تاریخ شاہد ہے کہ صفحہ گیتی پر تخلیقِ نوع انسانی کے بعد سے آج تک بے شمار علمی، سیاسی، سماجی اور مذہبی شخصیات رونق افروز ہوئیں، جن میں سرفہرست انبیائے کرامؑ تشریف لائے، حکماء و فلاسفہ پیدا ہوئے، فصاحت و بلاغت کے امام آئے، قانون و طب کے ماہرین قدم رنجہ ہوئے، مگر ان تمام شخصیات میں جو قدر و منزلت نبی کریم ﷺ کے حصے میں آئی اور جو فدائیت و جاں نثاری آپؐ کے اصحاب و نام لیواؤں نے دکھائی، کسی اور کو یہ اعزاز حاصل نہ ہوسکا۔
یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ آپؐ کی عظمت و رفعت کے ترانے صرف اپنوں نے نہیں گائے، بل کہ بیگانے بھی آپؐ کی تعریف میں رطب اللسان رہے اور آج تک ہیں۔ آپؐ کی عظیم شخصیت، آپؐ کے اخلاق حمیدہ، آپؐ کی آفاقی تعلیمات اور آپ ﷺ کی سیاسی اور تاریخی عظمت، ایسے روشن حقائق ہیں جن کے ادراک کے بعد کوئی غیر مسلم بھی تعصب و عناد کے خول میں زیادہ دیر تک بند نہیں رہ سکتا۔
آپؐ کی سچائی اور صداقت کا اقرار، آپؐ کی دیانت و پاک دامنی کا اعتراف صرف عربوں تک محدود نہیں رہا بل کہ ساری دنیا کے دانش ور و مفکرین جو تعلیمات اسلام کے منکر ہیں، وہ بھی آپؐ کے مقام و مرتبے کے قائل اور آپؐ کی تعریف و توصیف پر مجبور ہیں۔ کارلائل، نپولین، ٹالسائی، گوئٹے، لینن پول اور دیگر بے شمار ہندو پنڈت و دانش ور آپؐ کی مدح سرائی کرتے نظر آتے ہیں۔ اغیار، ایسی شہادتیں آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں بھی دیتے رہے اور آپؐ کے وصال کے بعد آج تک دیتے چلے آرہے ہیں۔
ایک مسلمان کے نزدیک قرآنِ پاک اور احادیث نبویؐ کی موجودی میں اغیار کے اقوال و آراء کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ہی سیرتِ رسول مقبول ﷺ ان تائیدات و اقتباسات کی چنداں محتاج ہے، لیکن تبلیغی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو ان آراء کی افادیت کسی نہ کسی درجہ میں قابل تسلیم ہے۔
وہ لوگ جو اسلام پر ایمان نہیں رکھتے، قرآنِ کریم پر جن کا یقین نہیں، احادیث مبارکہ کو وقعت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، ان لوگوں کو انھی کے ہم مذہب، ہم قوم اور ہم عقیدہ دانش وروں کے بعض اقوال و تحریر کے ذریعہ قائل کیا جا سکتا ہے یا کم از کم ان کی منافقت و تضاد بیانی کو منظر عام پر لایا جا سکتا ہے۔ ذیل میں صرف اسی مقصد سے چند غیر مسلم دانش وروں اور ہندو پنڈتوں کے اقوال درج کیے جارہے ہیں۔
٭ غیر مسلم دانش وروں کی آراء:
مائیکل ہارٹ نامی ایک یہودی مصنف نے ’’100عظیم آدمی‘‘ نامی ایک کتاب لکھی ہے، جس پر اس نے (28) سال تحقیق کی اور دنیا کی تاریخ میں اپنے دیرپا نقوش چھوڑنے والی 100 اہم ترین، قد آور شخصیات کے بارے میں بنیادی معلومات لکھ کر اپنا تجزیہ تحریر کیا ہے۔ یہودی ہونے کے باوجود اس نے ہمارے پیارے نبیؐ کا نام ان تمام اہم ترین شخصیات میں سر فہرست رکھا۔ (اگرچہ اس کے مندرجات سے اسلامی نقطۂ نظر سے اختلاف کیا جاسکتا ہے) اور مضمون کا آغاز ان الفاظ میں کیا:
’’ممکن ہے کہ انتہائی موثر کن شخصیات کی فہرست میں محمد (ﷺ) کا شمار سب سے پہلے کرنے پر چند احباب کو حیرت ہو اور کچھ معترض بھی ہوں لیکن یہ واحد تاریخی ہستی ہے جو مذہبی اور دنیاوی دونوں محاذوں پر برابر طور پر کام یاب رہی۔ محمد (ﷺ) نے عاجزانہ طور پر اپنی مساعی کا آغاز کیا اور دنیا کے عظیم مذاہب میں سے ایک مذہب کی بنیاد رکھی اور اسے پھیلایا۔ وہ ایک انتہائی موثر سیاسی راہ نما بھی ثابت ہوئے۔ آج تیرہ سو برس گزرنے کے باوجود ان کے اثرات انسانوں پر ہنوز مسلّم اور گہرے ہیں۔‘‘
