فائیوجی اسپیکٹرم کی نیلامی میں تاخیر، پاکستان کے 4.3 ارب ڈالر کی آمدنی سے محروم ہونے کا خدشہ
اشاعت کی تاریخ: 8th, September 2025 GMT
اسلام آباد:
ٹیلی کام آپریٹرز کی جانب سے فائیو جی اسپیکٹرم کی قیمتوں اور نیلامی میں تاخیر پر تحفظات کے باوجود حکومت کو اب تک ایسا کوئی قابلِ عمل متبادل منصوبہ پیش نہیں کیا گیا جس کے ذریعے ملک میں اسپیکٹرم کی دستیابی ممکن بنائی جاسکے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق یہ بات پیر کو وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کی سربراہی میں منعقدہ اسپیکٹرم آکشن کمیٹی کے اجلاس میں سامنے آئی۔ ٹیلی کام انڈسٹری کی نمائندگی ٹیلی کام آپریٹرز ایسوسی ایشن (ٹی او اے) کے چیئرمین اور سی ای او جاز عامر ابراہیم نے کی جبکہ دیگر کمپنیوں کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔
اس موقع پر جی ایس ایم اے کے ایشیا پیسفک کے سربراہ جولیان گورمن نے پاکستان کی اسپیکٹرم پالیسی میں موجود خامیوں کی نشاندہی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسپیکٹرم کے بلند ریزرو پرائس اور ریگولیٹری رکاوٹیں اس عمل میں پیش رفت کو متاثر کر رہی ہیں۔
وفاقی وزرا شزہ فاطمہ خواجہ اور سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے اس عزم کو دہرایا کہ حکومت ایک ڈیجیٹلی مربوط پاکستان کے لیے پُرعزم ہے، جہاں سستا، معیاری اور سب کے لیے قابلِ رسائی انٹرنیٹ فراہم کیا جاسکے۔
حکومتی نمائندوں نے بتایا کہ کچھ قانونی مسائل حل کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ اسپیکٹرم بھی دستیاب ہوسکے جو عدالتی مقدمات میں پھنسا ہوا ہے۔
وزیر آئی ٹی و ٹیلی کام نے کہا کہ اسپیکٹرم نیلامی پی ٹی سی ایل اور ٹیلی نار پاکستان کے انضمام میں تاخیر کی وجہ سے رکی ہوئی ہے، دلچسپ امر یہ ہے کہ انضمام میں تاخیر کے باوجود ٹیلی کام آپریٹرز نے حکومت کو اسپیکٹرم کی فوری فراہمی کے لیے کوئی واضح پلان ’بی‘ پیش نہیں کیا۔
دوسری جانب اجلاس کے بعد جاز کے نمائندوں نے میڈیا کو بتایا کہ وہ حکومت کو بارہا زبانی طور پر یہ تجویز دے چکے ہیں کہ سعودی عرب، ویتنام اور انڈونیشیا کے ماڈلز کو اپنایا جائے جہاں اسپیکٹرم کی قیمت گزشتہ نیلامی کے محض 10 فیصد کے قریب رکھی جاتی ہے۔
مزید کہا گیا کہ بھارت میں حکومت نے عدالتی تنازعات حل کر کے اسپیکٹرم کے مسائل حل کیے اور پاکستان کو بھی یہی ماڈل اپنانا چاہیے۔
اس موقع پر جی ایس ایم اے کی رپورٹ بلڈنگ ڈیجیٹل پاکستان تھرو ایفیکٹیو اسپیکٹرم پالیسی بھی کمیٹی کو پیش کی گئی۔ رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ اگر اسپیکٹرم کی فراہمی میں مزید تاخیر ہوئی تو پاکستان آئندہ پانچ سال میں 4.
