Express News:
2025-09-18@21:29:25 GMT

ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی کا نفاذ

اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT

وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی لگانے کا اعلان کردیا ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم راتوں رات موسمیاتی تبدیلیوں سے نہیں نمٹ سکتے، بہت بڑے چیلنجز ہیں، سیلاب سے زراعت میں نقصانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے، اس کو کابینہ میں لایا جائے گا۔

 پاکستان میں حالیہ سیلاب نے زراعت کے شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ پاکستان کا زرعی شعبہ ملک کی معاشی ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے اور جی ڈی پی میں اضافے کے لحاظ سے یہ ہماری معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی مانا جاتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے اس شعبے پر بہت منفی اثرات ڈالے ہیں۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے باعث ملک کو فوڈ سیکیورٹی کا خدشہ لاحق ہے۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اب تک پنجاب میں 21 لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی رقبہ سیلاب کی نذر ہو چکا ہے۔ سیلاب کے نتیجے میں چاول، کپاس،گنے اور مکئی کی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ یہ فصلیں نہ صرف قومی غذائی ضروریات کے لیے اہم تھیں بلکہ ان کے ساتھ کسانوں کے خواب جڑے تھے، جو ان فصلوں کے ساتھ ہی پانی میں بہہ گئے ہیں۔ ان فصلوں کی بربادی سے ملکی معیشت پر کاری ضرب لگے گی۔

کپاس کی تباہی ٹیکسٹائل سیکٹر کو متاثر کرے گی، جس کا شمار کلیدی برآمدی شعبوں میں ہوتا ہے۔ چاول کی فصل کی بربادی نہ صرف برآمدات بلکہ ملکی غذائی ضروریات پر بھی اثر انداز ہوگی۔ سبزیوں کی تباہی کا مطلب ہے کہ اب ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو گا جس سے یہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گی۔ کسان پہلے ہی قرضوں، کھاد، ڈیزل اور بجلی کے بلوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے، اب ان کے پاس فصل رہی نہ مویشی۔ اب تک ہزاروں مویشی سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں۔

یہ جانور کسانوں کی جمع پونجی تھے۔ سیلاب کی وجہ سے کسان کی زندگی اجڑ گئی ہے، جس کے ان کی ذہنی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہوتے نظر آتے ہیں۔ عالمی تخمینوں کے مطابق معیشت کو 409 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان پہنچ چکا ہے۔

 موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے زرعی شعبے کی تباہی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نہ صرف انسانی معاش میں خلل ڈال رہے ہیں بلکہ مختلف ماحولیاتی عوامل کو بھی بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ اندازوں کے مطابق 2050 تک پاکستان میں گندم اور چاول جیسی اہم فصلوں کی پیداوار بالترتیب 14.

7 فیصد اور 20 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔یہ حقیقت ہے کہ معیشت کی شرح نمو میں ریکارڈ کمی بھی زرعی شعبے کی بدحالی کی وجہ سے ہی ہوئی ہے۔

دوسری طرف ہماری زرخیز زمینوں پر دھڑا دھڑ رہائشی اسکیمیں بننے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ رقبے پر فصلیں کاشت ہونے کی بجائے وہاں گھر ہی گھر بن رہے ہیں۔ آخر زراعت کی اس تباہی کے منظر کو ہم کب تک برداشت کرتے رہیں گے؟ ہماری وفاقی، صوبائی حکومتیں اور متعلقہ ادارے ہماری سونا اُگلتی زرخیز زمینوں پر رہائشی اسکیموں کی یلغار کو روکنے کے لیے کب عملی اقدامات اور قانون سازی کریں گے؟ اگر زرعی اراضی کی بربادی کرنے والے رہائشی منصوبے اسی تیز رفتاری سے جاری رہے تو یہ ہماری زراعت اور اراضی کو کھا جائیں گے۔

یہ بات تکلیف دہ ہے کہ حکومتی ذرائع اور زرعی ماہرین کے بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود ہماری مختلف فصلوں، سبزیوں اور پھلوں کی فی ایکڑ پیداوار اس خطے کے ممالک سے کہیں کم ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے کسانوں کے فی ایکڑ پیداواری اخراجات بے حد زیادہ ہیں جب کہ ان کی فی ایکڑ آمدن بے حد کم ہے جس سے زراعت کا ہمارا بنیادی ستون کسان بے حد مالی مشکلات اور تنگدستی کا شکار ہے۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ حکومت ان کے مسائل کو حل کرنے اور زراعت کو ترقی دینے کے لیے عملاً کچھ بھی نہیں کرتی ۔ گزشتہ 10 سالوں کے دوران مختلف فصلوں اور سبزیوں کی کتنی نئی اقسام دریافت ہوئیں اور ان کے بیج جن کی پیداواری صلاحیت بھی زیادہ ہے اور وہ بیماریوں کے خلاف زبردست قوت مدافعت رکھتی ہیں۔ وہ ہمارے ہاں استعمال نہیں ہوئیں۔

