ارجنٹائن کی نیشنل سائنٹیفک اینڈ ٹیکنیکل ریسرچ کونسل کے ماہرین نے جنوبی ارجنٹائن کے علاقے پیٹاگونیا میں تقریباً 7 کروڑ سال پرانے ایک دیوقامت گوشت خور مگرمچھ کی باقیات دریافت کی ہیں۔

ماہرین کے مطابق یہ مگرمچھ ‘پیروساورس’ نامی معدوم خاندان سے تعلق رکھتا تھا جو کریٹیشیس دور میں جنوبی امریکا اور افریقہ میں پایا جاتا تھا۔ نئی نوع کو کوسٹنسوکس ایٹروکس کا نام دیا گیا ہے۔ دریافت میں اس کا زیادہ تر ڈھانچہ بشمول کھوپڑی اور جبڑے شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے: مگرمچھ سے بیوی کو کیسے بچایا؟ شوہر نے ساری تفصیل بیان کردی

ماہرین نے بتایا کہ اس نوع کی سب سے نمایاں خصوصیات بڑی کھوپڑی، مضبوط جبڑے اور بڑے دانت ہیں جو اسے ماحولیاتی نظام میں ایک طاقتور شکاری بناتے تھے۔ اس کے دانت 2 انچ سے زیادہ لمبے اور گوشت پھاڑنے کے لیے کناروں سے کٹے ہوئے تھے جبکہ طاقتور عضلات اس کے کاٹنے کو انتہائی شدید اور تیز رفتار بناتے تھے۔

یہ مگرمچھ نمی والے گھنے علاقوں میں رہتا تھا۔ اس کا جسم مضبوط اور ٹانگیں چھوٹی لیکن سیدھی کھڑی ہوتی تھیں جس سے یہ جدید مگرمچھوں اور کیمنز کے مقابلے میں زیادہ پھرتیلا تھا۔ بڑی کھوپڑی اور مضبوط جبڑوں کی وجہ سے اسے ‘مگرمچھوں کا بل ڈاگ’ بھی کہا جا رہا ہے۔

تحقیق میں ماہرین نے یہ امکان ظاہر کیا ہے کہ یہ مگرمچھ اُس دور کے ایک بڑے گوشت خور ڈائنوسار مائیپ میکروتھوریکس کے ساتھ شکار کے لیے مقابلہ کرتا ہوگا جس طرح آج کل افریقہ میں شیر اور لگڑ بگڑ کے درمیان ہوتا ہے۔

یہ دریافت پیٹاگونیا میں معدوم جانداروں کی تنوع پر روشنی ڈالتی ہے اور پیروساورس خاندان کی اب تک کی سب سے جنوبی دریافت ہے۔ اس منصوبے میں ارجنٹائن، برازیل اور جاپان کے محققین نے حصہ لیا جسے نیشنل جیوگرافک اور برازیلی تحقیقی اداروں نے معاونت فراہم کی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈائنوسار سائنس فوسل مگرمچھ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ڈائنوسار فوسل مگرمچھ

پڑھیں:

پاک افغان جنگ بندی میں توسیع، طالبان کا خلوص ایک ہفتے میں واضح ہوجائے گا، ماہرین

25 سے 30 اکتوبر پاکستان اور افغان عبوری حکومت کے مابین استنبول میں ہونے والے مذاکرات کی ناکامی کے حوالے سے مایوس کُن خبریں بین الاقوامی میڈیا کی شہ سرخیاں بنتی رہیں اور ان کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا رہا اور دونوں ممالک کے درمیان ایک جنگی ماحول بنا دیا گیا جبکہ غلط معلومات کا ایک سیلاب عام لوگوں کے ذہنوں میں کافی خدشات پیدا کرتا رہا۔

تاہم گزشتہ روز جنگ بندی معاہدے میں توسیع اور 6 نومبر کو مذاکرات کے اگلے دور کا اعلان کیا گیا جس سے افواہوں کا شور کسی قدر تھم گیا۔ ترکیہ کی طرف سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے’ تمام فریقین ایک نگرانی اور ویری فکیشن نظام قائم کرنے پر متفق ہو گئے ہیں، جو جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے والے فریق کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائے گا۔‘ یقیناً اسے مذاکرات کی کامیابی کی دلیل مانا جا سکتا ہے۔

6 نومبر  کو استنبول میں اعلیٰ سطحی مذاکرات شیڈول ہیں، جو ترکیہ اور قطر کی ثالثی میں ہوں گے۔ یہ حالیہ استنبول مذاکرات کا فالو اپ ہے، جہاں 30 اکتوبر کو فائر بندی کو برقرار رکھنے پر اتفاق ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیے پاکستان میں دہشتگردی کے پیچھے طالبان حکومت کے حمایت یافتہ افغان باشندے ملوث ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ

12/11 اکتوبر سرحدی جھڑپوں، افغان سائیڈ سے دراندازی کی کوششوں اور پاکستانی فضائی حملوں کی وجہ سے کشیدگی عروج پر پہنچی۔ اس کے بعد دوحہ اور استنبول مذاکرات میں پاکستان نے افغان طالبان رجیم سے مطالبہ کیا کہ وہ سرحد پار سے ٹی ٹی پی دہشتگردوں کے حملے روکیں، ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی پاکستان میں دراندازی اور دونوں ملکوں کے درمیان سرحد کو محفوظ بنایا جائے۔

پاکستان نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ افغان طالبان رجیم ٹی ٹی پی کی پشت پناہی ترک کر دے۔ استنبول مذاکرات میں پاکستان کے جانب سے ثالثوں کی موجودگی میں پاکستان نے افغانستان کی جانب سے دراندازی کے ثبوت بھی دِکھائے لیکن افغانستان کی ہٹ دھرمی کے باعث دراندازی کی مانیٹرنگ کے حوالے سے مجوّزہ میکنزم طے نہیں ہو پایا۔

واشنگٹن میں امریکی تِھنک ٹینک وِلسن سینٹر سے وابستہ جنوبی ایشیائی اُمور کے ماہر مائیکل کوگلمین کہتے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی کوئی حیران کُن خبر نہیں لیکن اِس کی کوئی ایک وجہ بیان نہیں کی جا سکتی۔ طالبان کے نقطہ نظر سے ٹی ٹی پی کے خلاف اقدامات مُشکل ہیں لیکن یہ چیز پاکستان کو مزید فضائی حملے کرنے کا جواز فراہم کر سکتی ہے۔

دوسری طرف پاکستان کے ساتھ کشیدگی اور فضائی حملے افغان طالبان کو افغان عوام میں مزید طاقت مہیّا کر سکتے ہیں۔ اگر پاکستان نے طالبان مخالف دھڑوں کی حمایت شروع کر دی تو طالبان کے لیے اقتدار میں رہنا مُشکل ہو جائے گا۔

مانیٹرنگ میکنزم بن گیا تو خلاف ورزی پر جُرمانہ عائد کیا جائے گا، بریگیڈئر حارث نواز

دفاعی تجزیہ نگار بریگیڈئر حارث نواز نے وی نیوز سے خصوص گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال عارضی طور پر جنگ بندی ہو چُکی ہے اور 6 نومبر تک جو 7 دن ہیں اُن میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ افغان طالبان رجیم قیامِ امن کے لیے کتنی سنجیدہ ہے۔ اگر اِن 6، 7 دِنوں میں ٹی ٹی پی کے دہشتگرد سرحد پار کر کے پاکستان نہیں آتے اور یہاں پر دہشتگرد کارروائیاں نہیں کرتے تو پھر 6 نومبر کو مذاکرات کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پاک افغان مذاکرات میں مثبت پیشرفت، فریقین کا جنگ بندی پر اتفاق،آئندہ اجلاس 6 نومبر کو ہوگا

افغانستان کو یہ یقین دہانی کرنی ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو جس کے لیے ترکیے اور قطر کی ثالثی میں میکنزم طے کیا جا رہا ہے جس میں ماہانہ یا سہ ماہی بنیادوں پر ہونے والی میٹنگز میں اگر سرحد پار دہشتگردی ہوتی ہے تو اُس کی رپورٹس شیئر کی جائیں گی۔

اگر افغان طالبان رجیم یہ سرحد پار دہشتگردی روکنے میں بار بار ناکام ہوتا ہے تو پھر پاکستان کو حق ہے کہ وہ فضائی حملے کر سکے یا ڈرون حملوں کے ذریعے سے دہشتگردوں کے تربیتی مراکز کو نشانہ بنا سکے۔ پاکستان میں حالیہ دہشتگرد حملے جیسا کہ گزشتہ روز کُرّم میں 6 پاک فوج اہلکاروں کی شہادت اور آج لکی مروت میں حملہ کے بارے میں بریگیڈئر حارث نواز نے کہا کہ یہ اُن دہشتگردوں کی کارروائی ہو سکتی ہے جو پہلے سے سرحد پار کر کے کُرّم اور شمالی وزیرستان آ چُکے ہیں۔

