابیِ شہداء کے مطابق، جنگ بندی سے قبل اسرائیل 735 فلسطینیوں کی لاشیں نمبروں کے قبرستانوں  میں دفنائے ہوئے تھا ، اسرائیلی اخبار ہاریٹز کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج غزہ سے تعلق رکھنے والے تقریباً 1500 فلسطینیوں کی لاشیں جنوبی اسرائیل کے بدنام زمانہ سدی تیمن فوجی اڈے میں رکھے ہوئے ہے۔

خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی پابندیوں سے فلسطینیوں کو خوراک و پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے، انروا
  • جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے
  • اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں
  • اسرائیل  نے 30 فلسطینیوں کی لاشیں ناصر اسپتال کے حوالے کردیں
  • پاکستان افغانستان کے ساتھ مزید کشیدگی نہیں چاہتا، ترجمان دفتر خارجہ
  • قطری وزیراعظم نے فلسطینیوں کو جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا ذمے دار ٹھیرادیا
  • اسرائیل؛ فوج میں جبری بھرتی کیخلاف لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے؛ ہلاکتیں
  • حکومت پختونخواہ میں دہشتگردوں کیخلاف طاقت کابھرپور استعمال کرے، ہم پاکستان کے ساتھ ہیں: مولانا فضل الرحمان
  • یروشلم میں ہزاروں قدامت پسند یہودیوں کا فوجی بھرتی کیخلاف احتجاج
  • غفلت اور لاپرواہی سے گاڑی چلانے والوں کیخلاف کارروائیوں میں 97 فیصد اضافہ