سوال یہ ہے کہ حکومت اور اس کے اداروں نے حقیقتاً کسانوں کو مختلف فصلوں کا کتنا تصدیق شدہ بیج فراہم کیا؟ بیج کھاد، زرعی ادویات اور ڈیزل میں ملاوٹ کے خاتمے کے لیے کیا عملی اقدامات کیے؟ ان اہم زرعی مداخل کی ذخیرہ اندوزی چور بازاری اور منافع خوری روکنے کے لیے کیا کچھ کیا؟ ہمارے کسانوں کو خالص اور ملاوٹ سے پاک بیج، کھاد، زرعی ادویات، ڈیزل اور زرعی مشینری سستے داموں فراہم کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے۔ بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے کاشتکاروں کو ان کی آباد کاری، زراعت کو بحال کرنے اور ان کے نقصانات کے ازالے کے لیے جو دعوے کیے جارہے ہیں، ان پر کس قدر عملدرآمد ہوگا؟

کسانوں کے حوالے سے ایک اور بنیادی مشکل یہ ہے کہ اْن کے پاس نہ تو فصل کا بیمہ ہے اور نہ ہی حکومت کی طرف سے زرعی سامان پر مناسب سبسڈی، بلکہ مہنگے زرعی مداخل، پیداواری لاگت میں بے تحاشا اضافہ اور پیداوار کی ارزاں قیمت نے چھوٹے کسانوں کی مشکلات دوچند کردی ہیں۔

کاشتکاری سے جڑے مسائل میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میںکاشت ہونے والی فصلوں کی بیمہ پالیسی نہیں، سال 2018 میں پنجاب کے چند اضلاع میں فصلوں کی انشورنس (بیمہ) کا ایک آزمائشی منصوبہ محدود علاقے میں شروع کیا گیا تھا۔ بیمہ کمپنیاں اور بینک فصلوں کی بیمہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں حالانکہ پنجاب بھر کے علاوہ اِسے دوسرے صوبوں تک بھی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی طرف سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تعاون سے 2008 میں ایک ملک گیر قرض کی بیمہ اسکیم برائے فصل شروع کی گئی تھی۔ تاہم یہ بیمہ صرف قرضوں کی قیمت تک محدود ہے اور ان کی فصلوں کو ہونے والے مجموعی نقصان کو پورا نہیں کرتا۔

زراعت کو پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے بنیادی قدرتی وسائل قابل کاشت زمین اور پانی ہیں۔ زراعت پاکستان کی جی ڈی پی کا تقریباً 18.9 فیصد ہے اور تقریباً 42.3 فیصد افرادی قوت کو روزگار دیتی ہے۔ سب سیبڑا زرعی صوبہ پنجاب ہے جہاں گندم اور کپاس زیادہ اگائی جاتی ہے۔ آم کے باغات زیادہ تر سندھ اور پنجاب میں پائے جاتے ہیں، جو پاکستان کو دنیا میں آم پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک بناتا ہے۔

کسان اپنے ٹریکٹروں کے ایندھن کے لیے ڈیزل پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ان کی مشکلات کو بڑھاتا رہتا ہے۔ پاکستان پیٹرولیم مصنوعات کا خالص درآمد کنندہ ہے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی بھی پٹرول اور ڈیزل دونوں کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنی ہے، جسے عام آبادی بڑے پیمانے پر استعمال کرتی ہے۔ کسانوں کے لیے یہ پیداواری لاگت میں بڑھاوے کا باعث ہے۔

پاکستان کے زرعی شعبے کو پانی کی کمی، موسمیاتی تبدیلی اور غیر موثر آبپاشی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، لیکن یہ تکنیکی ترقی اور تنوع کے ذریعے ترقی کے امکانات کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ 2025 میں پاکستانی زراعت کے عام مسائل میں پانی کی کمی، فرسودہ فارمنگ ٹیکنالوجی اور زیادہ لاگت شامل ہیں۔ ان کا حل آبپاشی کے نظام کو اپ گریڈ کرنا، کاشتکاری کی جدید تکنیکوں کو اپنانا اور درآمدات پر انحصار کو کم کرنے کے لیے مقامی کھاد کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

