جوڈیشل کانفرنس میں عوامی سطح پرسوالات کے جواب دیں، جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس کو اہم خط
اشاعت کی تاریخ: 5th, September 2025 GMT
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو ایک اہم اور دوٹوک خط لکھا ہے جس میں عدلیہ کے اندرونی فیصلوں اور پالیسیوں پر سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ یہ خط آئندہ 8 ستمبر کو ہونے والی جوڈیشل کانفرنس کے تناظر میں لکھا گیا ہے، جس میں عوامی سطح پر عدالتی معاملات پر روشنی ڈالنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
خط کے اہم نکات:
جسٹس منصور علی شاہ نے خط میں لکھا کہ بطور سینئر ترین جج، عدلیہ کے وقار اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے یہ سوالات اٹھانا میری ذمہ داری ہے۔ میں نے اس سے قبل بھی متعدد بار خط لکھے، لیکن نہ کوئی تحریری اور نہ ہی زبانی جواب موصول ہوا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس اب تک کیوں نہیں بلایا گیا؟
سپریم کورٹ رولز کی منظوری فل کورٹ اجلاس کی بجائے سرکولیشن کے ذریعے کیوں دی گئی؟
اختلافی نوٹ جاری کرنے سے متعلق پالیسی میں تبدیلی پر صرف انفرادی مشاورت کیوں کی گئی؟
ججز کی چھٹیوں پر جنرل آرڈر جاری کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
26ویں آئینی ترمیم سے متعلق درخواستوں پر اصل فل کورٹ کیوں نہیں بنایا گیا؟
جسٹس منصور علی شاہ کا مؤقف:
انہوں نے خط میں یہ بھی لکھا کہ پ عدلیہ کو خودمختار ادارہ بنانے کی بجائے ججز کو کنٹرولڈ فورس کے طور پر سامنے لا رہے ہیں، جو عدالتی آزادی کے اصولوں کے خلاف ہے۔”
جسٹس منصور نے اُمید ظاہر کی کہ نئے عدالتی سال کی افتتاحی تقریب میں چیف جسٹس پاکستان ان سوالات کے واضح اور تفصیلی جوابات دیں گے تاکہ عدلیہ کے وقار، شفافیت اور خودمختاری کو تقویت دی جا سکے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
مصری رہنما کی اسرائیل سے متعلق عرب ممالک کی پالیسی پر شدید تنقید
مصر کے سابق نائب صدر اور بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سابق سیکرٹری جنرل نے اسرائیل سے متعلق عرب ممالک کی پالیسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ انہیں بھی فلسطینیوں کی نسل کشی کے تناظر میں اسرائیل کے خلاف موثر اقدامات انجام دینے چاہئیں۔ اسلام ٹائمز۔ مصر کے سابق نائب صدر محمد البرادعی جو انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں نے اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات پر خاموشی کے باعث عرب ممالک کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا: "عالمی سطح پر حکومتوں، تنظیموں اور ماہرین میں اس بات پر تقریباً اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی جیسے جنگی جرم کا مرتکب ہوا ہے اور اس نے انسانیت کے خلاف دیگر جرائم بھی انجام دیے ہیں۔ مزید برآں، کچھ ممالک جیسے کولمبیا، لیبیا، میکسیکو، فلسطین، اسپین، ترکی اور بولیویا نے عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کیے گئے مقدمے کی حمایت کا اعلان بھی کیا ہے اور بنگلہ دیش، بولیویا، جزر القمر، جیبوتی، چلی اور میکسیکو جیسے ممالک نے عالمی فوجداری عدالت میں بھی اسرائیل کے خلاف عدالتی کاروائی شروع کر رکھی ہے۔ لیکن عرب حکومتوں کی اکثریت نے اسرائیلی مظالم پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے جبکہ ہم ہی اس مسئلے کے حقیقی مدعی ہیں۔" انہوں نے ایکس پر اپنے پیغام میں مزید لکھا: "یوں دکھائی دیتا ہے کہ عرب حکومتیں اسرائیل کے خلاف کوئی بھی قدم اٹھانے سے ڈرتی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میں غلطی پر ہوں گا۔"
محمد البرادعی کا یہ پیغام سوشل میڈیا پر وسیع ردعمل کا باعث بنا ہے اور بڑی تعداد میں صارفین نے ان کے اس پیغام کی حمایت کرتے ہوئے لکھا کہ عرب حکومتیں اسرائیل کی جانب سے طاقت کے اظہار کو اپنے ملک کے اندر مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ایک مصری صافر نے جواب میں لکھا: "اگر آپ، محترم ڈاکٹر صاحب، حقیقت بیان کرنے سے خوفزدہ ہیں تو ہم کیا کریں؟ عرب ڈکٹیٹرز نے اسرائیل کو ایک ہوا بنا کر پیش کیا ہے تاکہ اسے اپنی عوام کو ڈرا سکیں۔" ایک اور صارف نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ کچھ عرب حکومتیں بین الاقوامی اداروں کی مدد حاصل کرنے کی بجائے امریکہ سے مداخلت کی درخواست کرتی ہیں۔ اس نے مزید لکھا: "یہ صورتحال مجھے کچھ ایسے مخالفین کی یاد دلاتی ہے جو نظام کے اندر سے اس کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تاکہ یوں سزا پانے سے بچ سکیں۔" کلی طور پر محمد البرادعی کا یہ پیغام سوشل میڈیا کے صارفین کی جانب سے وسیع ردعمل کا باعث بنا ہے اور ان تمام پیغامات میں غزہ میں اسرائیل کے مجرمانہ اقدامات پر عرب حکومتوں کی خاموشی قابل مذمت قرار دی گئی ہے۔
یاد رہے جنوبی افریقہ نے دسمبر 2023ء میں ہیگ کی عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا جس میں دعوی کیا گیا تھا کہ اس رژیم نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی انجام دے کر نسل کشی کے خلاف کنونشن کی خلاف ورزی کی ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک جیسے برازیل، نکارا گویا، کیوبا، آئرلینڈ، کولمبیا، لیبیا، میکسیکو، اسپین اور ترکی نے اس مقدمے کی حمایت کی ہے۔ اسی طرح جنوبی افریقہ نے اکتوبر 2024ء میں عدالت کو 500 صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ بھی پیش کی تھی جس میں غزہ میں غاصب صیہونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات اور انسانیت سوز مظالم کی تفصیلات درج تھیں۔ غاصب صیہونی رژیم نے آئندہ دو ماہ میں اپنی دفاعیات عدالت میں پیش کرنی ہیں جس کے بعد توقع کی جا رہی ہے کہ 2027ء میں عدالت کا حتمی فیصلہ سنا دیا جائے گا۔