Express News:
2025-11-03@07:52:05 GMT

ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی کا نفاذ

اشاعت کی تاریخ: 12th, September 2025 GMT

وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی لگانے کا اعلان کردیا ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہم راتوں رات موسمیاتی تبدیلیوں سے نہیں نمٹ سکتے، بہت بڑے چیلنجز ہیں، سیلاب سے زراعت میں نقصانات کا جائزہ لیا جا رہا ہے، اس کو کابینہ میں لایا جائے گا۔

 پاکستان میں حالیہ سیلاب نے زراعت کے شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ پاکستان کا زرعی شعبہ ملک کی معاشی ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے اور جی ڈی پی میں اضافے کے لحاظ سے یہ ہماری معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی مانا جاتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں نے اس شعبے پر بہت منفی اثرات ڈالے ہیں۔ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے باعث ملک کو فوڈ سیکیورٹی کا خدشہ لاحق ہے۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اب تک پنجاب میں 21 لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی رقبہ سیلاب کی نذر ہو چکا ہے۔ سیلاب کے نتیجے میں چاول، کپاس،گنے اور مکئی کی فصلیں تباہ ہوگئی ہیں۔ یہ فصلیں نہ صرف قومی غذائی ضروریات کے لیے اہم تھیں بلکہ ان کے ساتھ کسانوں کے خواب جڑے تھے، جو ان فصلوں کے ساتھ ہی پانی میں بہہ گئے ہیں۔ ان فصلوں کی بربادی سے ملکی معیشت پر کاری ضرب لگے گی۔

کپاس کی تباہی ٹیکسٹائل سیکٹر کو متاثر کرے گی، جس کا شمار کلیدی برآمدی شعبوں میں ہوتا ہے۔ چاول کی فصل کی بربادی نہ صرف برآمدات بلکہ ملکی غذائی ضروریات پر بھی اثر انداز ہوگی۔ سبزیوں کی تباہی کا مطلب ہے کہ اب ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو گا جس سے یہ عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گی۔ کسان پہلے ہی قرضوں، کھاد، ڈیزل اور بجلی کے بلوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے، اب ان کے پاس فصل رہی نہ مویشی۔ اب تک ہزاروں مویشی سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں۔

یہ جانور کسانوں کی جمع پونجی تھے۔ سیلاب کی وجہ سے کسان کی زندگی اجڑ گئی ہے، جس کے ان کی ذہنی صحت پر سنگین اثرات مرتب ہوتے نظر آتے ہیں۔ عالمی تخمینوں کے مطابق معیشت کو 409 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان پہنچ چکا ہے۔

 موسمیاتی تبدیلی پاکستان کے زرعی شعبے کی تباہی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نہ صرف انسانی معاش میں خلل ڈال رہے ہیں بلکہ مختلف ماحولیاتی عوامل کو بھی بری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ اندازوں کے مطابق 2050 تک پاکستان میں گندم اور چاول جیسی اہم فصلوں کی پیداوار بالترتیب 14.

7 فیصد اور 20 فیصد تک کم ہو سکتی ہے۔ یہ ایک اہم مسئلہ ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔یہ حقیقت ہے کہ معیشت کی شرح نمو میں ریکارڈ کمی بھی زرعی شعبے کی بدحالی کی وجہ سے ہی ہوئی ہے۔

دوسری طرف ہماری زرخیز زمینوں پر دھڑا دھڑ رہائشی اسکیمیں بننے کی وجہ سے لاکھوں ایکڑ رقبے پر فصلیں کاشت ہونے کی بجائے وہاں گھر ہی گھر بن رہے ہیں۔ آخر زراعت کی اس تباہی کے منظر کو ہم کب تک برداشت کرتے رہیں گے؟ ہماری وفاقی، صوبائی حکومتیں اور متعلقہ ادارے ہماری سونا اُگلتی زرخیز زمینوں پر رہائشی اسکیموں کی یلغار کو روکنے کے لیے کب عملی اقدامات اور قانون سازی کریں گے؟ اگر زرعی اراضی کی بربادی کرنے والے رہائشی منصوبے اسی تیز رفتاری سے جاری رہے تو یہ ہماری زراعت اور اراضی کو کھا جائیں گے۔

