انقلابِ قرض سے آزادی: خودمختاری کے نئے باب کی جانب
اشاعت کی تاریخ: 7th, September 2025 GMT
انقلابِ قرض سے آزادی: خودمختاری کے نئے باب کی جانب WhatsAppFacebookTwitter 0 7 September, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد عارف، قائد تحریکِ انقلابِ پاکستان
پاکستان کی تاریخ اگر کھولی جائے تو سب سے نمایاں باب قرض کا ہے۔ آزادی کے بعد سے ہم نے ترقی اور سہولتوں کے خواب دیکھے لیکن ان خوابوں کو پورا کرنے کے لیے قرض لیا۔ ابتدا میں یہ سوچا گیا کہ یہ قرض ترقی کا ذریعہ بنے گا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ قرض کی زنجیریں مضبوط ہوتی گئیں اور آج پاکستان اپنے سب سے بڑے بحران کے دہانے پر کھڑا ہے۔
ہر آنے والی حکومت نے قوم کو قرض کے بوجھ میں مزید دھکیل دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں خودمختاری کھو بیٹھا۔ عالمی اداروں اور قرض دینے والے ممالک نے ہماری معیشت کے ساتھ ساتھ ہمارے فیصلوں پر بھی اثر انداز ہونا شروع کر دیا۔
2006 میں پاکستان کا بیرونی قرض 30 ارب ڈالر تھا، جو صرف پانچ سال میں بڑھ کر 58 ارب ڈالر ہو گیا۔ 2017 میں یہ 107 ارب ڈالر سے اوپر جا پہنچا، جو ہمارے جی ڈی پی کا تقریباً 67 فیصد تھا۔ پھر سی پیک کے تحت چین سے بڑے پیمانے پر قرض لیے گئے۔ 2020 تک صرف چین کا قرض ہی 30 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ 2021-22 میں قرض 115 ارب ڈالر سے زیادہ ہوا اور دسمبر 2023 میں یہ 131 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ آج عوامی قرضہ 71 ہزار ارب روپے سے اوپر ہے اور بیرونی قرض تقریباً 98 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ یہ اعداد محض اعداد نہیں بلکہ ہماری آزادی پر سوالیہ نشان ہیں۔
“قرض نے پاکستان کی آزادی کو محدود کیا ہے، اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ان زنجیروں کو توڑیں اور اپنی خارجہ پالیسی کو آزاد کریں۔”
لیکن سوال یہ ہے کہ ہم یہ انقلاب کیسے برپا کریں؟ تحریکِ انقلابِ پاکستان کا جواب صاف اور دوٹوک ہے: یہ انقلاب خونی نہیں ہوگا۔ یہ انقلاب پرامن ہوگا، الزام تراشی کے بغیر ہوگا، اور صرف ذمہ داری کے احساس پر کھڑا ہوگا۔ ہمارا مقصد کسی کو ماضی کا ذمہ دار ٹھہرانا نہیں بلکہ مستقبل کو اپنے ہاتھوں میں لینا ہے۔
یہ سفر ہم اوورسیز پاکستانیوں کے تعاون سے طے کریں گے۔ وہ لاکھوں پاکستانی جو اپنی محنت اور پسینے کی کمائی سے دنیا بھر میں نام کماتے ہیں، ہمیشہ اپنے وطن کے ساتھ کھڑے رہے ہیں۔ سیلاب ہو، زلزلہ ہو یا کوئی معاشی بحران—اوورسیز پاکستانیوں نے اپنے وطن کے لیے قربانی دی ہے۔ آج وقت آ گیا ہے کہ اسی جذبے کو ایک منظم مقصد کے لیے استعمال کیا جائے۔
“اوورسیز پاکستانی قرض کے بوجھ کو ختم کرنے کے سب سے بڑے محرک ہیں۔ یہی وہ طاقت ہے جو انقلاب کو کامیاب بنائے گی۔”
جب قرض ختم ہوگا تو پاکستان اپنی خارجہ پالیسی آزادانہ طور پر تشکیل دے گا۔ ہم اپنے فیصلے خود کریں گے، اپنے دوست خود چنیں گے، اور اپنی پالیسی صرف اور صرف عوامی مفاد میں بنائیں گے۔ نہ کوئی بیرونی دباؤ ہوگا اور نہ کوئی مجبوری۔ یہی وہ لمحہ ہوگا جب پاکستان دنیا میں ایک باوقار اور خودمختار ریاست کے طور پر ابھرے گا۔
