Express News:
2025-11-03@06:40:18 GMT

محسن انسانیت کا پیغام امن

اشاعت کی تاریخ: 6th, September 2025 GMT

محسن انسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا 1500واں یوم ولادت نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ یہ دن صرف ایک مذہبی یا تہذیبی تقریب نہیں بلکہ انسانیت کی تاریخ میں ایک عظیم انقلاب کی یاد ہے۔

وہ انقلاب جس نے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی دنیا کو روشنی عطا کی، ظلم و جبر کی چکی میں پسنے والے انسانوں کو مساوات اور عدل کی نعمت بخشی، طبقاتی تقسیم کے شکار معاشرے کو اخوت، بھائی چارے اور ہمدردی کے رشتوں میں جوڑا، اور سب سے بڑھ کر انسان کو انسانیت کا احترام سکھایا۔ یہ ایک تاریخی اور ابدی حقیقت ہے کہ محسن انسانیت، ہادی اعظم حضرت محمد ﷺ کے ظہور قدسی سے عالم نو طلوع ہوا، انسانیت کی صبح سعادت کا آغاز ہوا، جب آپ نے اس جہان میں قدم رکھا، اس وقت سے تاریخ عالم نے ایک نئے سفر کا آغاز کیا۔

دنیا میں آپ کی تشریف آوری سے ایک تاریخ ساز اور مثالی دور کا آغاز ہوا۔ ایک ایسا انقلاب رونما ہوا جس نے انسانی عزت و وقار کو بحال کرکے دنیا میں امن و سلامتی اور احترام انسانیت کو عام کیا۔پیغمبر رحمت نے انسانیت کے ظلمت و جہالت کے اندھیروں اور تاریکیوں کو دور کیا ۔ انسان طبقاتی تقسیم اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ جنگ و جدل اور ظلم و سفاکی اس کا اوڑھنا بچھونا تھا۔

اس تاریک دور میں انسان اتنا پست اور گھٹا ہوا تھا کہ کائنات میں سانس لیتے ہوئے خوف محسوس کرتا تھا، ظلم و استحصال اور طبقاتی و نسلی منافرت میں اتنا جکڑا ہوا تھا کہ ہر نئی زنجیر کو اپنے لیے تقدیر سمجھتا تھا۔محسن انسانیت ﷺ نے دنیائے انسانیت کو اس کا حقیقی مقام عطا کیا، اس کی عزت و آبرو کو بحال کیا، اس کے شرف و منزلت اور تکریم کا اعلان کیا۔احترام انسانیت کا درس عام کیا۔

محسن انسانیتﷺ نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام انسانیت کے لیے رحمت بن کر آئے۔ آپ ﷺ نے عرب و عجم کے سامنے ایسا ضابطہ اخلاق، مکمل دستور العمل اور شاندار نظام حیات رکھا جو تنگ نظری سے پاک تھا۔ اقوام عالم کے لیے ایسا قابل تقلید اور آئیڈیل نظام جس میں نسلی امتیازات و قبائلی تفاخر کا خاتمہ، مجبوروں، محکموں، خواتین، بچوں اور پسے ہوئے طبقات کے انسانی حقوق کی گارنٹی ہے۔

مدینہ منورہ آمد کے بعد آپ ﷺ نے یہود اور غیر مسلموں کے ساتھ معاہدہ میثاق مدینہ کیا جو دنیا کا سب سے پہلا تحریری دستور بھی تھا جس کو ریاست مدینہ میں نافذ کیا گیا۔ اس امن معاہدہ میں تمام مذاہب اور ثقافتوں کو یکجاکر کے ایک عالمی معاشرے کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ معاہدہ بین المذاہب ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی کی بہترین مثال تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’تمام مخلوق اللہ کا کنبہ ہے،اور اللہ کو اپنے کنبے میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ بھلائی کرے۔‘‘ یہ فرمان آج بھی عالمی امن کے قیام کا سب سے بڑا ضابطہ اخلاق ہے۔

 آج انسانیت شدید ابتلا اور مصیبتوں کا شکار ہے۔ ترقی یافتہ دور اور جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے باوجود بھوک، افلاس، غربت، بیماری اور ناانصافی انسان کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے۔ دنیا کے ایک کونے میں طاقت کی ہوس نے جنگوں کو جنم دیا ہے تو دوسرے کونے میں مفادات کی سیاست نے لاکھوں انسانوں کو در بدر کردیا ہے۔ لاکھوں بچے بھوک سے بلک کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں، لاکھوں بیگناہ عورتیں اور مرد جنگوں کی نذر ہورہے ہیں، اور لاکھوں خاندان اپنے وطن، اپنے گھروں سے محروم ہوکر پناہ گزین کیمپوں میں زندگی کے دن پورے کررہے ہیں۔