یہ بات تکلیف دہ ہے کہ حکومتی ذرائع اور زرعی ماہرین کے بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود ہماری مختلف فصلوں، سبزیوں اور پھلوں کی فی ایکڑ پیداوار اس خطے کے ممالک سے کہیں کم ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے کسانوں کے فی ایکڑ پیداواری اخراجات بے حد زیادہ ہیں جب کہ ان کی فی ایکڑ آمدن بے حد کم ہے جس سے زراعت کا ہمارا بنیادی ستون کسان بے حد مالی مشکلات اور تنگدستی کا شکار ہے۔

دکھ کی بات یہ ہے کہ حکومت ان کے مسائل کو حل کرنے اور زراعت کو ترقی دینے کے لیے عملاً کچھ بھی نہیں کرتی ۔ گزشتہ 10 سالوں کے دوران مختلف فصلوں اور سبزیوں کی کتنی نئی اقسام دریافت ہوئیں اور ان کے بیج جن کی پیداواری صلاحیت بھی زیادہ ہے اور وہ بیماریوں کے خلاف زبردست قوت مدافعت رکھتی ہیں۔ وہ ہمارے ہاں استعمال نہیں ہوئیں۔

سوال یہ ہے کہ حکومت اور اس کے اداروں نے حقیقتاً کسانوں کو مختلف فصلوں کا کتنا تصدیق شدہ بیج فراہم کیا؟ بیج کھاد، زرعی ادویات اور ڈیزل میں ملاوٹ کے خاتمے کے لیے کیا عملی اقدامات کیے؟ ان اہم زرعی مداخل کی ذخیرہ اندوزی چور بازاری اور منافع خوری روکنے کے لیے کیا کچھ کیا؟ ہمارے کسانوں کو خالص اور ملاوٹ سے پاک بیج، کھاد، زرعی ادویات، ڈیزل اور زرعی مشینری سستے داموں فراہم کرنے کے لیے کیا اقدامات کیے۔ بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے کاشتکاروں کو ان کی آباد کاری، زراعت کو بحال کرنے اور ان کے نقصانات کے ازالے کے لیے جو دعوے کیے جارہے ہیں، ان پر کس قدر عملدرآمد ہوگا؟

کسانوں کے حوالے سے ایک اور بنیادی مشکل یہ ہے کہ اْن کے پاس نہ تو فصل کا بیمہ ہے اور نہ ہی حکومت کی طرف سے زرعی سامان پر مناسب سبسڈی، بلکہ مہنگے زرعی مداخل، پیداواری لاگت میں بے تحاشا اضافہ اور پیداوار کی ارزاں قیمت نے چھوٹے کسانوں کی مشکلات دوچند کردی ہیں۔

کاشتکاری سے جڑے مسائل میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میںکاشت ہونے والی فصلوں کی بیمہ پالیسی نہیں، سال 2018 میں پنجاب کے چند اضلاع میں فصلوں کی انشورنس (بیمہ) کا ایک آزمائشی منصوبہ محدود علاقے میں شروع کیا گیا تھا۔ بیمہ کمپنیاں اور بینک فصلوں کی بیمہ کاری کرنے سے گریزاں ہیں حالانکہ پنجاب بھر کے علاوہ اِسے دوسرے صوبوں تک بھی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ حکومت کی طرف سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تعاون سے 2008 میں ایک ملک گیر قرض کی بیمہ اسکیم برائے فصل شروع کی گئی تھی۔ تاہم یہ بیمہ صرف قرضوں کی قیمت تک محدود ہے اور ان کی فصلوں کو ہونے والے مجموعی نقصان کو پورا نہیں کرتا۔

زراعت کو پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے بنیادی قدرتی وسائل قابل کاشت زمین اور پانی ہیں۔ زراعت پاکستان کی جی ڈی پی کا تقریباً 18.9 فیصد ہے اور تقریباً 42.3 فیصد افرادی قوت کو روزگار دیتی ہے۔ سب سیبڑا زرعی صوبہ پنجاب ہے جہاں گندم اور کپاس زیادہ اگائی جاتی ہے۔ آم کے باغات زیادہ تر سندھ اور پنجاب میں پائے جاتے ہیں، جو پاکستان کو دنیا میں آم پیدا کرنے والا چوتھا بڑا ملک بناتا ہے۔

