وائٹ ہاؤس کا قطری حکام کو اسرائیلی حملے کی پیشگی اطلاع دینے کا دعویٰ، قطر کی تردید
اشاعت کی تاریخ: 10th, September 2025 GMT
واشنگٹن: وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ امریکی حکومت نے دوحہ میں ہونے والے اسرائیلی حملے کے بارے میں قطری حکام کو پیشگی اطلاع دے دی تھی، تاہم قطر نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔
حماس کے دفتر پر اسرائیلی فضائی حملے کے حوالے سے وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ آج صبح امریکی فوج نے ٹرمپ انتظامیہ کو اطلاع دی کہ اسرائیل نے حماس کو نشانہ بنایا ہے، اور بدقسمتی سے یہ ہدف قطر کے دارالحکومت دوحہ کے ایک علاقے میں موجود تھا۔
ترجمان کے مطابق قطر جیسے خودمختار ملک اور امریکا کے قریبی اتحادی کی سرزمین پر یکطرفہ بمباری نہ تو اسرائیل کے مقاصد پورے کرتی ہے اور نہ ہی امریکا کے، تاہم حماس کا خاتمہ ایک اہم ہدف ہے۔ صدر ٹرمپ نے اپنے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کو ہدایت دی کہ وہ فوری طور پر قطری حکام کو ممکنہ حملے سے آگاہ کریں، اور اسٹیو وٹکوف نے یہ اطلاع قطر کو فراہم کردی۔
بیان میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ نے قطر کو امریکا کا مضبوط اتحادی اور دوست قرار دیتے ہوئے اس حملے پر افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں تمام مغویوں کی رہائی اور ہلاک شدگان کی لاشوں کی حوالگی فوری ہونی چاہیے اور یہ جنگ اب ختم ہونی چاہیے۔
مزید کہا گیا کہ صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے بھی رابطہ کیا۔ نیتن یاہو نے انہیں یقین دلایا کہ وہ جلد از جلد امن چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا ماننا ہے کہ یہ واقعہ امن کی راہ ہموار کرنے کا موقع بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
جنگ بندی کے باوجود غزہ میں حملے، ٹرمپ کہاں ہے؟ مولانا فضل الرحمن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے پر اظہارِ تاسف کیا کہ وہ غزہ میں جنگ بندی کروا چکے ہیں اور سوال کیا ہے کہ اب ٹرمپ کہاں ہے؟
مولانا فضل الرحمن نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وہ ٹرمپ یا اس کے کسی فارمولے کو قبول نہیں کرتے، بظاہر جنگ بندی کے باوجود غزہ میں اسرائیلی بمباری جاری ہے اور اس کے نتیجے میں فلسطینی شہری شہید ہو رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس المناک صورتحال کے پیشِ نظر فلسطین کی آزادی صرف ایک علاقائی معاملہ نہیں بلکہ پوری امتِ مسلمہ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ عملی مؤقف اور واضح حکمتِ عملی کے بغیر بیانات اور وعدے بے معنی رہ جاتے ہیں، اس لیے بین الاقوامی برادری اور بااثر اقوام کو فوری اور سنجیدہ اقدام کرنا چاہیے تاکہ عام فلسطینیوں کو ریلیف اور تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
خیال رہےکہ حماس کی جانب سے تو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی جارہی ہے لیکن اسرائیل نے اپنی دوغلی پالیسی اپناتے ہوئے 22 سال سے قید فلسطین کے معروف سیاسی رہنما مروان البرغوثی کو رہا کرنے سے انکاری ظاہر کی ہے اور اسرائیل کے متعدد وزیر اپنی انتہا پسندانہ سوچ کے سبب صبح و شام فلسطینی عوام کو دھمکیاں دے رہے ہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی جارحانہ انداز اپناتے ہوئے مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