زرعی و ماحولیاتی ایمرجنسی، پیپلز پارٹی کا خیرمقدم، فوری امداد اور عالمی اپیل کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT
پاکستان پیپلز پارٹی نے وزیراعظم کی جانب سے زرعی اور ماحولیاتی ایمرجنسی کے اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔
پارٹی کی نائب صدر سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ یہ اعلان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے مطالبے کے عین مطابق ہے۔
سینیٹ میں قرارداد جمعسینیٹر شیری رحمان نے سینیٹ میں سیلاب اور زرعی ایمرجنسی کے حوالے سے قرارداد جمع کرا دی۔
یہ بھی پڑھیں:وفاقی کابینہ کا اجلاس، ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی کے نفاذ کی اصولی منظوری
قرارداد میں متاثرہ خاندانوں اور کسانوں کو بی آئی ایس پی کے تحت فوری نقد امداد فراہم کرنے پر زور دیا گیا۔
متاثرین کے لیے فوری نقد امداد کا مطالبہشیری رحمان نے کہا کہ سیلاب متاثرین کو نقد امداد میں تاخیر ناقابل قبول ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2022 ماڈل کے مطابق براہِ راست امداد متاثرہ خاندانوں تک پہنچنی چاہیے۔
عالمی برادری سے مدد لینے پر زورپیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت سے اقوام متحدہ کے تحت عالمی برادری سے فوری فلیش اپیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سیلاب سے بے پناہ جانی اور اقتصادی نقصان ہوا، وزیراعظم کا ملک میں موسمیاتی اور زرعی ایمرجنسی کا اعلان
شیری رحمان نے کہا کہ عالمی امداد حاصل کرنے میں تاخیر قابل مذمت ہے، چاہے عالمی برادری کا ردعمل کچھ بھی ہو۔
سیلاب سے تباہی اور زرعی نقصانشیری رحمان نے انکشاف کیا کہ اب تک ایک ہزار سے زائد افراد جاں بحق اور تقریباً 58 لاکھ متاثر ہو چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں 60 فیصد چاول، 35 فیصد کپاس اور 30 فیصد گنے کی فصلیں تباہ ہوئیں جبکہ 13 لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی زمین دریاؤں کے ساتھ بہہ گئی۔
انسانی بحران اور ماحولیاتی خطراتپیپلز پارٹی رہنما کے مطابق سیلاب اور فصلوں کی تباہی نے غذائی قلت، بیماریوں، بے روزگاری اور افراط زر کے خطرات کو بڑھا دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے اقوام متحدہ سے رجوع اور زرعی ایمرجنسی نافذ کی جائے، بلاول بھٹو
انہوں نے کہا کہ پاکستان معمولی گرین ہاؤس گیس اخراج کے باوجود دنیا کا سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے، اس لیے ماحولیاتی انصاف کے اصولوں کے تحت عالمی امداد کا مستحق ہے۔
فوری اقدامات کی ضرورتشیری رحمان نے زور دیا کہ حکومت کو متاثرہ خاندانوں اور کسانوں کو فوری نقد امداد فراہم کرنی چاہیے، بجلی کے بل معاف کیے جائیں اور متاثرہ علاقوں میں طبی سہولتیں اور ادویات مہیا کی جائیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلاول بھٹو پاکستان پیپلز پارٹی زرعی ایمرجنسی سیلاب.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلاول بھٹو پاکستان پیپلز پارٹی زرعی ایمرجنسی سیلاب اور زرعی ایمرجنسی پیپلز پارٹی نے کہا کہ
پڑھیں:
سیلاب زدگان کی فوری امداد
پاکستان کی معیشت ایک بار پھر قدرتی آفات کے سامنے کھڑی ہے۔ رات کے وقت جب خیموں میں یہ خوف طاری ہوتا ہے کہ اندھیرے میں کہیں کوئی سانپ نہ آجائے، بوڑھا کسان جب یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اس کی ساری زندگی کی جمع پونجی کو بھارتی آبی جارحیت نے لوٹ لیا، اس کے کھیتوں میں کھڑی فصل ڈوب گئی ہے، وہ جس کنارے پر بیٹھا ہے، چند انچ نیچے سیلابی پانی موجود ہے، خطرہ ہے کہ مزید سیلابی پانی آ گیا تو یہ کیمپ بھی ڈوب جائیں گے۔
روزنامہ ایکسپریس کی اس خبر پر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے جس میں یہ چھپا تھا کہ بھارت نے پھر پانی چھوڑ دیا ہے، جنوبی پنجاب میں ہر طرف تباہی، مزید 8 افراد ڈوب گئے، جلال پور پیر والا میں موٹروے کا حصہ بہہ گیا۔
متاثرین کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے، ریلے سکھر میں داخل، مزید دیہات ڈوب گئے، ایسے میں کسان سوچ رہا ہوگا کہ میرا تو سب کچھ نقصان ہو گیا اور ایسا نقصان جسے وقتی نہیں کہا جا سکتا۔ یہ تو میرے کئی عشرے کھا جائے گا، کیوں کہ یہ نقصان اب قلیل مدت کا نہیں رہا، یہ تو کئی سالوں کے مضر اثرات والا ہے۔