رپورٹ کے مطابق اسپیکٹرم کی کمی کی وجہ سے موبائل سروسز نہ صرف کم پیداواری ہو جاتی ہیں بلکہ صارفین کے لیے مہنگی بھی پڑتی ہیں۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان میں اسپیکٹرم کی لاگت پہلے ہی آپریٹرز کی آمدنی کا 20 فیصد ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ شرحوں میں شمار ہوتی ہے۔
جی ایس ایم اے نے تجویز دی کہ پاکستان کو ایک متوازن حکمتِ عملی اختیار کرنا ہوگی جس میں قانونی، ریگولیٹری اور مالیاتی رکاوٹوں کو ختم کرنا اور ایک واضح روڈ میپ فراہم کرنا شامل ہو تاکہ آپریٹرز غیر یقینی صورتحال سے نکل سکیں۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ اگر اصلاحات نہ کی گئیں تو پاکستان کی موبائل انڈسٹری کے لیے کوریج بڑھانا اور عوام کو سستی اور تیز رفتار انٹرنیٹ فراہم کرنا مشکل ہو جائے گا جس سے ڈیجیٹل پاکستان کا ایجنڈا سست روی کا شکار ہوسکتا ہے۔
ٹیلی کام انڈسٹری اور جی ایس ایم اے کے شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایک مؤثر اسپیکٹرم پالیسی ہی پاکستان کی ڈیجیٹل تبدیلی کو تیز کرنے کا واحد راستہ ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جی ایس ایم اے اسپیکٹرم کی میں تاخیر ٹیلی کام کیا گیا کے لیے گیا کہ
پڑھیں:
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹیلی کام کمپنیوں کی کمپٹیشن کمیشن کے خلاف درخواستیں مسترد کردیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: ہائی کورٹ نے ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف دائر درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ کمیشن کو معیشت کے تمام شعبوں میں انکوائری اور کارروائی کا مکمل اختیار حاصل ہے۔
عدالت کے فیصلے نے ٹیلی کام انڈسٹری کے اس طویل مقدمے کا اختتام کر دیا جو گزشتہ ایک دہائی سے زیرِ سماعت تھا۔
تفصیلات کے مطابق جاز، ٹیلی نار، زونگ، یوفون، وارد، پی ٹی سی ایل اور وائی ٹرائب سمیت 7 بڑی کمپنیوں نے کمپٹیشن کمیشن کے اختیارات کو چیلنج کرتے ہوئے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ کمپنیوں کا مؤقف تھا کہ ٹیلی کام سیکٹر پہلے ہی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کے ضابطوں کے تحت کام کرتا ہے، اس لیے کمپٹیشن کمیشن کو مداخلت کا اختیار حاصل نہیں۔
عدالت نے واضح فیصلے میں کہا کہ کمپٹیشن کمیشن کا دائرہ کار معیشت کے تمام شعبوں پر محیط ہے، بشمول ٹیلی کام سیکٹر کے۔ عدالت نے کہا کہ کسی بھی ریگولیٹری ادارے کی موجودگی کمیشن کے اختیارات کو محدود نہیں کرتی، بلکہ قانون کے مطابق کمیشن کو مارکیٹ میں شفاف مقابلے، منصفانہ پالیسیوں اور صارفین کے مفادات کے تحفظ کے لیے کارروائی کا مکمل حق حاصل ہے۔
یہ مقدمہ اس وقت شروع ہوا تھا جب کمپٹیشن کمیشن نے مختلف ٹیلی کام کمپنیوں کو گمراہ کن مارکیٹنگ کے الزام میں شوکاز نوٹسز جاری کیے تھے۔ ان نوٹسز میں کمپنیوں سے وضاحت طلب کی گئی تھی کہ وہ ’’ان لِمٹڈ انٹرنیٹ‘‘ جیسے دعووں کے باوجود صارفین کو محدود سروس فراہم کیوں کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ پری پیڈ کارڈز پر ’’سروس مینٹیننس فیس‘‘ کے اضافی چارجز کو بھی غیر منصفانہ قرار دیا گیا تھا۔
ٹیلی کام کمپنیوں نے 2014ء میں ان شوکاز نوٹسز پر اسٹے آرڈر حاصل کر رکھا تھا، جس کے باعث کئی سال تک کمیشن کی کارروائی معطل رہی، تاہم اب عدالت نے یہ واضح کرتے ہوئے کہ کمپٹیشن کمیشن کو تمام اقتصادی شعبوں میں انکوائری کا اختیار حاصل ہے، ساتوں منسلک درخواستیں ناقابلِ سماعت قرار دے کر خارج کر دی ہیں۔