کسان اپنے ٹریکٹروں کے ایندھن کے لیے ڈیزل پر انحصار کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ان کی مشکلات کو بڑھاتا رہتا ہے۔ پاکستان پیٹرولیم مصنوعات کا خالص درآمد کنندہ ہے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی بھی پٹرول اور ڈیزل دونوں کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنی ہے، جسے عام آبادی بڑے پیمانے پر استعمال کرتی ہے۔ کسانوں کے لیے یہ پیداواری لاگت میں بڑھاوے کا باعث ہے۔

پاکستان کے زرعی شعبے کو پانی کی کمی، موسمیاتی تبدیلی اور غیر موثر آبپاشی جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، لیکن یہ تکنیکی ترقی اور تنوع کے ذریعے ترقی کے امکانات کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ 2025 میں پاکستانی زراعت کے عام مسائل میں پانی کی کمی، فرسودہ فارمنگ ٹیکنالوجی اور زیادہ لاگت شامل ہیں۔ ان کا حل آبپاشی کے نظام کو اپ گریڈ کرنا، کاشتکاری کی جدید تکنیکوں کو اپنانا اور درآمدات پر انحصار کو کم کرنے کے لیے مقامی کھاد کی پیداوار کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

ہمارے پاس ڈیم بنانے کے مواقع تھے لیکن ہم نے سب کچھ سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ آج نتیجہ یہ ہے کہ جب بارش ہوتی ہے تو پانی تباہی مچاتا ہے اور جب بارش نہیں ہوتی تو خشک سالی مارتی ہے۔ یہ ہماری اجتماعی مجرمانہ غفلت ہے۔ پاکستان اُن دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ ہمارے ہاں بارشوں کا نظام بگڑ رہا ہے، گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں۔

ملک کے جنوبی علاقوں میں خشک سالی اور شمال میں لینڈ سلائیڈنگ زمین کو اجاڑ رہی ہے۔ اس موسمیاتی تباہی کے باوجود جنگلات کی کٹائی برابر جاری ہے۔ چھوٹے بڑے ڈیمز کی تعمیر پر عملی اقدامات شروع کیے جائیں تاکہ بارش کا پانی تباہی نہیں بلکہ زندگی بنے۔

شجر کاری کو سیاسی نعرے کے بجائے حقیقت بنایا جائے اور قومی ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو جدید وسائل اور مکمل اختیارات دیے جائیں، سیلاب سے متاثرہ کسانوں کے قرضے معاف کیے جائیں۔ یاد رہے کہ آنے والی نسلیں سوال کریں گی کہ جب سب کچھ ہمارے سامنے تھا تو ہم نے کچھ کیوں نہ کیا؟ اور شاید اس وقت ہمارے پاس جواب دینے کو کچھ نہ ہو، کیونکہ موسمیاتی تبدیلی سے پیدا ہونے والے چیلنجز ملک کی زرعی پیداواری صلاحیت اور مجموعی طور پر غذائی تحفظ کو مسلسل نقصان پہنچا رہے ہیں۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلیوں پاکستان کے کسانوں کے اور زرعی سیلاب سے فصلوں کی یہ ہے کہ رہے ہیں ہے اور

پڑھیں:

گندم کی قیمت 4700 روپے فی من مقرر کی جائے،سندھ آبادگار بورڈ کا مطالبہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251103-2-14
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)سندھ آبادگار بورڈ نے مطالبہ کیا ہے کہ گندم کی امدادی قیمت 4700 روپے فی من اور گنے کی قیمت 500 روپے فی من مقرر کی جائے۔ بورڈ نے پیاز کی فصل کی تباہی کی بڑی وجہ زرعی تحقیق کی کمی کو بھی قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں سندھ آبادگار بورڈ کا اجلاس صدر محمود نواز شاہ کی زیر صدارت حیدرآباد میں ہوا، جس میں ڈاکٹر محمد بشیر نظامانی، عمران بزدار، محمد اسلم مری، طھ میمن، یار محمد لغاری، ارباب احسن، عبدالجلیل نظامانی، مراد علی شاہ بکیرئی اور دیگر نے شرکت کی۔اجلاس میں کاشتکاروں نے زراعت سے متعلق اہم مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مطلوبہ زرعی تحقیق نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے نئی اور بہتر ٹیکنالوجیز بھی متعارف نہیں ہو رہی اور مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زرعی تحقیق کی کمی کے باعث پیاز کی فصل کی تباہی بھی اس کی واضح مثال ہے۔۔اجلاس کو بتایا گیا کہ اکتوبر اور نومبر میں پیدا ہونے والی پیاز نہ صرف سال بھر کی مقامی طلب پوری کر رہی تھی بلکہ برآمد بھی کی جا رہی تھی۔ لیکن گزشتہ تین سالوں سے اکتوبر اور نومبر میں پیاز کی فصل تباھ ہوتی رہی اور اس مسئلے کے حل کے لیے نہ تو تحقیق کی گئی اور نہ ہی اسے بچانے کے لیے کوئی اور موثر اقدامات کیے گئے، جس کی وجہ سے کسانوں کی اکثریت نے پیاز اگانا بند کر دی۔ نتیجتا پاکستان کو اب پیاز برآمد کرنے کی بجائے مزید درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔سندھ آبادگار بورڈ نے کہا ہے کہ زراعت میں مسلسل تحقیق اور ترقی ضروری ہے، کیونکہ کم پیداوار، فصل سے پہلے اور بعد میں ہونے والے نقصانات اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ مضبوط زرعی تحقیق کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ زراعت کو پائیدار رکھنا بہت ضروری ہے۔سندھ آبادگار بورڈ کا مزید کہنا تھا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے پیداواری لاگت میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اگر زرعی مصنوعات کی قیمتیں بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت کو پورا نہیں کرتیں تو ان کی کاشت معاشی طور پر ناقابل عمل ہو جائے گی۔ اس لیے زرعی معیشت کو بچانے کے لیے زرعی اجناس کی کم از کم امدادی قیمت کا تعین کرنا بہت ضروری ہے۔ اجلاس میں سندھ آبادگار بورڈ نے مطالبہ کیا کہ گندم کی فی من امدادی قیمت 4700 روپے اور گنے کی قیمت 500 روپے فی من مقرر کی جائے یہ امدادی قیمتیں کاشت کی لاگت اور کسانوں کے معقول منافع کو مدنظر رکھتے ہوئے طئے کی گئی ہیں۔ جہاں زرعی مصنوعات کی مفت برآمد کی اجازت نہیں ہے وہاں حکومت سپورٹ پرائس مقرر کرے۔سندھ آبادگار بورڈ نے گندم کی کاشت کے لیے چھوٹے کاشتکاروں کو ڈی اے پی اور یوریا کھاد فراہم کرنے کے حوالے سے سندھ حکومت کے اقدام کو بھی سراہا اور کہا کہ اس پروگرام کی کامیابی کا دارومدار کسانوں کے لیے دیگر متعلقہ امور میں سہولت فراہم کرنے پر ہے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • ترکیہ میں غزہ امن منصوبے پر مشاورتی اجلاس آج، پاکستان جنگ بندی کے مکمل نفاذ اور اسرائیلی فوج کے انخلاکا مطالبہ کرےگا
  • ترکیہ، غزہ امن منصوبے پر مشاورتی اجلاس، پاکستان جنگ بندی کے مکمل نفاذ اور اسرائیلی فوج کے انخلا کا مطالبہ کریگا
  • لاہور: وفاقی وزیر ماحولیاتی مصدق ملک پاکستان ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کالج میں مینجمنٹ کورس کی گریجویشن تقریب میں سرٹیفکیٹ تقسیم کررہے ہیں
  • گندم کی قیمت 4700 روپے فی من مقرر کی جائے،سندھ آبادگار بورڈ کا مطالبہ
  • مودی کی ناکام زرعی پالیسیاں
  • ماحولیاتی و آفات سے متعلق صحافت، دو روزہ قومی تربیتی ورکشاپ نے صحافیوں کو موسمیاتی شعور پر مبنی رپورٹنگ کیلئے بااختیار بنایا
  • گورنر پنجاب کی کسانوں سے ملاقات، سیلاب سے متاثرہ فصلوں اور مالی مشکلات پر تبادلہ خیال
  • پاکستان اور کینیڈا کا ہائبرڈ بیج، لائیو اسٹاک کی افزائش میں تعاون بڑھانے پر غور
  • ایشیائی ترقیاتی بینک اور گرین کلائمٹ فنڈ پاکستان کے لیے موسمیاتی موافقت کے منصوبے کی منظوری
  • کراچی میں ٹریفک چالان سے حاصل رقم صوبے کے زرعی ٹیکس سے بھی زیادہ