فلسطین کی بربادی اور کشمیر کی محرومیاں ہمارے سامنے زندہ مثالیں ہیں۔ عراق، شام، یمن، لیبیا اور افغانستان کے کھنڈرات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ انسان اپنی حماقتوں سے خود ہی اپنی تباہی کا سامان کررہا ہے۔ ایسے حالات میں اگر کوئی نسخہ انسانیت کو امن اور سکون دے سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف اسوہ رسول ﷺ ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا گیا: ’’اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔‘‘اس رحمت کا عملی مظاہرہ ہمیں رسول اکرم ﷺ کی پوری زندگی میں دکھائی دیتا ہے۔

آپ ﷺ نے دشمنوں کے ساتھ بھی عفو و درگزر کا برتاؤ کیا۔ مکہ کی فتح کے موقع پر جب دشمن آپ کے سامنے بے بس کھڑے تھے، آپ نے عام معافی کا اعلان کیا اور فرمایا کہ ’’جاؤ، تم سب آزاد ہو۔‘‘ یہ وہی اصول ہے جو آج کی دنیا میں انتقام اور خونریزی کی آگ کو بجھانے کے لیے سب سے زیادہ کارآمد ہوسکتا ہے، اگر عالمی طاقتیں اسوہ رسول ﷺ کو اپنا لیں تو وہ انتقام اور طاقت کے بجائے انصاف اور معافی کو اپنا شعار بنائیں گی، اور یہی رویہ دنیا کو پائیدار امن دے سکتا ہے۔

 دوسری جانب افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ امت مسلمہ، جسے رسول اکرم ﷺ نے ’’ایک جسم‘‘ قرار دیا تھا کہ اگر ایک عضو کو تکلیف ہو تو پورا جسم بے چین ہوجاتا ہے، وہی امت آج نفاق، انتشار اور تقسیم کا شکار ہے۔ ہمارے باہمی جھگڑے اور گروہ بندی نہ صرف ہماری طاقت کو کمزور کررہے ہیں بلکہ دشمن قوتوں کو موقع دے رہے ہیں کہ وہ ہمیں مزید تقسیم کرکے ہمارے وسائل پر قبضہ جمائیں۔ ہم پر دہشت گردی کا لیبل لگا دیا گیا ہے، ہمیں انتہا پسند بنا کر پیش کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی اور اسلام ایک دوسرے کی ضد ہیں۔

اسلام نے ایک بیگناہ انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے، لیکن ہماری صفوں میں موجود چند عناصر کی شدت پسندی نے پوری امت کو بدنام کیا ہے۔ اس دھبے کو دھونے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے کردار اور عمل سے دنیا کو دکھائیں کہ مسلمان دراصل امن پسند، روادار اور انسانیت کے خیر خواہ ہیں۔ دنیا ہمیں اس وقت سنجیدگی سے سنے گی جب ہمارے قول و فعل میں تضاد نہ ہوگا۔ جب ہم عملی طور پر اپنی زندگیاں سیرتِ نبوی ﷺ کے مطابق ڈھالیں گے۔ جب ہماری معیشت میں انصاف ہوگا، ہماری سیاست میں دیانت ہوگی، ہمارے معاشرتی رویوں میں ہمدردی ہوگی اور ہمارے انفرادی کردار میں اخلاق کی بلندی ہوگی۔ اس وقت دنیا کو ماننا پڑے گا کہ اسلام واقعی امن اور سکون کا دین ہے۔

مسئلہ فلسطین آج بھی عالمی ضمیر پر ایک دھبہ ہے۔ پون صدی گزرنے کے باوجود فلسطینی عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ ان پر ظلم و ستم کی انتہا کی جارہی ہے۔ اسی طرح مسئلہ کشمیر بھی سات دہائیوں سے عالمی اداروں کی الماریوں میں فائلوں کی شکل میں بند ہے۔ لاکھوں کشمیری ظلم کا شکار ہیں لیکن عالمی طاقتیں محض تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ یہ دونوں مسائل صرف مسلم دنیا کے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے مسائل ہیں، کیونکہ جب تک ایک خطہ ظلم اور جبر کی آگ میں جل رہا ہو، دنیا میں حقیقی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ ان مسائل کے حل کے لیے امت مسلمہ کو یک زبان اور متحد ہونا ہوگا۔

