1965 جنگ کا چوتھا روز؛ پاکستانی مسلح افواج نے بھارتی دھمکی کا جواب کیسے دیا؟
اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT
سن 1965، 4 ستمبر کو جنگ کے چوتھے روز پاکستان کی مسلح افواج نے بھارت کی دھمکی کو نیست و نابود کر دیا۔
جنگ کے چوتھے روز بھارتی وزیر خارجہ اندرا گاندھی نے دعویٰ کرتے ہوئے دھمکی دی کہ ’’بھارت پاکستان کے ساتھ کشمیر کے تنازع کو ایک ہی دفعہ بذریعہ طاقت حل کرے گا‘‘ جبکہ چینی وزیر خارجہ نے پاکستان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’'بھارت نے جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔‘‘
چین کے سرکاری اخبار پیپلز ڈیلی نے لکھا کہ ’’بھارتی افواج کی پاکستانی سرزمین میں جبری مداخلت پر پاکستانی مسلح افواج نے اپنے دفاع میں بھارتی فوجوں کو لائن آف کنٹرول سے پیچھے دھکیل دیا۔‘‘
جی ایچ کیو نے تمام فارمشینز کو بھارت کے خلاف دفاعی اقدامات لینے کا حکم دے دیا۔
پاکستان کے چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل افضل رحمان خان نے پاکستان بحریہ کی تمام نیول شپس کو سمندری حدود میں دفاعی پوزیشن لینے کا حکم دیا۔
بھارتی بحریہ کی نقل و حمل پر نظر رکھنے کے لیے پاک بحریہ نے اپنی طویل فاصلے تک وار کرنے والی آبدوز اور پی این ایس غازی بحری جہاز کو تیاری کا حکم دیا۔
پی این ایس غازی کو یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی کہ وہ بھارتی بحری جہازوں بشمول آئی این ایس میسور، آئی این ایس دہلی بحری جہازوں سے لاحق خطرے کا رُخ موڑے۔
جوڑیاں سیکٹر میں 6 فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی پلاٹون نے سیکنڈ لیفٹیننٹ شبیر شریف کی سربراہی میں تروٹی میں اہم بھارتی مورچہ پر حملہ کیا، یہ انتہائی سخت معرکہ تھا جس کے نتیجے میں بہت سے جوان شہید ہوئے۔
سیکنڈ لیفٹیننٹ شبیر شریف نے نہایت بہادری اور دلیری سے اپنے سپاہیوں کو بھارتی افواج کے نرغے سے نکالتے ہوئے ان کو دوبارہ منظم کرکے پھر سے حملہ کیا اور اپنے 6 شہداء کے جسد خاکی اور 15زخمیوں کو وہاں سے نکال لائے۔
سیکنڈ لیفٹیننٹ شبیر شریف نے تیسری بار حملہ کیا اور ایک آرٹلری گن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ بے مثال قیادت، بہادری، اور جنگی صلاحیت کے اعتراف میں سیکنڈ لیفٹیننٹ شبیر شریف کو ستارہ جرات سے نوازا گیا۔
پاکستان ایئر فورس کی جانب سے بھارتی فضائیہ کی پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش ناکام بنا دی گئی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سیکنڈ لیفٹیننٹ شبیر شریف
پڑھیں:
خالصتان حامی گروپ کی وینکوور میں بھارتی قونصل خانے پر قبضے کی دھمکی
اوٹاوا/نیویارک – بھارت اور کینیڈا کے درمیان سفارتی تعلقات کی حالیہ بحالی کے باوجود، خالصتان تحریک سے وابستہ سرگرمیوں میں شدت آتی جا رہی ہے۔
امریکا میں قائم خالصتان حامی تنظیم “سکھ فار جسٹس” (SFJ) نے اعلان کیا ہے کہ وہ جمعرات کے روز وینکوور میں بھارتی قونصل خانے کا محاصرہ کر کے اس کا “کنٹرول سنبھالنے” کی کوشش کریں گے۔
خالصتان حامیوں کو قونصل خانے کے بائیکاٹ کی اپیل
ایس ایف جے نے نہ صرف یہ دھمکی دی ہے بلکہ بھارتی نژاد کینیڈین شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس دن قونصل خانے کا رخ نہ کریں۔
تنظیم نے بھارت کے حال ہی میں تعینات کیے گئے ہائی کمشنر دنیش پٹنائیک کی تصویر والا ایک پوسٹر بھی جاری کیا ہے، جسے ناقدین نے براہِ راست دھمکی کے مترادف قرار دیا ہے۔
الزام: قونصل خانہ جاسوسی میں ملوث ہے
ایس ایف جے کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وینکوور میں بھارتی قونصل خانہ خالصتان کے حامیوں کی نگرانی اور جاسوسی کے لیے ایک نیٹ ورک چلا رہا ہے، جس کے ذریعے ان افراد کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو خالصتان ریفرنڈم تحریک سے وابستہ ہیں۔
تنظیم کا مزید کہنا ہے کہ 18 ستمبر 2023 کو، کینیڈین پارلیمنٹ میں اُس وقت کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے انکشاف کیا تھا کہ خالصتان رہنما ہردیپ سنگھ نِجار کے قتل کی تحقیقات میں بھارتی ایجنٹ کا کردار بھی شاملِ تفتیش ہے۔
دو سال گزرنے کے باوجود بھارتی سفارتی مشن مبینہ طور پر خالصتان حامیوں کے خلاف اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔”
رہنماؤں کو لاحق خطرات اور پولیس تحفظ
بیان میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ خالصتان ریفرنڈم مہم کے ایک رہنما اندرجیت سنگھ گوسل کو لاحق خطرات کے پیش نظر رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس (RCMP) کو ان کی سیکیورٹی فراہم کرنا پڑی۔ گوسل، ہردیپ سنگھ نجار کی ہلاکت کے بعد مہم کی قیادت کر رہے ہیں۔
کینیڈین حکومت کی رپورٹ میں بھی خالصتانی سرگرمیوں پر تشویش
یہ دھمکی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب رواں ماہ کینیڈین حکومت کی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ انتہا پسند خالصتانی گروہوں کو کینیڈا میں موجود نیٹ ورکس اور افراد سے مالی معاونت حاصل ہو رہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق، ان سرگرم گروپوں میں ببر خالصہ انٹرنیشنل، انٹرنیشنل سکھ یوتھ فیڈریشن (ISYF)ہیں یہ دونوں تنظیمیں کینیڈین فوجداری قانون کے تحت دہشت گرد گروہوں کی فہرست میں شامل ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اب یہ گروہ مختلف چھوٹے اور غیر روایتی نیٹ ورکس کے ذریعے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، تاکہ تنظیمی شناخت سے بچا جا سکے۔