ہمارے پاس ڈیم بنانے کے مواقع تھے لیکن ہم نے سب کچھ سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ آج نتیجہ یہ ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو پانی تباہی مچاتا ہے اور جب بارش نہیں ہوتی تو خشک سالی مارتی ہے۔ یہ ہماری اجتماعی مجرمانہ غفلت ہے۔ پاکستان اُن دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ ہمارے ہاں بارشوں کا نظام بگڑ رہا ہے، گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

ملک کے جنوبی علاقوں میں خشک سالی اور شمال میں لینڈ سلائیڈنگ زمین کو اجاڑ رہی ہے۔ اس موسمیاتی تباہی کے باوجود جنگلات کی کٹائی برابر جاری ہے۔ چھوٹے بڑے ڈیمز کی تعمیر پر عملی اقدامات شروع کیے جائیں تاکہ بارش کا پانی تباہی نہیں بلکہ زندگی بنے۔

شجر کاری کو سیاسی نعرے کے بجائے حقیقت بنایا جائے اور قومی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو جدید وسائل اور مکمل اختیارات دیے جائیں، سیلاب سے متاثرہ کسانوں کے قرضے معاف کیے جائیں۔ یاد رہے کہ آنے والی نسلیں سوال کریں گی کہ جب سب کچھ ہمارے سامنے تھا تو ہم نے کچھ کیوں نہ کیا؟ اور شاید اس وقت ہمارے پاس جواب دینے کو کچھ نہ ہو، کیونکہ موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے چیلنجز ملک کی زرعی پیداواری صلاحیت اور مجموعی طور پر غذائی تحفظ کو مسلسل نقصان پہنچا رہے ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلیوں پاکستان کے کسانوں کے اور زرعی سیلاب سے فصلوں کی یہ ہے کہ رہے ہیں ہے اور

پڑھیں:

فشریز ڈیپارٹمنٹ کی پہلی خاتون چیئرپرسن فاطمہ مجید

پاکستان فشر فوک فورم (پی ایف ایف) کی سینیئر نائب چیئرپرسن اور ماحولیاتی کارکن فاطمہ مجید کو سندھ فشریز ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن مقرر کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: باپ کے بھارت کی جیل میں قید ہونے کی تکلیف نہیں بھول سکتی، سندھ فشریز ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ فاطمہ مجید

سندھ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے ایکس پر ایک پوسٹ کے ذریعے بتایا کہ سماجی و ماحولیاتی کارکن فاطمہ مجید کی تعیناتی چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کے سب کو ساتھ لے کر چلنے اور سندھ حکومت کے خواتین کو بااختیار بنانے کے عزم کے تحت کی گئی ہے۔

مزید پڑھیے: دریائے نیلم کی ٹراؤٹ مچھلی میں جینیاتی تبدیلی کا انکشاف

اعلان میں کہا گیا کہ فاطمہ مجید ماہی گیر برادری سے تعلق رکھنے والی پہلی خاتون ہیں جو اس اہم شعبے کی سربراہی کر رہی ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سندھ فشریز ڈیپارٹمنٹ فاطمہ مجید فشریز ڈیپارٹمنٹ

متعلقہ مضامین

  • پیپلزپارٹی کا پنجاب میں زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے اور عالمی برادری سے مدد لینے کا مطالبہ
  • وزیرتجارت کی ایران کے وزیر زراعت غلام رضا نوری سے ملاقات، دونوں ممالک کے درمیان زرعی تعاون بڑھانے پراتفاق
  • سیلاب سے متاثرہ کاشتکاروں کی مدد کررہے ہیں‘ وزیراعلیٰ سندھ
  • سندھ میں زرعی شعبے کو محفوظ بنانے کا منصوبہ تیارہے‘سردارمحمد بخش مہر
  • سندھ حکومت کا کسانوں کیلئے معاونتی پیکج تیار، اعلان آئندہ ہفتے ہوگا
  • سندھ حکومت نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے کسانوں کی تربیت شروع کر دی
  • سندھ حکومت نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے کسانوں کی تربیت شروع کردی
  • سندھ:موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور زرعی شعبے کو محفوظ بنانے کیلئے جامع منصوبہ تیار
  • فشریز ڈیپارٹمنٹ کی پہلی خاتون چیئرپرسن فاطمہ مجید
  • کسانوں پر زرعی ٹیکس کے نفاذ پر اسپیکر پنجاب اسمبلی برہم