’26 ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ تشکیل دینا قانونی تقاضہ ہے‘
اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT
تحریک تحفظ آئین پاکستان کے رہنما مصطفیٰ نواز کھوکھر نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں 26 ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:فضل الرحمان نے ’مال‘ لے کر 26ویں ترمیم کے لیے ووٹ دیا، علی امین گنڈاپور کی مولانا پر پھر تنقید
درخواست گزار نے مؤقف اپنایا کہ سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے 31 اکتوبر کو متفقہ طور پر 26 ویں آئینی ترمیم پر فل کورٹ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا تھا، مگر اس فیصلے پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
انتظامی فیصلے کو چیلنجدرخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ کمیٹی کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کے حوالے سے جاری کردہ انتظامی فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست گزار کے مطابق کمیٹی کے فیصلے پر چیف جسٹس کی وضاحت یا کوئی بھی انتظامی اقدام عمل درآمد نہ کرنے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتا۔
آئینی اور قانونی نکاتدرخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں کی گئی ترامیم اور تبدیلیاں آئین اور قانون سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
یہ بھی پڑھیں:26ویں آئینی ترمیم کیس پر سپریم کورٹ ججز کی رائے اور اجلاسوں کی تفصیلات منظر عام پر آگئیں
تاہم، ایکٹ کی شق 2(2) کے مطابق فل کورٹ کی تشکیل کا فیصلہ بالکل قانون کے مطابق ہے۔
کمیٹی کے اختیار پر مؤقفدرخواست گزار کا کہنا ہے کہ رجسٹرار یا کوئی اور اتھارٹی کمیٹی کے فیصلے کو ختم کرنے کا اختیار نہیں رکھتی، اس لیے سپریم کورٹ اس معاملے میں واضح حکم جاری کرے تاکہ 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے فل کورٹ تشکیل دیا جا سکے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
26ویں آئینی ترمیم آئینی ترمیم سپریم کورٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 26ویں ا ئینی ترمیم سپریم کورٹ ویں آئینی ترمیم سپریم کورٹ کمیٹی کے فل کورٹ
پڑھیں:
وقف سیاہ قانون کے ختم ہونے تک قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رہیگی، مولانا ارشد مدنی
جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے کہا کہ یہ نیا وقف قانون ملک کے اس آئین پر براہ راست حملہ ہے جو شہریوں اور اقلیتوں کو نہ صرف برابر کا حق دیتا ہے بلکہ انہیں مکمل مذہبی آزادی بھی فراہم کرتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے وقف (ترمیمی) قانون 2025 کو منسوخ کرنے سے منع کر دیا ہے۔ حالانکہ عدالت نے وقف قانون کی کچھ دفعات پر جزوی ترمیم اور ایک پر مکمل طور سے روک لگا دی ہے۔ اس فیصلے پر جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی کا ردعمل سامنے آیا ہے۔ انہوں نے وقف قانون کی 3 اہم متنازعہ دفعات پر ملی عبوری راحت کے فیصلے کا استقبال کیا ہے۔ انہوں نے اپنے فوری ردعمل میں کہا ہے کہ ’’انصاف اب بھی زندہ ہے‘‘۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ کے ذریعہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے متعلق اپنا یہ اطمینان ظاہر کیا ہے۔
اس پوسٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ جمعیۃ علماء ہند وقف قانون کی 3 اہم متنازعہ دفعات پر ملی عبوری راحت کے فیصلے کا استقبال کرتی ہے۔ اس عبوری راحت نے ہماری اس امید کو یقین میں بدل دیا ہے کہ انصاف اب بھی زندہ ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ جمعیۃ علماء ہند اس سیاہ قانون کے ختم ہونے تک اپنی قانونی اور جمہوری جدوجہد جاری رکھے گی۔ مولانا ارشد مدنی کے مطابق یہ نیا وقف قانون ملک کے اس آئین پر براہ راست حملہ ہے جو شہریوں اور اقلیتوں کو نہ صرف برابر کا حق دیتا ہے بلکہ انہیں مکمل مذہبی آزادی بھی فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون مسلمانوں کی مذہبی آزادی چھین لینے کی ایک آئین مخالف سازش ہے، اس لئے جمعیۃ علماء ہند نے وقف قانون 2025 کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ سپریم کورٹ اس سیاہ قانون کو ختم کر کے ہمیں مکمل آئینی انصاف فراہم کرے گا۔ قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے آج وقف (ترمیمی) قانون 2025 کی کچھ دفعات پر روک لگا دی ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا بی آر گوئی اور جسٹس اے جی مسیح کی بنچ نے وقف کرنے کے لئے 5 سال تک اسلام پر عمل کرنا لازمی قرار دینے والے التزام پر اس وقت تک روک لگا دی ہے جب تک کہ متعلقہ ضابطہ قائم نہیں ہو جاتا۔ اس کے علاوہ اب کلکٹر کو جائیداد تنازعہ پر فیصلہ لینے کا حق نہیں ہوگا۔ اپنے عبوری فیصلے میں سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ریاستی وقف بورڈ میں 3 سے زائد غیر مسلم رکن نہیں ہونے چاہئیں، جبکہ مرکزی وقف بورڈ میں 4 سے زائد غیر مسلم اراکین نہیں ہوں گے۔