ایسے میں کسی نے اسے تسلی دی ہوگی کہ اسٹیٹ بینک نے اپنی تازہ رپورٹ میں یوں کہا ہے کہ سیلاب نے پاکستان کی معیشت کو قلیل مدتی طور پر متاثر کیا ہے۔ کسان کی پیشانی کی لکیروں پر ارتعاش پیدا ہوا۔ چہرہ فق ہونے لگا، سانس لینے میں دشواری محسوس کر رہا تھا۔
اسے معلوم نہیں کہ یہ پاکستان کی معیشت کی بات ہو رہی ہے۔ ٹھیک ہے اس کی معیشت اجڑ گئی، کھیتوں کی لہلہاتی فصلیں زمین میں دفن ہوکر رہ گئیں، مال مویشی اس سے جدا ہو گئے، کئی عزیز و اقارب پانی کی نذر ہوگئے، ایسے میں یہ خبر بھی مزید پریشانی کا باعث تھی کہ بھارت نے پھر پانی چھوڑ دیا۔ مزید 8 افراد ڈوب گئے۔
اسٹیٹ بینک نے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے کا امکان ظاہرکیا ہے۔ 2010 میں جو سیلاب آیا تھا، اس نے بڑی تباہی مچائی تھی، اس وقت سیلاب کا نقصان10 ارب ڈالر بتایا گیا تھا۔
ہ سیلاب اس سے کہیں زیادہ پیمانے پر ہے، بہت سے افراد کا بالکل صحیح خیال ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں ایسا سیلاب نہیں دیکھا۔ اتنا زیادہ پانی، اتنا نقصان، اتنے سانپ، اتنی اموات، ہر طرف پانی ہی پانی، پانی کا ایک ریلا گزرتا نہیں، بھارت دوسرا ریلا چھوڑ دیتا ہے۔
15 تاریخ کو ایک اور بہت بڑا ریلا چھوڑ دیا، یہ سیلاب کوئی معمولی نقصان، وقتی نقصان، قلیل مدتی متاثر کن نہیں ہے اس نے مستقبل اجاڑ کر رکھ دیا ہے۔ مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگا، برآمدات کم ہوں گی اور غذائی درآمدات میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگا۔
اس سیلاب نے کپاس کی فصل بالکل ہی تباہ کر کے رکھ دی ہے، ہماری مجموعی برآمدات میں ٹیکسٹائل برآمدات کا حصہ 55 سے 60 فی صد تک بنتا ہے، اب کارخانوں کی شفٹیں کم ہوں گی، بے روزگاری بھی بڑھے گی۔
گزشتہ مالی سال 32 ارب ڈالرکی برآمدات کے مقابلے میں پاکستان پھر پیچھے جا کر 25 ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کر پائے گا اور درآمدات 58 ارب ڈالر سے بڑھ کر 65 ارب ڈالر سے زائد ہو سکتی ہے۔
اس طرح تجارتی خسارہ بڑھ کر رہے گا۔ حکومت اسے وقتی نقصان کہتی رہے لیکن عالمی موسمیاتی تبدیلی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ یہ اب مستقل کا معاملہ اختیار کر چکا ہے۔ پہلے سے بھی کہیں زیادہ تیاری کرنا ہوگی۔ ابھی ہم اس سیلاب کے نقصان کو برسوں تک پھیلا ہوا دیکھ رہے ہیں، لیکن موسمیاتی تبدیلی جس نے پاکستان کے پہاڑوں، گلیشیئروں، دریاؤں، کھیتوں کا مستقل رخ کر لیا ہے اور پاکستان کو ہی اپنے نشانے پر رکھ لیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آنے والے کئی عشروں کے خواب ڈبو دیے ہیں۔ ہمیں سنبھلنا پڑے گا، وقتی نقصان قرار دینے کے علاوہ عملاً مستقبل کے لیے بھرپور تیاری کرنا ہوگی۔ 2022 میں جن علاقوں سے سیلاب ہو کرگزرگیا تھا، وہاں کے کسان مدتوں تک اپنے کھیتوں سے پانی نکالنے کے لیے حکومتی پلان کا انتظار کرتے رہے۔ یہ سب سستی کاہلی ہماری معاشی ناتوانی، منصوبہ بندی کا فقدان اور بہت کچھ ظاہر کرتی ہے۔
اس مرتبہ سیلاب کے اترنے کے فوری بعد تمام زمینوں کو کاشت کے قابل بنا کر دینا، ہر صوبائی اور وفاقی حکومت کی بھی ذمے داری ہے۔ سڑکیں جس طرح ٹوٹ پھوٹ کر گڑھوں کی شکل اختیارکرچکی ہیں ان کی فوری تعمیر کی ضرورت ہے۔
ہماری حکومت تنقید کے جواب میں اپنی توانائی ضایع کرتی ہے حکومت چاہے صوبائی ہو یا مقامی انتظامیہ، وہ سب اپنی پھرتی، کارکردگی دکھائیں تو جواب عملی طور پر سامنے آجائے گا۔ اس وقت پوری قوم مشکل میں ہے اور جنوبی پنجاب اور سندھ کے کئی اضلاع سیلاب کی شدید لپیٹ میں آ چکے ہیں۔
مخیر حضرات اب آگے بڑھیں، خاص طور پر اشرافیہ اپنی بڑی بڑی دیوہیکل گاڑیاں لے کر ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور گڑھوں کو عبور کرتے ہوئے خوراک، ادویات،کپڑے، جوتے، مچھردانیاں اور ضرورت کا بہت سا سامان، خاص طور پر پکا پکایا کھانا یہ سب لے کر ضرورت مندوں، بھوکوں کو لے جا کر دیں اور یہ ثواب کمانے کا نادر موقعہ ہے۔