پاکستان میں کرپٹو کرنسی کی قانونی تجارت کا دروازہ کھلنے والا ہے
اشاعت کی تاریخ: 3rd, September 2025 GMT
پاکستان میں جلد ہی کرپٹو کرنسی کی قانونی خرید و فروخت کی راہ ہموار ہونے جا رہی ہے، کیونکہ ورچوئل ایسٹ اتھارٹی بل کی اہم شقیں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے منظور کر لی ۔
اس بات کا اعلان ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سلیم مانڈوی والا نے کمیٹی اجلاس میں کیا، جہاں انہوں نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک اب کرپٹو پر پابندی ختم کرنے جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جیسے ہی قانون سازی مکمل ہوگی، ملک میں کرپٹو کرنسی کی تجارت کو قانونی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔
■ سلیم مانڈوی والا نے واضح کیا کہ جلد ہی قواعد و ضوابط مرتب کیے جائیں گے، اور ان کے بعد شہری قانونی طور پر کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری اور لین دین کر سکیں گے۔
■ ڈپٹی گورنر نے ایک اور اہم پیش رفت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اسٹیٹ بینک “ڈیجیٹل پاک روپیہ” کے پائلٹ پراجیکٹ پر بھی کام کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا:
بینکوں میں موجود موجودہ روپے کو مستقبل میں ڈیجیٹل پاک روپے میں بدلا جا سکے گا، اور اس کا ایکسچینج ریٹ عام روپے کے برابر ہوگا۔”
انہوں نے بتایا کہ کرپٹو کرنسی کی خرید و فروخت بھی اسی ڈیجیٹل پاک روپے کے ذریعے کی جائے گی، جو نظام کو شفاف اور محفوظ بنانے میں مدد دے گا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کرپٹو کرنسی کی
پڑھیں:
سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔ اسلام ٹائمز۔ آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39 کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45 لاکھ 80 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15 لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس، کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5 کیسوں میں 4 کروڑ 40 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9 لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔ مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2 کیسز میں حکومت کو 45 لاکھ روپے کا نقصان اور 14 لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔ رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