لندن میں فلسطین کے حق میں احتجاج، غزہ میں اسرائیلی حملے جاری
اشاعت کی تاریخ: 7th, September 2025 GMT
لندن (نیوز ڈیسک) فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے ہزاروں افراد نے لندن کی سڑکوں پر مارچ کیا اور پارلیمنٹ اسکوائر تک ریلی نکالی۔
مظاہرین نے اسرائیل مخالف نعرے لگائے اور برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی فروخت روکی جائے اور غزہ میں فوری جنگ بندی کرائی جائے۔ اس دوران پولیس نے فلسطین ایکشن تنظیم کے کارکنوں سمیت کئی مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔ یاد رہے کہ برطانیہ نے دو ماہ قبل اسی تنظیم پر انسداد دہشت گردی قانون کے تحت پابندی عائد کی تھی۔
ادھر غزہ میں اسرائیلی بمباری کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ آج صبح سے اب تک مزید 20 سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جبکہ بھوک اور قحط کے باعث گزشتہ 24 گھنٹوں میں مزید 6 افراد دم توڑ گئے۔
بین الاقوامی ادارہ *سیو دی چلڈرن* کے مطابق گزشتہ 23 ماہ میں اوسطاً ہر گھنٹے ایک فلسطینی بچہ اسرائیلی حملوں کا نشانہ بنا۔ غزہ حکام کے مطابق اکتوبر 2023 سے اب تک کم از کم 20 ہزار بچے جاں بحق ہوچکے ہیں، جن میں ایک ہزار ایسے بچے بھی شامل ہیں جن کی عمر ایک سال سے کم تھی۔
یونیسف نے عالمی برادری سے فوری اقدامات کی اپیل کی ہے تاکہ غزہ میں تباہی اور بچوں کے قتل عام کو روکا جا سکے۔ ادارے کے مطابق اسرائیل کی جانب سے خان یونس کے قریب المواسی کیمپ میں جبری بے دخلی کے منصوبے سے تقریباً 10 لاکھ افراد متاثر ہو سکتے ہیں، جن میں نصف بچے شامل ہیں۔
Post Views: 5.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو کیوں لیک کی؟ اسرائیل نے فوجی افسر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا
اسرائیلی فوج کی چیف لیگل افسر میجر جنرل یفات تومر یروشلمی نے اس وقت استعفیٰ دے دیا جب ان کے خلاف ایک ویڈیو لیک کی تحقیقات شروع ہوئیں جس میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی پر بدترین تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
تومر یروشلمی نے اپنے استعفے میں کہا کہ انہوں نے اگست 2024 میں اس ویڈیو کے افشا کی اجازت دی تھی۔ اس ویڈیو سے متعلق تحقیقات کے نتیجے میں 5 فوجیوں پر مجرمانہ الزامات عائد کیے گئے، جس پر ملک بھر میں شدید ردِعمل دیکھنے میں آیا۔ دائیں بازو کے سیاست دانوں نے تحقیقات کی مذمت کی اور مظاہرین نے دو فوجی اڈوں پر دھاوا بول دیا۔
یہ بھی پڑھیے: اسرائیل نے 30 فلسطینی قیدیوں کی لاشیں واپس کردیں، بعض پر تشدد کے واضح آثار
واقعے کے ایک ہفتے بعد، ایک سیکیورٹی کیمرے کی ویڈیو اسرائیلی چینل این12 نیوز پر لیک ہوئی جس میں فوجیوں کو ایک قیدی کو الگ لے جا کر اس کے اردگرد جمع ہوتے دکھایا گیا، جبکہ وہ ایک کتے کو قابو میں رکھے ہوئے اور اپنی ڈھالوں سے منظر کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔
وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے بدھ کو تصدیق کی کہ ویڈیو لیک سے متعلق فوجداری تحقیقات جاری ہیں اور تومر یروشلمی کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔
تومر یروشلمی نے اپنے دفاع میں کہا کہ انہوں نے یہ اقدام فوج کے قانونی محکمے کے خلاف پھیلنے والے پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا، جو قانون کی بالادستی کے تحفظ کی ذمہ داری ادا کر رہا تھا مگر جنگ کے دوران شدید تنقید کی زد میں تھا۔
یہ بھی پڑھیے: امریکا میں فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاج کرنے والی خاتون پر پولیس کا تشدد
ویڈیو سدے تیمن حراستی کیمپ کی تھی، جہاں 7 اکتوبر 2023 کے حملے میں شریک حماس کے جنگجوؤں سمیت بعد میں گرفتار کیے گئے فلسطینی قیدی رکھے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس دوران فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی سنگین رپورٹس دی ہیں۔
ان کے استعفے پر سیاسی ردِعمل فوری آیا۔ وزیر دفاع کاٹز نے کہا کہ جو لوگ اسرائیلی فوجیوں کے خلاف جھوٹے الزامات گھڑتے ہیں وہ وردی کے اہل نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل تشدد غزہ فلسطین قیدی