روس اور چین کی قربتیں، کیا دنیا، مغرب کے بغیر آگے بڑھنے کو تیار ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 6th, September 2025 GMT
تیانجن میں ہونے والا شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کا اجلاس محض سفارتی سرگرمی نہیں تھا بلکہ علامتی طور پر ایک بڑے سیاسی پیغام کا حامل بھی تھا۔
یہ اجلاس چین کی جنگِ عظیم دوئم کی یادگار تقاریب کے تناظر میں منعقد ہوا جس نے اسے مزید وزن دیا۔
WATCH ???? Hot mic moment on CCTV in China today: Putin and Xi, both 72, were caught casually chatting about living to 150 years — or maybe forever — thanks to organ transplants pic.
— Insider Paper (@TheInsiderPaper) September 3, 2025
اس اجلاس کو گزشتہ برس کے BRICS سربراہی اجلاس کے مساوی اہمیت دی گئی۔
مغرب کی مرکزیت کا زوالطویل عرصے تک دنیا کے بڑے فیصلے مغرب کی موجودگی اور منظوری کے بغیر ممکن نہیں سمجھے جاتے تھے۔
جی-7 اور جی-20 جیسے فورمز کو عالمی وقار کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب یہ تاثر بدل رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:بیجنگ میں نیا عالمی نظام؟ پیوٹن اور شی کا مشترکہ وژن
BRICS اور SCO جیسے ادارے اب اپنی اہمیت خود بنا رہے ہیں اور نئے ممالک ان میں شمولیت کے خواہاں ہیں۔
روس کے لیے الگ تھلگ ہونے کی بجائے مرکزیتیوکرین تنازع کے بعد مغرب نے روس کو تنہا کرنے کی کوشش کی مگر اس کا نتیجہ الٹا نکلا۔
اب روس غیر مغربی دنیا کے لیے ایک مرکزی نقطہ بن چکا ہے۔ صدر ولادیمیر پیوٹن نے مشرقی اقتصادی فورم میں واضح کیا کہ روس کے دروازے مغرب پر بند نہیں مگر مستقبل کے تعلقات کا جھکاؤ چین، بھارت اور گلوبل ساؤتھ کی طرف ہے۔
مغرب کے خلاف نہیں، بلکہ اس کے بغیرماسکو میں اب یہ نعرہ حقیقت اختیار کر رہا ہے کہ نیا عالمی نظام مغرب کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتا ہے۔
چین اور روس مل کر ایسے ادارے بنا رہے ہیں جو عالمی مالیاتی ڈھانچوں (آئی ایم ایف، ورلڈ بینک) کے متبادل کے طور پر ابھر رہے ہیں۔
Russian President Vladimir Putin said Russia will reciprocate to China's visa-free travel policy to Russian citizens, allowing Chinese citizens to visit Russia visa free. Putin told a Chinese senior official during the ongoing Eastern Economic Forum in Vladivostok. And this will… pic.twitter.com/fwaSuknO1R
— Global Times (@globaltimesnews) September 5, 2025
ایس سی او ڈیولپمنٹ بینک اور BRICS نیو ڈیولپمنٹ بینک اسی سمت کی نشان دہی کرتے ہیں۔
امریکا کی دباؤ کی پالیسی اور ردعملٹرمپ انتظامیہ کی براہِ راست اور سخت پالیسی نے اتحادیوں کو وقتی طور پر مطیع کیا، لیکن آزاد ریاستوں نے اس دباؤ کو مسترد کیا۔
یہی وجہ ہے کہ کئی ممالک SCO اور BRICS میں شمولیت کو ترجیح دے رہے ہیں۔
یہ کسی ایک طاقت کے ساتھ غیر مشروط وابستگی نہیں بلکہ مغربی بالادستی کو مسترد کرنے کا اظہار ہے۔
