ڈیجیٹل کرنسی پر ایک لاکھ ڈالرکی حد برقرار، نیاقانون زیر غور
اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT
اسلام آباد:
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے قائم مقام ڈپٹی گورنر ڈاکٹر عنایت حسین نے بتایاکہ ڈیجیٹل کرنسیز اور اثاثوں کی بیرونِ ملک منتقلی پر فارن ایکسچینج ریگولیشن ایکٹ (FERA) کے تحت سالانہ ایک لاکھ ڈالر کی حد لاگو رہے گی۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں مرکزی ڈیجیٹل کرنسی (CBDC) متعارف کرانے پر کام جاری ہے، تاہم اس کی اجرا سے قبل پاکستان ورچوئل ایسٹس ریگولیٹری اتھارٹی (PVARA)کا قانون، اسٹیٹ بینک ایکٹ میں ترامیم اور مکمل ریگولیٹری فریم ورک ضروری ہے۔
قائمہ کمیٹی کی صدارت سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کی، جس میں PVARA بل کی شق وار منظوری کاعمل شروع کیاگیا۔ وزارت قانون کے قانونی مشیر شہروز بختیار نے اعتراف کیاکہ موجودہ FERA قوانین کو ڈیجیٹل اثاثوں پر نافذ کرنا ممکن نہیں اور اس میں ترامیم درکار ہوں گی۔
سینیٹر افنان اللہ خان نے کہاکہ پاکستانیوں کی ڈیجیٹل اثاثوں میں سرمایہ کاری 21 ارب ڈالر سے تجاوزکر چکی ہے اور حکومت کو فوری قانون سازی کرنی چاہیے۔
ڈاکٹر عنایت حسین نے واضح کیاکہ ڈیجیٹل کرنسی جاری ہونے کے بعد صارفین کو اپنے اکاؤنٹس سے روپے یا ڈیجیٹل روپے لینے کااختیار ہوگا، ڈیجیٹل کرنسی کی قدرروپے کے برابر ہوگی اور اسٹیٹ بینک اسے مکمل کنٹرول کرے گا۔
وزارت قانون کے سیکریٹری راجہ نعیم اکبر نے کہاکہ ڈیجیٹل کرنسی کیلیے تمام عالمی اور مقامی قوانین بشمول FATF سفارشات اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ لاگو ہوں گے اور بیرون ملک کمپنیوں کو پاکستان میں دفتر قائم کرنا ہوگا۔
کمیٹی نے فیصلہ کیاکہ PVARA اتھارٹی کو وزارت خزانہ کے ماتحت کیاجائے گا اور اس کے چیئرمین کیلیے عمرکی حد 55 سال مقررکی گئی ہے۔
واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک نے 2018 میں کرپٹوکرنسی کو غیر قانونی قرار دیا تھا اور تمام بینکوں کو ہدایت کی تھی کہ ایسی ٹرانزیکشنزکو مشتبہ قرار دے کر فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (FMU) کو رپورٹ کریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈیجیٹل کرنسی اسٹیٹ بینک
پڑھیں:
صنعتکاروں کی پالیسی ریٹ 11فیصد برقرار رکھنے پر کڑی تنقید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250916-06-2
کراچی (کامرس رپورٹر)سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کراچی کے صدر احمد عظیم علوی نے بزنس کمیونٹی کے مسلسل مطالبے کے باوجود اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پالیسی ریٹ میں کمی نہ کرنے اور 11فیصد پر برقرار رکھنے کے فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ایک بار پھر پالیسی ریٹ کو سنگل ڈیجٹ پر لانے کا مطالبہ دہرایا ہے۔ ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ مرکزی بینک کے اس فیصلے کے نتیجے میں حکومت کی معاشی شرگرمیوں میں تیزی لانے کی تمام حکمت عملی پر پانی پھر جائے گا اور سرمایہ کاری بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ایک بیان میں احمد عظیم علوی کا مزید کہنا تھا کہ اگر اسٹیٹ بینک پالیسی ریٹ میں یکدم نمایاں کمی کرنے سے قاصر ہے تو مرحلے وار کچھ نہ کچھ کمی کرکے اسے نیچے لایا جاسکتا ہے جس کے ملکی معیشت پر یقینی طور پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے اور کاروبار وصنعتوں کی توسیع اور سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوگی تاہم حالیہ اقدامات نے بزنس کمیونٹی شدید مایوس کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پالیسی ریٹ کی زائد شرح کا سب سے زیادہ نقصان چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں ( ایس ایم ایز) کو ہو گا جو زائد پیداواری لاگت کی وجہ سے اپنی بقا قائم رکھنے کی سخت جدوجہد کررہی ہیں۔انہوں نے مزید کہاکہ مہنگائی کو جواز بنا کر پالیسی ریٹ میں کمی نہ کرنا ہر گز دانشمندی نہیں حالانکہ گذشتہ کئی ماہ کا جائزہ لیا جائے تو مہنگائی شرح میں کمی دیکھنے میں آئی ہے مگر اسٹیٹ بینک نے اپنی مانیٹری پالیسی کو نرم کرنے کے بجائے مزید سخت کردیا ہے جو سمجھ سے بالا تر ہے۔مرکزی بینک کو پاکستان کے حریف ممالک میں پالیسی ریٹ کا جائزہ لینا چاہیے جہاں آسان شرائط اور مناسب شرح پر قرضوں کی فراہمی معمول کی بات ہے۔ انہوں نے مانیٹری پالیسی کمیٹی سے مطالبہ کیا کہ وہ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرے اور ملک کے بہتر مفاد میں پالیسی ریٹ کو بتدریج نیچے لائے تاکہ کاروبار و صنعتی سرگرمیوں کو فروغ حاصل ہو اور پاکستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جاسکے۔