(سو عظیم آدمی: مائیکل ہارٹ)
٭ نام ور فاتح یورپ نپولین بونا پارٹ کا قول ہے:
’’حضرت محمد ﷺ امن اور سلامتی کے ایک عظیم شہزادہ تھے۔ آپؐ نے اپنی عظیم شخصیت سے اپنے فدائیوں کو اپنے گرد جمع کیا۔ صرف چند سالوں میں مسلمانوں نے آدھی دنیا فتح کرلی۔ جھوٹے خداؤں کے پجاریوں کو مسلمانوں نے اسلام کا حلقہ بہ گوش بنا لیا۔ بت پرستی کا خاتمہ کردیا۔ کفار اور مشرکین کے بت کدوں کو پندرہ سال کے عرصے میں ختم کر کے رکھ دیا۔ موسیؑ اور عیسیؑ کے پیروکاروں کو بھی اتنی سعادت حاصل نہ ہو سکی۔ یہ حقیقت ہے کہ حضرت محمد ﷺ بہت بڑے اور عظیم انسان تھے۔ اس قدر عظیم انقلاب کے بعد اگر کوئی دوسرا ہوتا تو خدائی کا دعویٰ کر دیتا۔‘‘ ( بہ حوالہ: بوٹا پارٹ اور اسلام)
٭ ولیم منٹگمری واٹ، رحمتِ عالمؐ کے برداشت و تحمل کے حوالے سے رقم طراز ہے:
’’آپ (ﷺ) کا اپنے عقائد کی خاطر ظلم و ستم اور اذیت کو برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا، آپ (ﷺ) کو اپنا راہ نما تسلیم کرنے والوں اور آپؐ پر ایمان رکھنے والوں کا بلند کردار اور انجام کار آپؐ کی کام یابی، آپؐ کی عظمت کی دلیل ہے۔‘‘
٭ سابق مسیحی راہبہ پروفیسر کیرن آر مسٹرانگ اپنی کتاب ’’محمدؐ‘‘ میں جہاد کے اسلامی تصور کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
’’جہاد، اسلام کے پانچ ارکان میں شامل نہیں اور اہل مغرب میں پائے جانے والے عام خیال کے برخلاف یہ مذہب (اسلام) کا مرکزی نقطہ بھی نہیں، لیکن مسلمانوں پر یہ فرض تھا اور رہے گا کہ وہ اخلاقی، روحانی اور سیاسی ہر محاذ پر ایک مسلسل جدوجہد اور کوشش کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہمیشہ مصروف عمل رکھیں، تاکہ انسان کے لیے خدا کی منشاء کے مطابق انصاف اور ایک شائستہ معاشرہ کا قیام ہو۔ جہاں غریب اور کم زور کا استحصال نہ ہو۔ جنگ اور لڑائی بھی بعض اوقات ناگزیر ہوجاتی ہے لیکن یہ اس بڑے جہاد یعنی کوشش کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ ایک معروف حدیث کے مطابق محمد (ﷺ) ایک جنگ سے واپسی پر فرماتے ہیں کہ ہم ایک چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف لوٹ کر آئے ہیں۔ یعنی اس مشکل اور اہم مجاہدہ یا جہاد زندگانی کی طرف جہاں ایک فرد کو اپنی ذات اور اپنے معاشرے میں روز مرہ زندگی کی تمام تر تفاصیل میں برائی کی قوتوں پر غالب آنا ہے۔‘‘
٭ مسز اینی بیسنٹ اعتراف کرتی ہیں:
’’جو شخص بھی حضرت محمد (ﷺ) عرب کے جلیل القدر پیغمبر کی حیاتِ مقدسہ اور آپؐ کے عظیم کردار اور عمل کا مطالعہ کرتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ نے کس طرح اپنی پاکیزہ زندگی بسر کی، اس کے لیے اس کے بغیر چارہ ہی نہیں کہ وہ اس عظیم اور جلیل پیغمبرؐ کی عظمت اور جلالت محسوس نہ کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت محمدؐ، خدا کے رسولوں میں بڑی عزت والے رسول تھے۔ میں جو کچھ آپ کے سامنے پیش کر رہی ہوں۔ آپ میں سے اکثر اصحاب شاید اس سے واقف بھی ہوں لیکن میری تو یہ حالت ہے کہ میں جب بھی آپؐ کی سیرتِ پاک کا مطالعہ کرتی ہوں تو میرے دل مین عرب کے اس عظیم اور لاثانی نبیؐ کی نئی عظمت اجاگر ہوتی ہے۔‘‘
( بہ حوالہ: سیرت و تعلیماتِ محمدؐ)
٭ سوامی لکشمن جی اپنی کتاب ’’عرب کا چاند‘‘ میں آپؐ کے تعلق سے ان خیالات کا اظہار کرتے ہیں :
’’جہالت اور ضلالت کے مرکزِ اعظم جزیرہ نمائے عرب کے کوہِ فاران کی چوٹیوں سے ایک نور چمکا، جس نے دنیا کی حالت کو یکسر بدل دیا۔ گوشے گوشے کو نورِ ہدایت سے جگ مگا دیا اور ذرے ذرے کو فروغِ تابشِ حسن سے غیرتِ خورشید بنا دیا۔ آج سے چودہ صدیاں پیشتر اسی گم راہ ملک کے شہر مکہ مکرمہ کی گلیوں سے ایک انقلاب آفریں صدا اٹھی جس نے ظلم و ستم کی فضاؤں میں تہلکہ مچا دیا۔ یہیں سے ہدایت کا وہ چشمہ پھوٹا جس نے اقلیمِ قلوب کی مرجھائی ہوئی کھیتیاں سرسبز و شاداب کر دیں۔ اسی ریگستانی چمنستان میں روحانیت کا وہ پھول کھلا جس کی روح پرور مہک نے دہریت کی دماغ سوز بُو سے گھرے ہوئے انسانوں کے مشامِ جان کو معطر و معنبر کر دیا۔ اسی بے برگ و گیاہ صحرا کے تیرہ و تار افق سے ضلالت و جہالت کی شبِ دیجور میں صداقت و حقانیت کا وہ ماہ تابِ درخشاں طلوع ہُوا جس نے جہالت و باطل کی تاریکیوں کو دور کر کے ذرے ذرے کو اپنی ایمانی روشنی سے جگ مگا کر رشکِ طور بنا دیا، گویا ایک دفعہ پھر خزاں کی جگہ سعادت کی بہار آ گئی۔‘‘ (بہ حوالہ: عرب کا چاند)
مختصر یہ کہ ان چند اقتباسات سے یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم بھی رسول اکرم ﷺ کی سیرت طیبہ کا غیر جانب داری و بے تعصبی سے مطالعہ کرتا ہے تو بے ساختہ آپ ﷺ کی عظمت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ آج انسانیت بے شمار روحانی اور سماجی مسائل کا شکار ہے ان جملہ روحانی اور معاشرتی مسائل کا واحد حل سیرت طیبہؐ کے عملی پہلوؤں کو اجاگر کرنے اور ان کو راہ نما بنا کر ان پر عمل کرنے میں پنہاں ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی عظمت اور ا پ کے بعد
پڑھیں:
افشاں قریشی نے اپنی خوبصورت محبت کی کہانی سنادی
معروف سینئر اداکارہ اور فیصل قریشی کی والدہ افشاں قریشی نے اپنے شوہر سے جڑی خوبصورت محبت کی کہانی سنادی۔
افشاں قریشی چار دہائیوں سے شوبز انڈسٹری میں اپنی شاندار اداکاری سے پہچانی جاتی ہیں۔ وہ نجی ٹی وی کے پروگرام کی مہمان بنیں جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے یادگار لمحات کا ذکر کیا۔
انہوں نے بتایا کہ میں فیصل کے پاپا سے بےحد محبت کرتی تھی، ایک موقع پر میں نے ایک فلم سائن کی لیکن شوٹنگ پر جانے کے بجائے کراچی واپس آ گئی تاکہ ان سے ملاقات کر سکوں، جب فلم کے ڈائریکٹر مجھے ڈھونڈتے ہوئے گھر پہنچے تو میں بستر کے نیچے چھپ گئی۔
افشاں قریشی نے مزید بتایا کہ ’میری ملاقات فیصل قریشی کے والد سے ایک فلم کے سیٹ پر ہوئی تھی، ہم دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے اور یہ ایک خاموش وعدہ تھا، میرے شوہر نے کبھی براہِ راست اظہارِ محبت نہیں کیا بلکہ سیدھا والدین کے پاس رشتہ لے کر پہنچ گئے تاہم میرے والدین نے ابتدا میں انکار کردیا تھا کیونکہ وہ اپنے بچوں کی شادیاں صرف میمن خاندانوں میں کرتے تھے، میں ایک ماہ تک روتی رہی، بالآخر میری والدہ نے والد کو راضی کیا اور شادی طے پا گئی۔‘
انہوں نے اپنی زندگی کے مشکل ترین دور کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ میں صرف 25 سال کی تھی جب میرے شوہر کا انتقال ہوگیا، جبکہ فیصل قریشی اس وقت صرف 8 سال کے تھے۔
افشاں قریشی نے کہا کہ میں نے جوانی میں بیوگی کا صدمہ برداشت کیا، مگر ہمیشہ اللّٰہ کی رضا پر راضی رہی اور اپنی زندگی اکیلے ہی گزاری۔