مسئلہ کالا باغ ڈیم کا
اشاعت کی تاریخ: 10th, September 2025 GMT
پنجاب کے سرحدی شہر میانوالی سے 20 کلو میٹر دور کالا باغ کا علاقہ ہے جہاں سے دریائے سندھ گزرتا ہے۔ یہ دریا چین کے صوبہ تبت کے علاقے سے نکلتا ہے اور اپنا سفر طے کرتے ہوئے پاکستان میں گلگت بلتستان اور شمالی خیبر پختونخوا کے اضلاع سے گذرتا ہوا پنجاب کے شہر اٹک کے میں داخل ہوتا ہے ، جہاں افغانستان سے آنے والے دریائے کابل کا پانی دریائے سندھ میں شامل ہوجاتا ہے۔ سابق صدر ایوب خان کے دور میں منگلا اور تربیلا ڈیم تعمیر ہوئے۔
اسی دور میں کالا باغ کے مقام پر ایک بہت بڑا ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ تیار ہوا۔ دستیاب اعداد و شمار کے مطابق اس ڈیم کی لمبائی 259 فٹ اور چوڑائی 10991 فٹ ہونی تھی اور اس ڈیم میں پانی کی گنجائش 7.
پنجند کے مقام پر دریائے سندھ کے پانی کی تقسیم کی نگرانی کے لیےIndus River System Authority (IRSA) کا قیام عمل میں آیا تھا، یہ ادارہ 1991ء میں قائم ہوا۔ سندھ کے ماہرین اور قوم پرست سیاستدانوں کو مسلسل یہ شکایت تھی کہ دریائے سندھ اور ملحقہ دریاؤں کے پانی کا بیشتر حصہ پنجاب کو ملتا ہے۔ سندھ کے حصے میں کم پانی آتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ دریائے سندھ کم پانی کی بناء پر سکڑ رہا ہے۔
سندھ کی زراعت کو پانی نہ ملنے سے نقصان ہورہا ہے۔ خاص طور پر نہروں کے آخری کناروں پر آباد ہاریوں اور زمینداروں کو ان کی ضروریات سے کم پانی ملتا ہے اور دریائے سندھ کے صاف پانی کی کم مقدار بحیرہ عرب میں جارہی ہے جس کے نتیجے میں ٹھٹہ اور بدین کے ساحلی علاقے سمندر زمین کو کھا رہا ہے۔
ساحلی علاقوں میں قدرتی جنگلات مینگروزکم ہو رہے ہیں۔ دریائے سندھ کا صاف پانی سمندر میں نہ جانے سے سمندری مخلوق کی افزائش متاثر ہوتی ہے، اگر دریائے سندھ کا پانی مناسب مقدار میں سمندر میں نہیں گرے گا تو کراچی سے لے کر بدین اور رن کچھ کے علاقہ تک کی ساحلی پٹی پر آباد علاقوں کے مکین غربت کی لکیر کے نیچے آجائیں گے، ان وجوہات کی بناء پر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے علاوہ چاروں صوبائی اسمبلیوں میں زوردار بحث ہوئی۔ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیوں اور سینیٹ میں متفقہ طور پر اس مؤقف پر اتفاق کیا گیا کہ کالا باغ ڈیم نہیں بنایا جائے۔
90ء کی دہائی میں اخبارات کے فورمز، یونیورسٹیوں، سیاسی جماعتوں کے اجتماعات میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر خوب بحث و مباحثہ ہوا۔ پیپلز پارٹی، نیشنل پارٹی، ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے علاوہ قوم پرست تنظیموں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی سخت مخالفت کی تھی۔
مسلم لیگ ن، پنجاب اور خیبر پختون خوا کی جماعت اسلامی کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مکمل حامی تھیں۔ چھوٹے صوبوں کی شدید مخالفت کی بناء پر مسلم لیگ ن نے اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی زیرِ صدارت ہونے والے ایک اعلیٰ سطح اجلاس میں اس بات پر اتفاق رائے کیا گیا تھا کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر نہیں ہوگی
