آوازیں سننا ذہنی بیماری یا روحانی رابطہ؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
مغربی دنیا میں اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اسے ’آوازیں سنائی دیتی ہیں‘ یا کوئی اسے بغیر دکھائی دیے ہدایات دے رہا ہے تو عموماً اسے ذہنی بیماری یا سائیکوسِس (نفسیاتی اختلال) کا شکار سمجھا جاتا ہے لیکن دنیا کے کئی خطے ایسے بھی ہیں جہاں ’آوازیں سننا‘ نہ صرف عام سمجھا جاتا ہے بلکہ اسے روحانی، علمی یا جذباتی رہنمائی کی علامت تصور کیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اگر آپ کو بھی پڑوس کا شور بہت پریشان کرتا ہے تو یہ خبر آپ کے لیے ہے؟
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی سماعتی فریب نظری (آڈیٹری ہیلوسینیشنز) کا تجربہ بہت سے ایسے افراد کو بھی ہوتا ہے جن میں کوئی ذہنی بیماری تشخیص نہیں ہوئی۔ کچھ مطالعات میں یہ تناسب 75 فیصد یا اس سے زائد بتایا گیا ہے۔
مختلف ثقافتیں، مختلف تشریحاتاس موضوع پر تحقیق کرنے والی امریکی ماہر بشریات پروفیسر تانیا لہرمن کہتی ہیں کہ یہ بات مقامی ثقافت، رسم و رواج اور سماجی رویوں پر منحصر ہے کہ آوازیں سننے والے کو بیمار سمجھا جائے گا یا روحانی طور پر خاص۔
مثال کے طور پر بھارت کے شہر چنئی میں ایک تحقیق میں شامل افراد نے بتایا کہ وہ اکثر گھر کے بزرگوں، والدین یا بہنوں کی آوازیں سنتے ہیں جو انہیں کھانے بنانے، نہانے یا دکان جانے کی ہدایت دیتی ہیں۔ ایک خاتون کا کہنا تھا کہ یہ آوازیں مجھے سکھاتی ہیں کہ مجھے کیا نہیں آتا۔
گھانا کے دارالحکومت اکرا میں بعض افراد نے ان آوازوں کو اللہ کی طرف سے ہدایت قرار دیا اور کہا کہ ان کی زندگی بچانے میں ان آوازوں کا کردار ہے۔
جبکہ امریکا میں اسی تحقیق میں شامل افراد نے ان آوازوں کو زیادہ تر تکلیف دہ، جارحانہ اور ناقابل برداشت قرار دیا، اور اکثر انہیں ’محض دماغ کا ایک فریب‘ کہا۔
آوازیں: مسئلہ یا مشورہ؟تانیا لہرمن کی تحقیق کے مطابق مغربی مریض اکثر اپنی اندرونی آوازوں سے نفرت کرتے ہیں جب کہ بھارت اور گھانا میں رہنے والے افراد ان آوازوں کو رہنمائی، سیکھنے اور تسلی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
چنئی کے کچھ افراد نے اگرچہ آوازوں سے ڈرنے کا ذکر بھی کیا لیکن ان میں سے کئی آوازوں کو محبت بھرے مشوروں جیسا محسوس کرتے ہیں۔
مزید پڑھیے: کانوں میں غیر حقیقی آوازیں، کن غذاؤں سے مسئلہ حل ہوسکتا ہے؟
گھانا میں اگرچہ کچھ سماجی بدنامی کا خدشہ ضرور موجود ہے، خاص طور پر اگر آوازیں تنقیدی یا جادوگری سے منسلک ہوں، لیکن پھر بھی وہاں یہ تجربات اتنے بدنام یا قابل شرم نہیں جتنے مغرب میں۔
کیا یہ فرق ذہنی صحت کے نتائج کو متاثر کرتا ہے؟تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو افراد اندرونی آوازوں کو قبول کرتے ہیں یا ان سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں وہ اپنی ذہنی بیماری سے بہتر طور پر نمٹتے ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق بھارت میں نفسیاتی مریضوں نے امریکا یا کینیڈا کے مریضوں کے مقابلے میں کم منفی علامات ظاہر کیں اور سماج میں زیادہ بہتر طریقے سے فعال رہے، چاہے وہ دوا لے رہے ہوں یا نہ لے رہے ہوں۔
پروفیسر اشوک مالا (میکگل یونیورسٹی، کینیڈا) کے مطابق بھارت جیسے معاشروں میں خاندانی نظام مضبوط ہوتا ہے مریض کو تنہا نہیں چھوڑا جاتا اور اکثر علاج میں خاندان کا کوئی فرد ساتھ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مغرب میں قانونی پیچیدگیاں اور ذاتی رازداری کی حدود خاندان کو دور رکھتی ہیں جس کا مریض کی بحالی پر منفی اثر پڑتا ہے۔
