WE News:
2025-09-18@00:28:46 GMT

پاکستان ایک منفرد کیس ہے، اسے ایزی نہ لیں

اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT

قطر پر حالیہ اسرائیلی حملہ نہایت افسوسناک، شرمناک اور شدید قابل مذمت ہے۔ اس پر قطر یا مڈل ایسٹ کے دیگر ممالک اپنے ردعمل میں کس حد تک جاتے ہیں، اس پر میرا بحث کا قطعی ارادہ نہیں کہ ہم سب جانتے ہیں کیا ہوگا؟

  پاکستان کے حوالے سے البتہ ایک بحث جو کل سے سوشل میڈیا پر چل رہی ہے، اس پر ضرور بات کرنا چاہوں گا۔ ہمارے بعض دوستوں نے طنز خفی میں اور چند ایک نے کھل کر طنزیہ پوسٹیں لگائیں جن کا لب لباب یہ تھا کہ پاکستان بھی قطر سے مختلف نہیں اور اگر پاکستان پر ایسا حملہ ہوتا تو ہم بھی جواب دینے کی جرات نہیں کرتے کیونکہ فلاں فلاں مواقع پر ہم بھی خاموش رہے وغیرہ وغیرہ۔

یہ بھی پڑھیں: پلاننگ ایسےکی جاتی ہے

یہ بھی کہا گیا کہ پاکستانی سرزمین پر ڈرون اٹیک ہوتے رہے اور پاکستان نے جواب نہیں دیا، مئی 2011 میں اسامہ بن لادن کو پکڑنے کے لیے امریکیوں نے آپریشن کیا اور پاکستانی تماشا دیکھتے رہے وغیرہ۔

دیکھیں، اصول یہ ہے کہ جو بات جیسی ہو، ویسی کہنی چاہیے۔ کسی کی مخالفت بھی ہمیں سچ اور حق بات کہنے سے نہ روک سکے۔ ممکن ہے ہم میں سے کچھ کو اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف ہو، سیاست میں غیر سیاسی مداخلت سے یہ ناراض یا برہم ہوں، اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ہم اپنی فورسز کی صلاحیت اور قوت پر شک کریں۔ طنز کریں، تنقید کریں اور خواہ مخواہ کی لعنت ملامت بطور قوم اور بطور ملک اپنے اوپر کریں، اپنے سر میں خاک ڈالیں اور بے وجہ ماتم کریں۔

پاکستان ایران یا قطر نہیں

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا معاملہ ایران جیسا نہیں، پاکستان قطر نہیں اور نہ ہی یہ غزہ یا مصر ہے۔ پاکستان ایک طاقتور ملک ہے، جس کے پاس  اپنی ضرورت کے مطابق معقول قسم کی عسکری قوت موجود ہے۔ پاکستان ایک نیوکلیئر قوت ہے اور اس کے پاس لانگ رینج میزائل کی بھی کمی نہیں۔ عسکری ماہرین کے مطابق پاکستانی میزائل ایرانی میزائلوں سے زیادہ موثر اور خطرناک ہیں۔ پاکستان کے ابابیل میزائل جیسی صلاحیت تو کسی بھی مسلم ملک بشمول ترکی کے پاس نہیں۔ جسے شک ہو، وہ زرا سرچ کر کے خود معلومات حاصل کر لے۔

مزید پڑھیے: کیا نیدرلینڈ ماڈل ہمیں سیلاب سے بچا سکتا ہے؟

پاکستان دانستہ اپنے لانگ رینج میزائلز کو لوپروفائل میں رکھتا ہے، ورنہ ہمارے پاس ایسے میزائل موجود ہیں جو اسرائیل تک ہٹ کر سکیں۔ یہ بات اسرائیل سمیت ہر ملک جانتا ہے، اسی لیے وہ پاکستانی نیوکلیئر تنصیبات، ہمارے میزائل سسٹم اور دیگر اہم اثاثہ جات کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ پاتے۔ یہ صرف باتیں نہیں بلکہ پچھلے 30،35 برس اس کے گواہ ہیں۔