اگر ہم باہمی نفاق کو ختم کرکے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوجائیں، تو عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ امتِ مسلمہ اپنے باہمی مفادات اور دشمنی میں اتنی الجھی ہوئی ہے کہ اسے اپنی اصل ذمے داری بھول چکی ہے۔ آج کی سب سے بڑی ضرورت اتحاد امت ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارا باہمی انتشار ہی دشمن کی سب سے بڑی طاقت ہے، اگر ہم متحد ہوجائیں، اپنی صفوں سے منافقت، کرپشن اور ناانصافی کو ختم کردیں، تعلیمی اور سائنسی میدان میں ترقی کریں، تو کوئی طاقت ہمیں دنیا میں بدنام نہیں کرسکتی۔ یاد رکھیے کہ رسول اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو اخوت اور بھائی چارے کی تلقین کی تھی۔آپﷺ نے فرمایا کہ ’’مسلمان آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں‘‘یہ وہ بنیاد ہے جو امت کو دوبارہ زندہ کرسکتی ہے۔

محسن انسانیت ﷺ کی سیرت کی روشنی میں اگر عالمی امن کے قیام کی کاوشیں کی جائیں تو مظلوم اور دکھی انسانیت کے دکھوں میں کمی آسکتی ہے۔ دنیا کو یہ پیغام دیا جائے کہ اسلام تلوار کا نہیں، امن کا دین ہے۔ امت مسلمہ کو چاہیے کہ اپنے تعلیمی اداروں، میڈیا اور سفارتی ذرایع کے ذریعے اس پیغام کو عام کرے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے عملی اقدامات کے ذریعے ثابت کریں کہ مسلمان جہاں بھی ہیں، وہاں امن، محبت اور خیر کا چراغ روشن ہوتا ہے۔ دنیا کو امن کی ضرورت ہے اور انسانیت کو رہنمائی کی تلاش ہے۔

یہ رہنمائی کسی فلسفی، کسی مفکر یا کسی عالمی طاقت سے نہیں بلکہ اس ہستی سے مل سکتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ’’رحمت اللعالمین‘‘بنا کر بھیجا، اگر دنیا اس رحمت کو اپنا لے تو بھوک اور غربت کے بادل چھٹ سکتے ہیں، جنگوں کی آگ بجھ سکتی ہے، دربدری اور ہجرت کے دکھ ختم ہوسکتے ہیں، اور انسانیت سکھ اور چین کا سانس لے سکتی ہے۔ محسن انسانیت ﷺ کا پیغام آج بھی زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: محسن انسانیت انسانیت کو انسانیت کا انسانیت کے دنیا میں ہیں بلکہ سکتی ہے دنیا کو کے ساتھ رہے ہیں کے لیے اور ہم

پڑھیں:

خاموشی کا وقت ختم، بابر اعظم نے پیغام جاری کردیا

قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان بابر اعظم نے جنوبی افریقہ کے خلاف شاندار کارکردگی کے بعد سوشل میڈیا پر ایک جذباتی پیغام شیئر کیا ہے۔

بابر اعظم نے ایکس (سابق ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں لکھا کہ شکر گزار ہوں کہ میں دوبارہ وہی کر رہا ہوں جو مجھے پسند ہے، اُن سب کا شکریہ جنہوں نے خاموشی کے وقت میں مجھ پر یقین رکھا۔

Grateful to be back doing what I love ????????
Thankful for those who believed when it was quiet ???????? pic.twitter.com/OV8faTLMyS

— Babar Azam (@babarazam258) November 2, 2025

گزشتہ روز کھیلے گئے فیصلہ کن میچ میں بابر اعظم نے 47 گیندوں پر 68 رنز کی عمدہ اننگز کھیلی اور ٹیم کی کامیابی میں مرکزی کردار ادا کیا، شاندار کارکردگی پر انہیں پلیئر آف دی میچ قرار دیا گیا۔

یہ مئی 2024 کے بعد پہلا موقع تھا جب بابر اعظم نے بین الاقوامی میچ میں نصف سنچری اسکور کی، ان کی فارم میں واپسی پر مداحوں نے خوشی اور فخر کا اظہار کیا، جبکہ سوشل میڈیا پر ان کے حق میں تعریفی تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • وزیر داخلہ محسن نقوی کی چودھری شجاعت سے ملاقات
  • جماعت ِ اسلامی: تاریخ، تسلسل اور ’’بدل دو نظام‘‘ کا پیغام
  • کتاب "غدیر کا قرآنی تصور" کی تاریخی تقریبِ رونمائی
  • صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر وزیراعظم کا پیغام
  • خاموشی کا وقت ختم، بابر اعظم نے پیغام جاری کردیا
  • صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر  وزیراعظم کا پیغام
  • آئی سی سی اجلاس میں میدان کھلا نہیں چھوڑیں گے، محسن نقوی
  • اسلام آباد کے 2  میگا پراجیکٹس پر کام کی رفتار تیز 
  • محسن نقوی  کا ٹی چوک فلائی اوور ،شاہین چوک انڈر پاس منصوبوں کا دورہ  
  • ایٹمی ہتھیاروں سے لیس شرپسند ملک دنیا کے امن کیلئے خطرہ ہے، عباس عراقچی