چین کا ’عالمی حکمرانی کا اقدام‘ایس سی او اجلاس میں صدر شی جن پنگ نے ’گلوبل گورننس انیشییٹو‘ کا اعلان کیا جسے روس نے مکمل حمایت دی۔
یہ بھی پڑھیں:’تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی‘، دیمیتری ترینن کا تجزیہ
یہ مغرب مخالف سازش نہیں بلکہ ایک متوازن عالمی ڈھانچے کی جستجو ہے، جہاں فیصلہ سازی صرف چند مغربی دارالحکومتوں تک محدود نہ ہو۔
دنیا کا نیا منظرنامہیہ اب نیا سرد جنگی ڈھانچہ نہیں بلکہ ایک متنوع اور کثیر قطبی دنیا ہے۔ غیر مغربی ریاستیں اب اپنی ترجیحات خود طے کر رہی ہیں، اپنے ادارے قائم کر رہی ہیں اور بغیر مغرب کے مشترکہ اقدامات کر رہی ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا چین روس عالمی نظام مغربذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا چین عالمی نظام کے بغیر مغرب کے رہے ہیں
پڑھیں:
سید مودودیؒ: اسلامی فکر، سیاسی نظریہ اور پاکستان کا سیاسی شعور
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251101-03-3
ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی
عالم ِ اسلام کی فکری و سیاسی تاریخ میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کا نام ایک ایسے مفکر، مصلح اور مجاہد ِ قلم کے طور پر روشن ہے جس نے بیسویں صدی کی اسلامی تحریکات کو نہ صرف فکری سمت عطا کی بلکہ مسلمانانِ برصغیر کے سیاسی شعور کو ایک منظم نظریاتی بنیاد فراہم کی۔ مولانا مودودیؒ کے افکار صرف مذہبی تعلیمات تک محدود نہیں بلکہ وہ ایک جامع اسلامی نظامِ حیات، ریاست، معیشت، عدل، اور سیاست کے معمار کے طور پر سامنے آئے۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی فکری جدوجہد کا آغاز ایسے زمانے میں کیا جب برصغیر سیاسی غلامی، فکری انتشار اور تہذیبی زوال کا شکار تھا۔ 1920ء کی دہائی میں مغربی فلسفہ، قومیت، جمہوریت، لادینیت، اور سرمایہ داری کے نظریات مسلمانوں کے ذہن و فکر پر چھا رہے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب یورپ نے پہلی جنگ ِ عظیم کے بعد سیاسی سامراجیت اور فکری الحاد کے ذریعے دنیا پر اپنی فکری بالادستی قائم کر لی تھی۔ ایسے میں مولانا مودودیؒ نے قرآن و سنت کی روشنی میں ایک جامع فکری نظام پیش کیا، جس کی بنیاد اس اصول پر رکھی گئی کہ: ’’اسلام صرف عبادت یا مذہب نہیں، بلکہ ایک مکمل تہذیبی و سیاسی نظامِ زندگی ہے‘‘۔
مولانا مودودیؒ نے اسلامی ریاست کا تصور محض مذہبی حکومت کے طور پر نہیں بلکہ خلافت ِ الٰہیہ کے تصور کے ساتھ پیش کیا۔ ان کے نزدیک حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، اور ریاست کا کام محض اس حاکمیت کو زمین پر نافذ کرنا ہے۔ یہ تصور جدید جمہوریت سے مختلف ہے، کیونکہ جمہوریت میں اقتدار عوام کا ہوتا ہے، جب کہ مولانا کے نزدیک اقتدار شرعی اصولوں کے تابع ایک امانت ہے۔ ان کی کتاب ’’اسلامی ریاست‘‘ اور ’’خلافت و ملوکیت‘‘ میں یہ تصور انتہائی وضاحت سے بیان ہوا کہ اسلام میں اقتدار ذاتی مفاد نہیں بلکہ اجتماعی امانت ہے۔ یہی نظریہ بعد میں مصر، ترکی، ایران، سوڈان اور دیگر مسلم ممالک کی اسلامی تحریکوں کی فکری اساس بنا۔