ہمارے نیوکلیئر سائنس دان بشمول ڈاکٹر عبدالقدیر خان آخری چند برسوں کے سوا عمر بھر آزاد پھرتے رہے ہیں، تھوڑی بہت سیکیورٹی انہیں حاصل تھی، مگر ایسا نہیں کہ ان سے ملنا ممکن ہی نہیں تھا۔ ہم جیسے صحافی بھی ان سے آسانی سے مل کر انٹرویو وغیرہ کر لیتے تھے۔ ڈاکٹر قدیر خان بے شمار تقریبات میں شریک ہوتے تھے۔

ایسا نہیں کہ ان کی سیکیورٹی ایسی فول پروف تھی کہ دنیا کی کوئی بڑی خفیہ ایجنسی انہیں نشانہ ہی نہ بنا پاتی۔ ایسا نہیں تھا۔ صرف ایک بات ہر ایک کو معلوم تھی کہ پاکستانی سائنسدانوں کو نشانہ بنایا تو پاکستانی خفیہ اداروں میں وہ قوت، اہلیت اور عزم موجود ہے کہ وہ جواب میں انہیں بھی شدید وار کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: پنجاب میں سیلاب، چند اہم سوالات

یہ بات بھارتی خفیہ ایجنسی را جانتی ہے، اسرائیلی موساد کو علم ہے اور روسی کے جے بی اور امریکی سی آئی اے سمیت برطانوی ایم آئی سکس بھی اس سے باخبر ہے۔ جواب دینے کی یہ قوت اور استعداد ہی تحفظ کی اصل کنجی ہے۔

امریکی ڈرون حملے اور اسامہ ہلاکت آپریشن

بعض اوقات صورتحال اس قدر پیچیدہ ہوجاتی ہے کہ اس پر یوں آسانی کے ساتھ رائے دینا ممکن نہیں ہوتا، ہر چیز بلیک اینڈ وائٹ میں نہیں ہوتی۔ ہر چیز کو اس کے تناظر اور پس منظر ہی میں سمجھنا چاہیے۔

پہلے قبائلی ایجنسیوں( سابق پاکستانی فاٹا) پر امریکی ڈرون حملوں کو لے لیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ  بین الاقوامی قوانین کی بھی خلاف ورزی تھی اور قومی وقار کا مسئلہ بھی۔ زمینی حقائق مگر یہ بھی تھے کہ پاکستان دہشتگردی کی جنگ میں امریکی اتحادی تھا، وہ اس وقت ایک بڑی اور گہری ڈبل گیم کھیل رہا تھا۔

ایک طرف امریکا کو افغانستان میں آپریشن کے لیے لاجسٹک سپورٹ دے رکھی تھی، ایئربیسز دیے تھے جبکہ دوسری طرف افغان طالبان قیادت اور ان کی اصل قوت کو بچانا بھی مقصود تھا۔

تب ہمارے منصوبہ سازوں نے اس کا یہ حل نکالا کہ افغان طالبان کو بچایا جائے اور القاعدہ جیسی گلوبل ایجنڈا رکھنے والی تنظیم کے خلاف آپریشن کیا جائے، ٹی ٹی پی جو تب القاعدہ کے ساتھ جڑی ہوئی تھی، اس کے خلاف بھی کارروائیاں کی جائیں۔ امریکی پاکستان پر مسلسل دباو ڈال رہے تھے کہ ہم شمالی اور جنوبی وزیرستان کےساتھ باجوڑ اور دیگر ایجنسیوں میں آپریشن کریں۔

پاکستان اس دباؤ کو کئی برسوں تک ٹالتا رہا۔ حتیٰ کہ جب ممکن نہ رہا تو پھر شمالی وزیرستان میں آپریشن کرنے کے بجائے جہاں افغان طالبان کو سپورٹ کرنے والے گروپ آباد تھے، پہلے جنوبی وزیرستان میں آپریشن کیا، پھر باجوڑ شروع کر دیا اور شمالی وزیرستان میں آپریشن کو مزید سال 2 کے لیے موخر کر دیا۔

اس سب میں مجبوراً امریکیوں کو فاٹا میں ڈرون حملوں کی اجازت دینا پڑی یا یوں کہہ لیں کہ ان حملوں کو گوارا کرنا پڑا۔ اس لیے بھی کہ ان میں سے بعض حملے خود پاکستان کے مفاد میں تھے اور ٹی ٹی پی کے کئی ہائی پروفائل کمانڈر جو پاکستان میں خود کش حملوں کے ذمہ دار تھے، انہیں نشانہ بنایا گیا۔

ایسے لوگوں کی ایک طویل فہرست بن سکتی ہے بیت اللہ محسود سے قاری حسین، قاری ظفر اور ایسے بہت سے ناموں کے علاوہ آخر میں حکیم اللہ محسود تک ۔ میرے پاس ظاہر ہے ثبوت نہیں مگر عین ممکن ہے کہ بعض خودکش بمباروں کے ماسٹر مائنڈز وغیرہ کو اڑانے کے لیے ہم نے اطلاعات بھی فراہم کی ہوں۔

اس لیے ڈرون حملے کسی ملک میں دوسرا ملک کرے تو غلط ہیں، مگر جب ایسی پیچیدہ صورتحال ہو، جہاں بہت کچھ چھپایا جا رہا ہو، ایک سپر پاور کے ساتھ ڈبل گیم چل رہی ہو اور اس میں 8 ، 10، 12 برس گزارے جا چکے ہوں، تب  بہت کچھ ایسا بھی ہوجاتا ہے جو عام حالات میں نہیں ہوتا۔

ویسے یہ ذہن میں رکھیں کہ اتنے برسوں تک امریکی ڈرون حملے کرتے رہے، سینکڑوں حملے ہوئے، مگر ایک بھی ڈرون یا میزائل حملہ پشاور، مردان، نوشہرہ، صوابی ، ڈی آئی خان، بنوں وغیرہ میں نہیں ہوا۔ اس لیے کہ اس کی اجازت نہیں دی گئی تھی اور ایسا نہیں ہونے دیا گیا۔

2 مئی 2011 کو ابیٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن ایک افسوسناک اور سیاہ باب ہے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ امریکس نے تب ہمارے اداروں کو دھوکا دیا، ایک بڑا سرپرائز دیا اور اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے تمام قوانین کے پرخچے اڑا دیے گئے۔ اس پر پاکستان کو شدید ردعمل دینا چاہیے تھا، مگر نہیں دیا گیا۔ اس پر تنقید بھی ہوسکتی ہے اور آپ چاہیں تو ان حالات کو سمجھ کر رعایت بھی دے سکتے ہیں۔

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اسامہ بن لادن ایک انٹرنیشنل دہشتگرد تھا، موسٹ وانٹیڈ کریمنل جس کے سر کی قیمت دنیا بھر میں مقرر کی گئی تھی۔ پاکستان بھی آفیشلی اسامہ بن لادن کو بدترین دہشتگرد اور انسانیت دشمن سمجھتا تھا۔ پاکستان کا باقاعدہ مؤقف تھا کہ ہم اسامہ بن لادن کو زندہ یا مردہ پکڑ لیں گے، اس کے لیے بے شمار آپریشن بھی ہوئے۔

اس لیے جس طریقے سے امریکیوں نے وہ آپریشن کیا، وہ سراسر غلط تھا، ہمارے لیے باعث شرمندگی اور باعث رسوائی بنا، مگر بہرحال جس شخص کے لیے وہ آپریشن کیا گیا، پاکستان آفیشلی اس پر انکار یا گریز نہیں کر سکتا تھا۔ اگر اس آپریشن میں پاکستان کو شامل کیا جاتا تو ہمارے لوگ لامحالہ شامل ہوتے کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔

پاکستان ایران کیوں نہیں ہے؟

اس لیے کہ پاکستانی قیادت نے ایرانی قیادت جیسی ناسمجھی سے کام نہیں لیا۔ پاکستان نے اپنے لیے تنہائی نہیں چنی، ہم نے سمجھداری کے ساتھ مختلف اتحاد بنائے ہیں۔ اہم ممالک سے قریبی تعلقات استوار رکھے۔

ہم نے مغرب کے ساتھ بھی اچھا تعلق رکھا، امریکا کے ساتھ مختلف اتحادوں کا حصہ رہے، یورپ کے ساتھ خوشگوار تعلق رکھا اور پھر چین کے ساتھ اسٹریٹجک پارٹنر شپ بنائی۔

یہ بھی پڑھیے: آئیے، یادداشتوں کو مٹانے کی کوشش ناکام بنائیں

پاکستان نے اپنی افادیت اور اہمیت سعودی عرب، ترکی، چین جیسے ممالک کو ثابت کی، امریکا کو بھی بار بار انگیج کیا، یورپ بھی پاکستان کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ یہ وہ ہے جو ایرانی قیادت نہیں کر پائی۔ وہ تو چین کے ساتھ اسٹریٹجک عسکری تعلقات تک نہیں بنا پائے۔ روس سے ایس 400 اینٹی میزائل سسٹم تک نہ لے پائے۔

پاکستانی ہتھیاردکھاوا نہیں، چلانے کے لیے ہیں

کہنے کو تو قطر کے پاس بھی اربوں ڈالر مالیت کے جدید امریکی اور یورپی ہتھیار موجود ہیں، جدید رافیل طیارے بھی ہیں اور بھی بہت کچھ۔ افسوس کہ ان میں سے کوئی بھی ہتھیار کبھی چلتا نظر نہیں آیا اور شاید آئے بھی نہیں۔

مڈل ایسٹ کے ان مسلمان ممالک کو اچھی طرح معلوم ہے کہ امریکا نے اسرائیل کو ایف 35 ففتھ جنریشن سٹیلتھ طیارہ دے رکھا ہے جسے ریڈار پر دیکھنا ہی بہت مشکل ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ جتنے بھی پیسے خرچ کر لیں امریکا کبھی انہیں اسرائیل سے بہتر ہتھیار نہیں دے گا۔ یوں ان کے ہتھیار ہمیشہ کمتر رہیں گے اور اکثر بیشتر وہ شوپیس ہی ہوں گے۔ اگر وہ عقلمندی کرتے تو چینی ہتھیاروں کی طرف جاتے کہ امریکی ہتھیاروں کا کاونٹر صرف چین ہی کر پائے گا۔

پاکستان نے اس کے برعکس ہمیشہ وہ ہتھیار لیے جنہیں چلایا جا سکے، جن سے وہ اپنے دشمنوں کے دانت کھٹے کر سکے۔ پاکستان نے اپنے مخالفوں کی قوت کا بھرپور اندازہ لگایا اور اسی حساب سے اپنے بے حد کم وسائل کے باوجود تیاری کی۔

مزید پڑھیں: 14 اور 15 اگست

پاکستان نے چین جیسا قابل اعتماد اتحادی بنایا، عشروں کی محنت سے ساتھ ایسے اسٹریٹجک تعلقات بنائے کہ چین کئی ایسے ہتھیار جو صرف چینی فوج کو دئیے جاتے ہیں، وہ بھی پاکستان کو دے رہا ہے۔ پی ایل 15 میزائل سے لے کر مجوزہ پی ایل سترہ میزائل، جدید اواکس (k500)طیارے، امریکی اینٹی میزائل سسٹم(Hq19)اور ففتھ جنریش فائٹر طیارے جے 35 اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔

پاکستان واحد غیر سپرپاور ملک ہوگا جو بیک وقت 2 اقسام کے ففتھ جنریش سٹیلتھ فائٹر طیارے لے رہا ہے، چینی جے 35 اور ترکی کا مجوزہ طیارہ کان۔ یہ درست حکمت عملی ہے۔ ففتھ جنریشن فائٹر طیارے کا جواب ففتھ جنریشن طیارہ ہی دے سکتا ہے۔ جنرل بخشی جیسے انڈین دفاعی تجزیہ کار اسی لیے تو تلملاتے ہیں کہ اتنے کم وسائل اور کمزور معیشت کے ساتھ پاکستان ہربار ایسے کرشمے کیسے دکھا دیتا ہے؟

سب سے بڑھ کر ہمارے سائنسدانوں نے غیر معمولی مہارت کا مظاہرہ کیا اور بہت کم وقت میں ایٹم بم بنا لیا، ایرانی سائنس دان ہم سے 3،4 گنا زیادہ وقت ملنے کے باوجود ناکام رہے۔ ہم نے باہر سے مدد بھی لی ہوگی، مگر بہرحال اپنا شاندار میزائل سسٹم بنا لیا ہے، کئی اقسام کے کروز اور بیلسٹک میزائل خود بنانے کے استعداد اور قوت حاصل کر لی اور بنا بھی ڈالے ۔ خاموشی سے بغیر رولا ڈالے کام کیا اور لوپروفائل رہتے ہوئے ہی ایسے لانگ رینج میزائل بھی بنا ڈالے، جن کا شور آج بھی نہیں ڈالا گیا مگر عسکری ماہرین جانتے ہیں کہ پاکستانی شاہین تھری، فتح اول، دوم ، سوم اور ایم آئی آر وی میزائل ابابیل کیا قوت اور پوٹینشل رکھتے ہیں؟

پوری بحث کا خلاصہ یہی ہے کہ پاکستان ایران ہے نہ قطر نہ کوئی اور مڈل ایسٹ کا ملک۔ پاکستان کی اپنی قوت، پوٹینشل اور اہمیت ہے۔ بطور پاکستانی ہمیں اس پرخوش ہونا چاہیے۔ یہ انڈیا یا کسی دوسرے ملک کا نہیں، یہ ہمارے ملک کا اعزاز ہے۔ اگر ہماری فوج کوئی معرکہ جیتتی ہے تو یہ ہمارے لیے باعث فخر ہے۔ اسٹیبلشمنٹ سے سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر بہرحال یہ ہماری فوج ہے، اس کی کامیابیاں ہماری ہیں، اس کی فتوحات ہماری فتوحات ہیں۔ ان پر ناز کرنا چاہیے، اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے مستقبل میں بھی اللہ کی  نصرت کی دعا کرنی چاہیے۔

مزید پڑھیے: ‘کانگریس کی بدنیتی نے قائداعظم کو الگ وطن پر مجبور کیا‘

قومی تاریخ کے اس سفر میں ہم سے غلطیاں بھی ہوئی ہوں گی، کہیں قیادت نے قوم کو مایوس بھی کیا ہوگا، ظاہر ہے ہم دولخت بھی ہوئے، مگر خدا کے فضل سے ہم نے ہمیشہ کم بیک کیا، اکھاڑے  میں واپس آئے اور پھر فتح یاب ہوئے۔ اس لیے تنقید ضرور کریں، غلطیوں اور خامیوں کی نشاندہی بھی کریں، مگر جو اچھا ہے، وہ تسلیم کریں، اسے سراہیں اور اس پر اللہ کا شکر بجا لاتے ہوئے نازاں ہوں۔ یہی معقول اور منطقی رویہ ہونا چاہیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

اسامہ بن لادن اسرائیل کا قطر پر حملہ امریکا بھارت پاکستان.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسامہ بن لادن اسرائیل کا قطر پر حملہ امریکا بھارت پاکستان اسامہ بن لادن کہ پاکستانی پاکستان نے پاکستان کو کہ پاکستان آپریشن کیا ایسا نہیں امریکی ا نہیں کر نہیں کہ ہیں اور کے ساتھ اور اس یہ بھی ہیں کہ کے لیے اس لیے کے پاس ہے اور

پڑھیں:

قطر تنہا نہیں، عرب اور اسلامی دنیا اس کے ساتھ ہے، سیکریٹری جنرل عرب لیگ

عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل احمد ابوالغیط نے اتوار کو اسرائیل کے خلاف سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جرم پر خاموشی مزید جرائم کا راستہ ہموار کرتی ہے۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں عرب اور اسلامی ممالک کے ہنگامی سربراہی اجلاس سے ایک روز قبل تیاری اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ابوالغیط نے کہا کہ یہ اجلاس اپنے آپ میں ایک طاقتور پیغام ہے کہ قطر تنہا نہیں، عرب اور اسلامی دنیا اس کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے اقدامات 2 سال سے غزہ میں جاری نسل کشی پر عالمی برادری کی خاموشی کا نتیجہ ہیں جس نے قابض قوت کو بے خوف بنا دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قطر پر اسرائیلی حملہ: سلامتی کونسل کی مذمت، قطری وزیراعظم کا دوٹوک مؤقف

یہ اجلاس قطر کی جانب سے اس وقت طلب کیا گیا جب اسرائیل نے 9 ستمبر 2025 کو دوحہ میں حماس کے متعدد رہنماؤں کی رہائش گاہوں کو نشانہ بناتے ہوئے غیر معمولی فضائی حملہ کیا تھا۔

قطر کی وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری کے مطابق آج بروز پیر ہونے والے اجلاس میں اسرائیلی حملے کے خلاف ایک قرارداد پر غور کیا جائے گا۔

قطر کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے اسی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ دوہرے معیار ترک کرے اور اسرائیل کو اس کے جرائم پر سزا دے۔

مزید پڑھیں: قطر پر حملہ: برطانوی وزیراعظم اور اسرائیلی صدر کے درمیان ملاقات ’جھڑپ‘ میں بدل گئی

’وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری اسرائیل کو اس کے تمام جرائم پر جوابدہ بنائے، ہمارے فلسطینی بھائیوں کے خلاف جاری نسل کشی، جس کا مقصد انہیں اپنی سرزمین سے بے دخل کرنا ہے، کامیاب نہیں ہوگی۔‘

شیخ محمد کے مطابق یہ فضائی حملہ، جس میں چھ افراد جاں بحق ہوئے، دراصل ثالثی کے اصول پر ہی حملہ تھا کیونکہ اصل ہدف حماس کے امن مذاکراتی رہنما تھے۔

’اسرائیلی حملے کو ریاستی دہشتگردی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا، یہ موجودہ انتہا پسند اسرائیلی حکومت کا وہ رویہ ہے جو کھلے عام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔‘

مزید پڑھیں: دوحا میں اسرائیلی حملہ قطر کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے، انتونیو گوتریس

انہوں نے مزید کہا کہ یہ بزدلانہ اور خطرناک اسرائیلی جارحیت اس وقت کی گئی جب قطر سرکاری اور عوامی سطح پر جنگ بندی کے مذاکرات کی میزبانی کر رہا تھا، جس کی اطلاع اسرائیلی فریق کو بھی تھی۔

دریں اثنا مصری وزیر خارجہ بدر عبدالطیف نے سعودی عرب، ترکیہ اور پاکستان کے وزرائے خارجہ سے رابطہ کیا۔

مصر کی وزارت خارجہ کے مطابق یہ بات چیت بحران کے جائزے اور خطے کو درپیش شدید سیاسی و سکیورٹی چیلنجز سے نمٹنے کے طریقوں پر مرکوز رہی۔

مزید پڑھیں: اسرائیل کو جنگی جرائم پر جوابدہ ٹھہرایا جائے، پاکستان نے عرب اسلامی ٹاسک فورس بنانے کی تجویز دیدی

وزرائے خارجہ نے عرب و اسلامی اتحاد پر زور دیا اور مشترکہ مفادات کے تحفظ و استحکام کے لیے مستقل رابطوں کی اہمیت پر اتفاق کیا۔

ہنگامی اجلاس میں ایران کے صدر مسعود پزیشکیان، عراق کے وزیراعظم محمد شیاع السودانی اور فلسطینی صدر محمود عباس کی شرکت متوقع ہے۔

ترک میڈیا کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کی شرکت بھی متوقع ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ابوالغیط بدر عبدالطیف حماس دوحہ سیکریٹری جنرل عرب لیگ فلسطینی صدر محمد شیاع السودانی محمود عباس مسعود پزیشکیان مصری وزیر خارجہ

متعلقہ مضامین

  • مسلمان مشرقی یروشلم کے حقوق سے کبھی دستبردار نہیں ہوں گے، ترک صدر
  • مشاہد حسین سید کا پاکستان کو بھارت کے ساتھ نہ کھیلنے کا مشورہ
  • دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
  • ایک شخص نے اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے پی ٹی آئی کو کرش کیا، عدلیہ کو اپنے ساتھ ملالیا، عمران خان
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • بطور ایٹمی طاقت پاکستا ن مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے ،کسی کو بھی پاکستان کی خود مختاری چیلنج نہیں کرنے دیں گے،اسحاق ڈار
  • افغانستان کے لوگوں کو نکالنے سے دہشتگردی ختم نہیں ہوگی، عمران خان
  • افغانستان کے لوگوں کو نکالنے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوگی، عمران خان
  • صدر ٹرمپ کی واشنگٹن ڈی سی میں قومی ایمرجنسی نافذ کرنے کی دھمکی
  • قطر تنہا نہیں، عرب اور اسلامی دنیا اس کے ساتھ ہے، سیکریٹری جنرل عرب لیگ