پھر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو ڈیموں کی تعمیرکا فریضہ انجام دینے کا خیال آگیا اور انھوں نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے فنڈ جمع کرنے کی مہم چلائی۔ برصغیر ہندوستان اور پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ حاضر سروس چیف جسٹس نے ڈیموں کی تعمیر کے لیے چندہ جمع کرنے کی مہم چلائی ہو۔ اس فنڈز میں جو رقم بینکوں میں محفوظ تھی ، وہ کہیں قانون کی کتابوں میں کھوگئی ۔
گلوبل وارمنگ سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ اس سال مون سون کا سیزن بہت شدت سے آیا۔ گلوبل وارمنگ نے گلگت اور پھر پختون خوا میں تباہی مچائی۔ مسلسل درجہ حرارت بڑھنے کے اثرات گلیشیئرز پر پڑے۔ گلیشیئرز پگھلنے سے پانی کے ریلے نے دریائے سندھ اور پانی کے قدرتی راستوں میں آنے والے ہوٹلوں اور مکانات کو مسمار کردیا۔ تجاوزات کی تعمیر کے قدرتی راستے تنگ ہوگئے تھے، اس بناء پر زیادہ تباہی آئی۔ پختون خوا میں کئی علاقوں میں شدید بارشوں نے تباہی مچائی۔
خیبر پختون خوا میں گزشتہ بارشوں میں 700 افراد جاں بحق ہوئے مگر گلگت اور پختون خوا کے یہ علاقے کالاباغ ڈیم کے علاقے سے بہت دور ہیں۔ ان علاقوں سے دریائے سندھ میں آنے والا پانی بعد میں کالاباغ سے گزرتا ہے۔ یہ فرض کرلیں کہ اگر کالاباغ ڈیم تعمیر ہوتا تو گلگت اور پختون خوا کے مختلف علاقوں میں بارش کے پانی سے آنے والی تباہی کو روکا نہیں جاسکتا تھا۔
بھارتی ریاستوں مشرقی پنجاب ، یو پی کے بعض علاقوں، مدھیہ پردیش میں بارشوں کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ اسی طرح بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے بعض علاقوں میں شدید بارش ہوئی۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں لینڈ سلائیڈنگ اور بارشوں کے نتیجہ میں کئی سو افراد ہلاک ہوگئے۔
بھارت کی مختلف ریاستوں میں ہونے والی بارشوں سے دریائے راوی، دریائے ستلج اور دریائے بیاس میں سیلاب آگیا۔ ان دریاؤں کے پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے بھارت سے مختلف علاقوں میں تین بڑے ڈیم پانی کا بوجھ برداشت نہ کرسکے اور وسیع علاقے میں تباہی مچائی۔ ہریانہ اور مدھیہ پردیش کے بعض گاؤں بارش میں مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔
بھارت نے پھر دریائے راوی، ستلج اور بیاس میں پانی چھوڑ دیا۔ یہ تینوں دریا کالاباغ سے سیکڑوں میل دور مختلف سرحدی مقامات سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں داخل ہونے تھے مگر ناقص منصوبہ بندی کی بناء پر لاہور میں دریائے راوی کے کنارے ہاؤسنگ سوسائٹیاں تعمیر کی گئی تھیں۔ دریائے راوی نے اپنے فطری راستوں پر سفر کرتے ہوئے ان ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو تباہ کردیا۔ بقول وزیر دفاع خواجہ آصف ناقص تعمیرات کی بناء پر سیالکوٹ شہر ڈوب گیا۔ یہی صورتحال ملتان، شجاع آباد، لودھراں، بہاولپور اور بہاولنگر وغیرہ کے علاقوں میں ہوئی۔ ان علاقوں میں دریائے بیاس اور دریائے سندھ کے کناروں پر ہزاروں ایکڑ زرعی زمین پانی میں ڈوب گئی۔
اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مقتدر قوتوں نے سیلاب کی تباہی کی ساری ذمے داری کالاباغ ڈیم کی عدم تعمیر پر عائد کی۔ پہلے تو وفاقی وزیر ڈاکٹر مصدق ملک اس مہم میں شامل ہوئے اور اب خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور کو کسی سے بشارت ہوئی اور وہ اچانک نئے صوبوں کے قیام اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے قائل ہوگئے۔ آبپاشی کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا ہے کہ بڑے ڈیمز سے سیلاب کی صورتحال میں زیادہ نقصان ہوتا۔ لوگ بڑے ڈیم بنا کر مطمئن ہوجاتے ہیں اور دریا کی چوڑائی کم ہوجاتی ہے۔
بااثر افراد دریا کے کنارے ہاؤسنگ سوسائٹی بنالیتے ہیں۔ ڈاکٹر عباس مزید کہتے ہیں کہ ڈیم چھوٹے سیلابوں کو تو ختم کردیتا ہے مگر بڑے سیلابوں کو وسعت دیتا ہے۔ سندھ کے آبپاشی کے وزیر جام خان شورو نے ایک ٹاک شو میں بتایا کہ دریاؤں کو چھیڑنے کے خطرناک نتائج نکلتے ہیں۔ اس دھرتی کو 6 دریاؤں کی ضرورت تھی۔
سمندر کو بھی 6 دریاؤں کا پانی چاہیے تھا مگر سندھ طاس معاہدے کی بناء پر تین دریا بھارت میں چلے گئے اور دریائے سندھ میں دو بڑے ڈیم بن گئے جس سے زمین کا ایکو سسٹم تباہ ہوا، اس ایکو سسٹم کو بحال کرنا ہوگا۔ تمام ماہرین کی یہ رائے ہے کہ گلوبل وارمنگ سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ چھوٹے ڈیم، جھیلیں اور تالاب بنائے جائیں تاکہ سیلابی پانی محفوظ ہوسکے اور دریائے سندھ کے پانی میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: باغ ڈیم کی تعمیر اور دریائے سندھ دریائے سندھ کے خیبر پختون خوا پختون خوا کے کالا باغ ڈیم کالاباغ ڈیم دریائے راوی کی تعمیر کے علاقوں میں کی بناء پر ڈیم تعمیر اور دریا کہ کالا بڑے ڈیم کے پانی پانی کی کے لیے
پڑھیں:
پانچ دریاؤں کی سرزمین ’’پنج آب‘‘ پانی کی نظر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
دنیا کا وہ خوبصورت قطعہ جس کا نام ہی پانی پر رکھا گیا وہ آج اپنے اسی حسن پانی کی نظر پانی پانی ہو گیا۔ ’’پنج آب‘‘ یعنی پانچ دریاؤں کی آبادی، جہاں لوگ پانی کی ایک ایک بوند کو ترستے ہیں وہیں اللہ ربّ العزت نے ہمارے اس خطہ ٔ ارض کو پانچ دریاؤں سے نوازا، جس کی مثال دنیا بھر میں کہیں نہیں ملتی۔ اور انہی دریاؤں کی بدولت سر زمین پنجاب سونا اُگلنے والی زمین کے نام سے مشہور ہوئی۔ انہی دریاؤں کی بدولت اس خطے نے دنیا بھر کو بہترین چاول، گندم، گنا، مکئی، باجرہ، سرسوں جیسے اجناس دیے۔ دنیا کی بہترین کاٹن یعنی کپاس جیسی فصل دی۔ آم، کینو، امرود جیسے لذت سے بھرپور پھل دیے۔ آج یہی پانی اس قطعہ زمین پر تباہی کر رہا ہے۔ آج یہ پانی اپنی اس دھرتی سے ناراض کیوں ہے؟ اتنا بپھرا ہوا کیوں ہے؟ اپنی سونی دھرتی کو یہ پانی خود ہی برباد کرنے پر کیوں مجبور ہوا؟ جب اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو ہم نے اپنی نا انصافیوں کی بھینٹ چڑھایا، اپنی نسلی دشمنیوں کا بدلہ لینے کے لیے استعمال کیا، جب ان کی قدرتی گزرگاہوں پر جائز و ناجائز قبضے شروع کر دیے، جب قدرت کی اس عظیم نعمت کی قدرتی تقسیم کو ماننے سے انکار کر دیا۔ تو یہ پانی ناراض ہو گئے اور تباہی و بربادی کرنے لگے۔ آج بھی اگر ان کی اہمیت کو قبول کر لیا جائے تو یہ اک بار پھر سونا اُگلنے لگیں گے۔