یہ تحریک الزام نہیں بلکہ ذمہ داری کا پیغام ہے۔ ہم ماضی کی غلطیوں پر بحث نہیں کریں گے بلکہ مستقبل کو درست کریں گے۔ یہ قوم اپنی قربانیوں سے جلد وہ دن دیکھے گی جب پاکستان سر بلند ہوگا اور دنیا میں فخر سے کہہ سکے گا کہ ہم آزاد ہیں۔
یہی اصل انقلاب ہے—ایسا انقلاب جو خون کے بغیر ہوگا، ایسا انقلاب جو الزام کے بغیر ہوگا، اور ایسا انقلاب جو پاکستان کو قرض کی زنجیروں سے آزاد کر کے خودمختاری کے نئے باب کی طرف لے جائے گا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرتل ابیب میں ہزاروں اسرائیلیوں کا مظاہرہ، صدر ٹرمپ سے غزہ جنگ ختم کرنے کا مطالبہ یوم دفاع حجاب: پاکستان کی روایت، ترکیہ کا سفر قدرتی آزمائشیں اور رسولِ اکرم ﷺ کی تعلیمات ایس سی او تھیانجن سمٹ 2025 حضرت محمد ﷺ: تمام انسانیت کے لیے چراغِ ہدایت انقلاب اور پاکستانCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
جب آپ رنز بناتے ہیں تو جیت کا یقین ہوتا ہے، بابر اعظم اور سلمان علی آغا کی دلچسپ گفتگو
پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان تیسرے ٹی20 میچ میں شاندار فتح کے بعد قومی ٹیم کے کپتان سلمان علی آغا اور اسٹار بیٹر بابر اعظم کے درمیان پی سی بی ڈیجیٹل پر ایک دلچسپ اور خوشگوار گفتگو ہوئی۔ دونوں کھلاڑیوں نے نہ صرف اپنی کارکردگی پر روشنی ڈالی بلکہ میچ کے یادگار لمحات کو مزاحیہ انداز میں بیان کیا۔
سلمان علی آغا نے گفتگو کے آغاز میں بابر اعظم کی شاندار اننگز کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ‘جب بابر رنز بناتے ہیں تو ٹیم کے ساتھ پورا پاکستان خوش ہوتا ہے، اور سب کو یقین ہوتا ہے کہ اب پاکستان جیت سکتا ہے۔’
یہ بھی پڑھیے: پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ: بابر اعظم نے ویرات کوہلی کا کونسا ریکارڈ توڑ ڈالا؟
سلمان نے مسکراتے ہوئے بابر سے پوچھا، ‘بیٹنگ کے دوران آپ نے مجھے اتنا بھگایا کیوں؟’ بابر نے قہقہہ لگاتے ہوئے جواب دیا، ‘آپ ہی نے تو زیادہ ڈبل رنز لیے، آخر آپ کپتان ہیں۔’
گفتگو کے دوران بابر اعظم نے اپنی بیٹنگ حکمتِ عملی کے بارے میں بتایا کہ اسپنرز کے خلاف انہیں کچھ مشکلات پیش آئیں، تاہم انہوں نے سلمان کے ساتھ یہ طے کیا کہ جیسے ہی کوئی گیند رینج میں آئے گی، اس پر چانس لیا جائے گا۔ یہ سنتے ہی سلمان نے مسکراتے ہوئے پوچھا، ‘تو پھر آیا رینج میں؟’ جس پر دونوں کھلاڑی ہنس پڑے۔
یہ بھی پڑھیے: تیسرا ٹی 20 : پاکستان نے جنوبی افریقہ کو شکست دے کر سیریز اپنے نام کرلی
بابر نے مزید کہا کہ انہوں نے اپنے شاٹس پر اعتماد رکھا، خود کو بیک کیا اور اللّٰہ کے فضل سے ٹیم کو کامیابی ملی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے اپنی ٹریننگ اور فوکس پر محنت کر رہے ہیں اور ہمیشہ مثبت رہنے کی کوشش کرتے ہیں، اگرچہ بعض اوقات سب کچھ درست لگ رہا ہوتا ہے مگر حالات قابو میں نہیں ہوتے۔
اختتامی لمحات میں سلمان علی آغا نے بابر اعظم کے عزم اور محنت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ‘جب بابر فارم میں نہیں ہوتے تو تھوڑے پریشان نظر آتے ہیں، لیکن ان کی محنت، نظم و ضبط اور مستقل مزاجی انہیں ایک عظیم کھلاڑی بناتی ہے۔’
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں