قطری وزیراعظم کی آج امریکی صدر ٹرمپ سے اہم ملاقات، اسرائیلی حملے اور غزہ سیز فائر پر بات چیت ہوگی
اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT
واشنگٹن: قطر کے وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی آج امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے جس میں اسرائیلی حملے کی مذمت، غزہ میں سیز فائر معاہدہ اور یرغمالیوں کی رہائی جیسے اہم امور پر گفتگو ہوگی۔
غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق قطری وزیراعظم کی امریکی نائب صدر جے ڈی وینس، وزیر خارجہ مارکو روبیو اور نمائندہ خصوصی اسٹیو وٹکوف سے بھی الگ الگ ملاقاتیں متوقع ہیں۔
ذرائع کے مطابق ملاقات میں 9 ستمبر کو دوحہ پر ہونے والے اسرائیلی حملے کے بعد کی صورتحال اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے پر پیشرفت پر بھی بات ہوگی۔
یاد رہے کہ سلامتی کونسل نے حال ہی میں اسرائیل کا نام لیے بغیر قطر پر ہونے والے حملے کی متفقہ طور پر مذمت کی تھی۔
اجلاس سے خطاب میں قطری وزیراعظم نے کہا تھا کہ اسرائیل نے دوحہ پر حملہ کرکے سفارتکاری کی توہین کی ہے اور وہ غزہ میں امن قائم کرنے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنا چاہتا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ قطر اپنا ثالثی کردار اور انسانی کوششیں کسی ہچکچاہٹ کے بغیر جاری رکھے گا۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
دوحا میں اسرائیلی حملے سے 50 منٹ قبل ٹرمپ باخبر تھے، امریکی میڈیا کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی میڈیا کی تازہ رپورٹ نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحا پر اسرائیلی میزائل حملے کی منصوبہ بندی اور اطلاع محض 50 منٹ پہلے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک پہنچ چکی تھی، لیکن صدر نے اس موقع پر کوئی عملی قدم اٹھانے کے بجائے خاموشی اختیار کی۔
اس انکشاف نے نہ صرف امریکا کے کردار پر سوالات اٹھا دیے ہیں بلکہ اس بات کو مزید اجاگر کیا ہے کہ واشنگٹن کے ناراضی بھرے بیانات محض دنیا کو دکھانے کے لیے تھے، حقیقت میں حملے کو روکنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی۔
امریکی ذرائع ابلاغ نے 3 اعلیٰ اسرائیلی حکام کے حوالے سے بتایا کہ تل ابیب کی قیادت نے حماس رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے کیے جانے والے حملے کی خبر براہِ راست صدر ٹرمپ تک پہنچائی تھی۔ پہلے یہ اطلاع سیاسی سطح پر صدر کو دی گئی اور پھر فوجی چینلز کے ذریعے تفصیلات شیئر کی گئیں۔
اسرائیلی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اگر امریکا سخت مخالفت کرتا تو اسرائیل دوحا پر حملے کا فیصلہ واپس بھی لے سکتا تھا، لیکن چونکہ واشنگٹن نے کوئی مزاحمت نہ کی، اس لیے اسرائیلی قیادت نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنا دیا۔
یہ بھی بتایا گیا کہ امریکا نے دنیا کے سامنے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ حملے پر خوش نہیں تھا۔ وائٹ ہاؤس نے بعد ازاں یہ موقف اختیار کیا کہ جب اسرائیلی میزائل فضا میں داغے جا چکے تھے تب اطلاع موصول ہوئی، اس لیے صدر ٹرمپ کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا تھا، لیکن میڈیا کے انکشافات نے اس وضاحت کو مشکوک بنا دیا ہے، کیونکہ اگر صدر واقعی 50 منٹ پہلے ہی آگاہ ہو چکے تھے تو ان کے پاس اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے کافی وقت موجود تھا۔
یاد رہے کہ 9 ستمبر کو دوحا میں ہونے والے میزائل حملے میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس پر عالمی سطح پر شدید ردِعمل سامنے آیا۔
عرب ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس حملے کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور اسرائیل کو قابض قوت قرار دیتے ہوئے امریکی کردار کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ فلسطینی عوام پہلے ہی اسرائیلی جارحیت کا شکار ہیں، ایسے میں قطر جیسے ملک پر حملے نے خطے کو مزید غیر مستحکم کرنے کا تاثر پیدا کیا ہے۔