پنجاب کا حسن، پنجاب کی شان، پنجاب کی آن پنج آب یعنی پانچ دریاؤں کا آپ سے تعارف کرواتے ہیں، گزشتہ کچھ عرصہ سے ہر پاکستانی اپنے نام نہاد حکمرانوں کے کرتوتوں سے یہ سوچنے پر مجبور نظر آتا ہے کہ جو مطالعہ پاکستان ہمیں نصابی کتب میں پڑھایا جاتا ہے وہ بظاہر کچھ اور ہے جبکہ حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ پنجاب کے ان دریاؤں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہے نصاب میں پنجاب کا پانچواں دریا دریائے سندھ کو پڑھایا جاتا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ: پنجاب کو جس وجہ سے پانچ دریاؤں کی سرزمین کہا جاتا ہے ان پانچ دریاؤں میں چناب، ستلج، جہلم اور روای کے ساتھ ’’دریا سندھ‘‘ شامل نہیں ہے۔ بلکہ پانچواں دریا ’’دریائے بیاس‘‘ ہے۔ یہ پانچ دریا (چناب، جہلم، ستلج، بیاس، راوی) پاکستان اور ہندوستان کے مشترکہ پنجاب کے اندر ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ جیسے دریائے راوی ’’احمد پور سیال‘‘ کے قریب دریائے چناب میں شامل ہوجاتا ہے۔ اسی طرح دریائے جہلم بھی ’’تریمو‘‘ (جھنگ) کے مقام پر دریائے چناب میں شامل ہوجاتا ہے۔
دریائے چناب اور دریائے جہلم پنجاب کے وہ دو دریا ہیں جو ہندوستانی پنجاب میں داخل نہیں ہوتے۔ جبکہ دریائے راوی اور دریائے ستلج ہندوستانی پنجاب سے پاکستانی پنجاب میں داخل ہوتے ہیں۔ دریائے بیاس پاکستان میں انفرادی طور پر داخل نہیں ہوتا۔ ہندوستانی پنجاب میں ہی دریائے بیاس، دریائے ستلج میں شامل ہوجاتا ہے، اور یہ دریائے ستلج پاکستان میں آتا ہے۔ ستلج اور بیاس کے ملنے کے مقام پر انڈیا نے 1984 میں ایک بڑی سی نہر نکال کر راجستھان کو سیراب کیا تھا (اندرا گاندھی کینال) تو اب ہمارے پاس دو دریا بچتے ہیں، یعنی دریائے چناب (جس میں راوی اور جہلم کا پانی شامل ہے) اور دریائے ستلج (جس میں دریائے بیاس کا پانی شامل ہے)۔ یہ دونوں دریا ’’پنجند‘‘ کے مقام پر ملتے ہیں، جو ’’اوچ شریف‘‘ کے پاس ہے۔ یہاں پر یہ دونوں دریا (اور پانچ دریاؤں کا پانی) مل کر دریائے ’’پنجند‘‘ بناتے ہیں۔ یہ دریا بھی 71 کلومیٹر آگے جاکر پنجاب کے ہی شہر ’’مٹھن کوٹ‘‘ کے پاس دریائے سندھ میں اپنا پانی (یعنی پنجاب کے پانچ دریاؤں کا پانی) شامل کردیتا ہے۔
باقی ان پانچوں دریاؤں میں سے ستلج اور روای سال ہا سال زیادہ تر خشک ہی رہتے ہیں زیادہ عرصے خشک رہنے میں پاک بھارت کی ازلی دشمنی کا ہاتھ ہے، مگر اس بار ان دریاؤں نے اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا دریائے چناب کے ساتھ مل کر خوب بدلہ لیا ہے۔ اس وقت دریائے چناب، راوی اور ستلج کے آس پاس کا ستر فی صد سے زائد علاقہ صدی کے بد ترین سیلاب کی نظر ہے۔ اللہ ربّ العزت سیلاب سے متاثرہ ان پریشان حال لوگوں کی مدد کرے، اور ہم میں سے ہر اک کو ان آفات سے محفوظ رکھے پنجاب کے دریاؤں کا یہ بپھرا ہوا پانی تباہ کاریوں کے ساتھ ساتھ سبق آموز نصیحت بھی کر گیا کہ نا حق قبضہ پوری قوت اور حق پر ہوتے ہوئے واپس لینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