قیامِ پاکستان سے قبل مولانا مودودیؒ نے مسلم لیگ کی سیاست پر تنقیدی نظر رکھی۔ ان کا خیال تھا کہ محض قومیت یا جغرافیہ کی بنیاد پر اسلام کی نشاۃِ ثانیہ ممکن نہیں۔ تاہم قیامِ پاکستان کے بعد انہوں نے اس نوخیز ریاست کو اسلامی خطوط پر استوار کرنے کے لیے بھرپور فکری و سیاسی جدوجہد کی۔ 1941ء میں قائم ہونے والی جماعت ِ اسلامی ان کے نظریاتی وژن کی عملی تعبیر تھی جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پہلا منظم نظریاتی سیاسی پلیٹ فارم ثابت ہوئی۔ 1953ء کی تحریک ِ ختم ِ نبوت اور 1974ء میں اس مسئلے کے آئینی حل تک جماعت ِ اسلامی اور مولانا مودودیؒ کے فکری اثرات نمایاں رہے۔ انہوں نے آئین سازی کے عمل میں بھی اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کا آئین اسلامی شریعت کے مطابق ہو، اور بالآخر 1973ء کے آئین میں قرآن و سنت کو بالادست قانون تسلیم کرنے کی دفعات اسی فکری دباؤ کا نتیجہ تھیں۔
آج کے دور میں جب عالمی سیاست نیولبرل ازم، سرمایہ داری، اور عسکری بالادستی کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے، مولانا مودودیؒ کے افکار ایک متبادل فکری ماڈل کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اسلام صرف مذہبی اخلاقیات کا نظام نہیں بلکہ عالمی عدل و امن کا ضامن سیاسی و معاشی نظام بھی ہے۔ مغربی دنیا کے کئی مفکرین مثلاً John Esposito, Wilfred Cantwell Smith اور Olivier Roy نے اپنے تجزیات میں اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ مودودیؒ کے پیش کردہ ’’اسلامک آئیڈیالوجی‘‘ نے بیسویں صدی کے سیاسی فلسفے میں اسلامی انقلابی شعور کی نئی لہر پیدا کی۔
آج جب پاکستان میں سیاست مصلحت، کرپشن، اور ذاتی مفاد کے گرد گھوم رہی ہے، مولانا مودودیؒ کے نظریات اصول پسندی، عدل، احتساب، اور اسلامی طرزِ حکمرانی کی یاد دلاتے ہیں۔ ان کے نزدیک سیاست کا مقصد اقتدار نہیں بلکہ اصلاحِ معاشرہ اور اقامت ِ دین ہے۔ یہی فلسفہ آج کے نوجوانوں، دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کے لیے راہِ عمل ہے۔ ان کی فکر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ عسکری طاقت پر انحصار کے بجائے فکری استحکام کو قوموں کی اصل قوت سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ علم، اخلاق، تنظیم اور کردار کو امت ِ مسلمہ کی ترقی کا بنیادی ستون قرار دیتے رہے۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اسلام کو محض مذہبی عقیدہ نہیں بلکہ زندگی کے ہمہ گیر نظام کے طور پر پیش کیا۔ ان کا فکری ماڈل آج بھی پاکستان اور امت ِ مسلمہ کے لیے رہنمائی کا سرچشمہ ہے بشرطیکہ ہم ان کے افکار کو محض کتابوں میں محفوظ رکھنے کے بجائے عملی سیاست، معیشت اور قانون سازی میں نافذ کریں۔ ’’اگر اسلام کو واقعی نظامِ حیات کے طور پر اپنایا جائے تو دنیا میں عدل، امن، مساوات اور انسانیت کا سنہری دور واپس آ سکتا ہے‘‘۔ مولانا مودودیؒ کا پیغام آج بھی زندہ ہے اور ہر اس ذہن کو جھنجھوڑتا ہے جو سمجھتا ہے کہ دین اور سیاست ایک دوسرے سے الگ ہیں۔