اسرائیل حماس جنگ کے دوران غزہ میں 21 ہزار بچے معذوری کا شکار ہوگئے، اقوام متحدہ کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان 7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے اب تک کم از کم 21 ہزار بچے معذور ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ’کمیٹی برائے معذور افراد کے حقوق کے مطابق قریباً 40 ہزار 500 بچے جنگ سے متعلق نئے زخموں کا شکار ہوئے ہیں، جن میں سے نصف سے زائد بچے معذوری کا شکار ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: حماس کے عسکری ونگ کے ترجمان ابو عبیدہ شہید ہوگئے، اسرائیلی وزیر دفاع کا دعویٰ
فلسطینی علاقوں کی صورتحال پر جائزہ لیتے ہوئے کمیٹی نے کہا کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے غزہ میں جاری آپریشن کے دوران دیے جانے والے انخلا کے احکامات اکثر بصارت یا سماعت سے محروم افراد کے لیے ناقابلِ رسائی تھے، جس کی وجہ سے ان کا انخلا ناممکن ہوگیا۔
کمیٹی نے مزید کہا کہ رپورٹس میں بتایا گیا کہ معذور افراد کو غیر محفوظ اور غیر انسانی حالات میں نقل مکانی پر مجبور کیا گیا، ’جیسے کہ ریت یا کیچڑ پر بغیر کسی سہولت کے رینگتے ہوئے۔‘
اس دوران کمیٹی نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کی کہ غزہ کی پٹی میں انسانی ہمدردی کی امداد پر عائد پابندیوں کا سب سے زیادہ اثر معذور افراد پر پڑ رہا ہے۔
کمیٹی نے کہا کہ معذور افراد کو امداد کی شدید رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا، جس کے باعث بہت سے لوگ کھانے پینے کی اشیا، صاف پانی یا صفائی کی سہولیات سے محروم ہو گئے اور ان کا زندہ رہنے کے لیے دوسروں پر انحصار بڑھ گیا۔
رپورٹ کے مطابق اگرچہ امریکا اور اسرائیل کی حمایت یافتہ ’غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن‘ کے خطے میں صرف 4 تقسیم مراکز ہیں، لیکن جس اقوام متحدہ کے نظام کی جگہ یہ قائم کیا گیا ہے اس کے قریباً 400 مراکز تھے۔
مزید یہ کہ جنگی ملبہ اور نقل و حرکت کے آلات کے کھنڈرات میں دب جانے کی وجہ سے معذور افراد کے لیے ان نئے مراکز تک پہنچنا بھی مشکل ہوگیا ہے۔
کمیٹی کے مطابق 83 فیصد معذور افراد اپنے معاون آلات سے محروم ہو گئے ہیں اور زیادہ تر متبادل سہولیات جیسے گدھا گاڑیاں خریدنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے۔
کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ وہیل چیئر، واکر، لاٹھی، اسپلنٹ اور مصنوعی اعضا جیسے آلات اسرائیلی حکام کے نزدیک ’ڈوئل یوز آئٹمز‘ قرار پائے ہیں، اسی وجہ سے انہیں امدادی سامان میں شامل نہیں کیا گیا۔
کمیٹی نے جنگ سے متاثرہ معذور افراد کے لیے بڑے پیمانے پر انسانی ہمدردی کی امداد فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے زور دیا کہ تمام فریقین ایسے اقدامات اختیار کریں جو معذور افراد کو مزید تشدد، نقصان، اموات اور حقوق کی محرومی سے بچا سکیں۔
کمیٹی کے مطابق 7 اکتوبر 2023 سے 21 اگست 2025 تک کم از کم ایک لاکھ 57 ہزار 114 افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے 25 فیصد سے زائد مستقل معذوری کے خطرے سے دوچار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ : حماس کا بڑا حملہ، اسرائیلی فوج کا پلاٹون کمانڈر لیفٹیننٹ اوری گرلیک ہلاک، متعدد زخمی
کمیٹی نے کہا کہ اسرائیل کو معذور بچوں کو حملوں سے بچانے کے لیے مخصوص اقدامات کرنے چاہییں اور انخلا کے ایسے طریقہ کار اپنانے چاہییں جن میں معذور افراد کی ضروریات کا خیال رکھا جائے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اسرائیل کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ معذور افراد کو محفوظ طریقے سے گھروں کو لوٹنے دیا جائے اور انہیں اس عمل میں مدد فراہم کی جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسرائیل حماس جنگ اسرائیل کی بمباری بچے معذوری کا شکار وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل حماس جنگ اسرائیل کی بمباری بچے معذوری کا شکار وی نیوز معذور افراد کو اقوام متحدہ بچے معذور کے مطابق کمیٹی نے افراد کے کا شکار کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
سول ہسپتال کوئٹہ میں مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سول ہسپتال کوئٹہ کے آڈٹ کے دوران ادویات کے ریکارڈ میں انحراف اور 537 روپے کے آکیسجن سلینڈر کیلئے 40 ہزار ادا کرنے سمیت دیگر بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں سنڈیمن پرووینشل (سول) ہسپتال کوئٹہ میں کروڑوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں اور سنگین انتظامی بدنظمی کا انکشاف ہوا ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین اصغر علی ترین کی زیر صدارت اجلاس میں پیش کی گئی اسپیشل آڈٹ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2017 تا 2022 کے دوران اسپتال انتظامیہ نے 3 کروڑ روپے مالیت کی ادویات خریدیں، لیکن سپلائی آرڈرز اور بلز میں شدید تضاد پایا گیا۔ ریکارڈ کے مطابق آرڈر ایک کمپنی کو جاری کیا گیا، جبکہ ادائیگی کسی دوسری کمپنی کو کی گئی۔ اس کے علاوہ اسٹاک رجسٹر اور معائنہ کی رپورٹس بھی موجود نہیں ہیں۔
رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ مالی سال 2019-20 کے دوران سول ہسپتال کے مرکزی اسٹور سے دو کروڑ 28 لاکھ روپے مالیت کی ادویات غائب ہو گئیں۔ اس سنگین غفلت پر مؤقف اختیار کیا گیا کہ سابقہ فارماسسٹ نے بیماری کے باعث بروقت انٹریاں درج نہیں کیں۔ تاہم تشویشناک بات یہ ہے کہ مذکورہ فارماسسٹ کی جانب سے آج تک مکمل ریکارڈ جمع نہیں کرایا گیا۔ اس کے علاوہ آکسیجن سلنڈرز کی زائد نرخوں پر خریداری سے حکومتی خزانے کو ساڑھے 13 لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا کہ معاہدے کے تحت سلنڈرز کی قیمت 537 روپے مقرر تھی، لیکن وبائی دور میں مارکیٹ سے 40 ہزار روپے فی سلنڈر کے ناقابل یقین نرخ پر خریداری کی گئی۔ مزید یہ کہ تمام کوٹیشنز ایک ہی تحریر میں تیار کی گئی تھیں، جس سے شفافیت پر سنگین سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ کمیٹی نے ان تمام معاملات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت کو غیر تسلی بخش قرار دیا اور ذمہ دار افسران کی شناخت اور غفلت کے مرتکب اہلکاروں کے خلاف کارروائی اور انکوائری کرکے ایک ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