پاکستان اِن دہشتگردوں کو 2 سے 3 مہینے کی کارروائیوں میں ختم کر دے گا لیکن اصل چیز یہ ہے کہ مزید دہشتگرد پاکستان نہ آئیں۔ ثالثوں کی موجودگی میں جو بھی میکنزم طے ہو گا اُس کے مطابق سرحد پار دہشتگردی کے حوالے سے جُرمانے عائد کئے جائیں گے جو ادا کرنا ہوں گے۔

موجودہ معاہدہ بالکل دوحہ معاہدے جیسا ہے، طاہر خان

افغان اُمور کے حوالے سے معروف صحافی اور تجزیہ نگار طاہر خان نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ معاہدہ بالکل دوحہ معاہدے جیسا ہے جس میں جنگ بندی پر اِتّفاق کیا گیا ہے اور اگلے مذاکرات کی تاریخ دی گئی ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ مذاکرات میں تعطّل نہیں آیا جو میری نظر میں ایک اچھا اقدام ہے گو کہ سیز فائر ایک مبہم سی اصطلاح ہے۔

طاہر خان نے کہا کہ جِس طریقے سے ماحول بنایا گیا تھا اور کُچھ عناصر دونوں مُلکوں کے درمیان جنگ بندی کے عمل کو سبوتاژ کرنے پر تیار نظر آتے تھے۔ جس طرح پاکستانی وزیروں اور کچھ میڈیا نے دھمکیاں دیں اور ویسی ہی دھمکیاں افغانستان کی طرف سے بھی آئیں۔ میڈیا کے بعض حِصّے یہ کہتے پائے گئے کہ بس پاکستانی جنگی طیارے افغانستان پر حملے کے لیے تیار کھڑے ہیں اور دوسری طرف سے کہا گیا کہ جی! افغانستان سے ٹینک بھی تیار ہیں۔ ایک جنگ جیسے ماحول میں یہ جنگ بندی معاہدہ درست قدم ہے۔

یہ بھی پڑھیں:افغان سرزمین سے دہشتگرد حملوں کی اجازت نہیں دیں گے، فیلڈ مارشل عاصم منیر

ٹی ٹی پی کے حالیہ حملوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے طاہر خان نے کہا کہ ٹی ٹی پی آج کا مسئلہ تو نہیں یہ برسوں پُرانا مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ رہے گا کیونکہ ٹی ٹی پی تو مذاکرات کا حصّہ نہیں تھی۔ پاکستان کا بُنیادی مطالبہ تو ٹی ٹی پی کے حوالے سے ہی ہے۔ مذاکرات جاری رہے تو کچھ نہ کچھ تو میکنزم طے ہو گا۔ اور یہ جنگ بندی معاہدہ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کچھ نہ کچھ بات تو طے ہوئی ہے۔

اصل معاملہ یہ ہے کہ میکنزم طے ہو جائے تو اُس پر عمل درآمد کیسے کیا جائے؟ جیسا کہ فروری 2020 دوحہ معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ افغان طالبان اپنی سرزمین القاعدہ کاروائیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے لیکن 31 جولائی 2022 کو القاعدہ لیڈر ایمن الظواہری حملے میں مارا گیا تو اِس سے ثابت ہوا کہ افغان سرزمین القاعدہ دہشتگردوں کو پناہ دئیے ہوئے تھی۔ تو یہ کہنا کہ تحریری معاہدے کے بعد دہشتگردی رُک جائے گی، ایسا بظاہر مُشکل نظر آتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پاک افغان معاہدہ ٹی ٹی پی طالبان

متعلقہ مضامین

  • اجنبی مہمان A11pl3Z اور 2025 PN7
  • پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور
  • ماہرین نے فضائی آلودگی اور اسموگ میں کمی کا حل بتا دیا
  •  اہوریوں کو غیر معیاری گوشت فروخت کرنے والوں کیخلاف شکنجہ سخت 
  • شادی میں دلہن کے والد کا نیا انداز، جیب پر کیو آر کوڈ چسپاں کرکے ‘آن لائن سلامی’ وصول کی
  • پرانا سکھر میرانہ محلہ کے مکین ترقیاتی کام نہ کرانے کے خلاف احتجاج کررہے ہیں
  • نایاب وولف اسپائیڈر 40 سال بعد دوبارہ برطانیہ میں دریافت
  • پاک افغان جنگ بندی میں توسیع، طالبان کا خلوص ایک ہفتے میں واضح ہوجائے گا، ماہرین
  • ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں پہلی بار کھانے کے وقفے سے پہلے ‘چائے کا وقفہ’ کرنے کا فیصلہ
  • عام زکام یا فلو بھی ہارٹ اٹیک کے خطرے میں اضافہ کر سکتے ہیں، طبی تحقیق