مغرب میں سماجی بدنامی، تشدد اور غلط فہمیاںتحقیقات بتاتی ہیں کہ مغرب میں ذہنی بیماری کے مریضوں کو اکثر خطرناک مجرم سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ خود زیادہ تر تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ خاص طور پر امریکا میں جہاں بندوق کے تشدد اور بےگھری کی شرح زیادہ ہے وہاں آوازیں سننے والے افراد کی کہانیاں اکثر خوفناک ہو جاتی ہیں جیسے کہ خون پینے یا لوگوں کو نقصان پہنچانے کی ہدایات۔
کیا ہمیں ’آوازیں سننے‘ کو دوبارہ سمجھنے کی ضرورت ہے؟پروفیسر تانیا لہرمن کہتی ہیں کہ دنیا کے بہت سے معاشروں میں لوگوں کو مردوں سے بات کرنے، فرشتوں کو دیکھنے یا الہام پانے کی توقع کی جاتی ہے۔ ایسے معاشرے ’آوازیں سننے‘ کو روحانی تجربہ سمجھتے ہیں نہ کہ ذہنی بیماری۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم ان تجربات کو صرف بیماری نہ سمجھیں بلکہ سماجی، ثقافتی اور روحانی تناظر میں دیکھیں تو شاید ہم مریضوں کو بہتر سمجھ سکیں اور بہتر مدد دے سکیں۔
مزید پڑھیں: ڈی ایل ڈی ایک چھپی ہوئی بیماری جو 10 فیصد بچوں میں ہوتی ہے، حل کیا ہے؟
الغرض آوازیں سننا دنیا بھر میں عام تجربہ ہے۔ مغربی معاشروں میں یہ ذہنی بیماری کی علامت سمجھا جاتا ہے جب کہ بعض ثقافتوں میں یہ روحانی ہدایت مانی جاتی ہے۔
ثقافتی رویے اس بات پر اثر ڈالتے ہیں کہ ایسے شخص کی حالت کیسی ہوگی اور وہ کتنا بہتر بحال ہو پائے گا۔ خاندانی معاونت، سماجی قبولیت اور مثبت رویے ایسے شخص کے لیے بہتر رہتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آڈیٹری ہیلوسینیشن آوازیں آنا آوازیں سنائی دینا سماعتی فریب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا وازیں ا نا ا وازیں سنائی دینا سماعتی فریب سمجھا جاتا ہے آوازیں سننے ان آوازوں آوازوں کو کے مطابق افراد نے کرتے ہیں ہیں کہ
پڑھیں:
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کا صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے رابطہ، جرگہ بلانے کا فیصلہ
پشاور:وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی نے صوبے میں امن و امان کی صورتحال کے حوالے سے مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ٹیلیفونک رابطے کیے اور صوبائی اسمبلی کی اِن ہاؤس کمیٹی کے تحت تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین پر مشتمل جرگہ بلانے کا فیصلہ کیا گیا۔
وزیر اعلیٰ نے عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان سے بھی ٹیلیفون پر گفتگو کی جس میں صوبے کی امن و امان کی مجموعی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔
اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے سینیٹر ایمل ولی خان کو اسپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی کی جانب سے منعقد کی جانے والی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں شرکت کی دعوت دی، سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا کہ پارٹی سے مشاورت کے بعد اے پی سی میں شرکت سے متعلق فیصلہ کیا جائے گا۔
وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی نے بتایا کہ انہوں نے صوبے کے دیگر سیاسی رہنماؤں، جن میں مولانا فضل الرحمٰن، سراج الحق، امیر مقام، آفتاب شیرپاؤ اور محمد علی شاہ باچا شامل ہیں، سے بھی رابطے کیے ہیں۔ ان تمام رہنماؤں سے صوبے کی امن و امان کی صورتحال پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ صوبے میں امن کے قیام پر کوئی دو رائے نہیں، امن و استحکام حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن ہے مگر امن سب کا مشترکہ ہدف ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسپیکر صوبائی اسمبلی کی جانب سے تمام سیاسی رہنماؤں کو باضابطہ طور پر اے پی سی میں شرکت کی دعوت دی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ نے اس عزم کا اظہار کیا کہ تمام فریقین کو ساتھ لے کر صوبے میں پائیدار امن اور استحکام یقینی بنایا جائے گا۔