وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے مطابق خیبر پختونخوا کا وفد افغانستان جانے کے لئے تیار ہے اور وفاق نے بھی آمادگی ظاہر کی ہے۔

علی امین کے مطابق افغانستان سے مذاکرات کے لیے اس بار وفاقی حکومت کی حمایت حاصل ہوگی اور وفاق چاہے تو ان کے نمائندے بھی ساتھ جا سکتے ہیں، جبکہ ان کی اپنی تیاری مکمل ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت کا وفاق سے بات چیت کا معاملہ کب شروع ہوا؟

گزشتہ سال ستمبر میں وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے بار کونسل کی تقریب میں صوبے کے امن و امان پر بات کی اور صوبے میں امن کے لیے افغانستان کو اعتماد میں لینے کو اہم قرار دیا اور اعلان کیا کہ ان کی حکومت وفاق کے بغیر ہی افغانستان سے بات کرے گی اور قیام امن کے لیے کوششیں ہوں گی۔

مزید پڑھیں: کالا باغ ڈیم ریاست کی ضرورت، وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور نے کھل کر منصوبے کی حمایت کردی

علی امین کے اعلان پر انھیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا جبکہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں خطاب کے دوران اسے وفاق پر حملہ قرار دیا تھا۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ کوئی بھی صوبہ وفاق کے بغیر کسی دوسرے ملک سے براہ راست بات نہیں کر سکتا۔

اسی دوران علی امین نے افغان سفارتکاروں سے بھی ملاقاتیں کیں۔ خیبر پختونخوا حکومت نے افغانستان سے مذاکرات کے لیے وفاق سے بھی رابطہ کیا اور وفاق کے کہنے پر ٹی او آرز بنا کر بھی وفاق کو ارسال کیے۔

صوبائی حکومت کے مطابق ابھی تک اس کا جواب نہیں آیا، جبکہ ٹی او آرز میں کیا شامل ہے، اس حوالے سے صوبہ اور وفاق دونوں خاموش ہیں۔

صوبے اور وفاق میں سیاسی اختلافات اور شدید تناؤ کے باعث بات آگے نہیں بڑھی۔ تاہم اب علی امین نے تصدیق کی ہے کہ وفاق نے افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔

جرگہ تشکیل، کون کون شامل؟

علی امین گنڈاپور کے مطابق صوبائی حکومت نے جرگہ تشکیل دیا ہے جبکہ صوبائی حکومت کی تیاری مکمل ہے۔ انھوں نے کہا کہ ان کا پاسپورٹ بلاک ہے لیکن ضرورت پڑی تو وہ بغیر پاسپورٹ بھی جا سکتے ہیں اور جانے کو تیار ہیں۔ تاہم انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ وفد یا جرگے میں کون کون شامل ہے اور کس سے بات ہوگی۔

مزید پڑھیں: عمران خان کے حکم پر علی امین گنڈاپور کا عجیب بہانہ، ایف بی آر نے بڑی آفر کردی

خیبر پختونخوا کابینہ کے ایک سینئر ممبر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ صوبائی حکومت نے گزشتہ سال ہی علی امین کے اعلان کے بعد تیاری مکمل کر لی تھی۔

صوبائی حکومت نے قبائلی عمائدین پر مشتمل ایک جرگہ تشکیل دیا ہے، جس میں حکومتی نمائندے اور کچھ سابق افسران بھی شامل ہیں۔

ان کے مطابق جرگے کی قیادت صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کو دی گئی تھی جبکہ ان کے ساتھ کچھ اور حکومتی نمائندے بھی شامل ہیں۔

وفد کس سے اور کن امور پر بات کرے گا؟

خیبر پختونخوا کابینہ کے ایک وزیر نے بتایا کہ جرگہ پشتون روایت کا حصہ ہے اور افغانستان میں بھی اسے بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ صوبائی جرگے میں ایسے قبائلی عمائدین شامل ہیں جن کا افغانستان میں بھی اثرورسوخ ہے اور ان کی بات کو اہمیت دی جاتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ علی امین افغان سفارتکاروں سے بھی بات کر چکے ہیں اور جرگہ افغان حکومتی اعلیٰ عہدیداران، طالبان رہنماؤں، مقامی قبائل اور دیگر لوگوں سے ملاقات کرے گا اور قیام امن اور باہمی تجارت کو فروغ دینے پر بات کرے گا۔

مزید پڑھیں: علی امین گنڈاپور نے سافٹ ویئر اپڈیٹ ہونے پر آپریشن کی حمایت کردی، اپوزیشن لیڈر کے پی ڈاکٹر عباداللہ

’قبائلی عمائدین کو اعتماد میں لیا جائے گا، انھیں بتایا جائے گا کہ دہشتگردی دونوں کے لیے خطرہ ہے، اس لیے ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوگا۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ افغان حکام اور افغان قبائلی عمائدین پاکستان سے تجارت کا فروغ چاہتے ہیں۔ ’اصل مسئلہ اعتماد کا فقدان ہے۔ ہم انھیں بتائیں گے کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ ہے اور جتنا ممکن ہو تعاون کے لیے تیار ہیں۔‘

ایک سوال پر کہ کیا ٹی ٹی پی کا مسئلہ بھی اٹھایا جائے گا تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور خاص کر خیبر پختونخوا میں امن افغانستان سے جڑا ہے، اور پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ اٹھایا جائے گا۔ ’ہم الزام تراشی نہیں کریں گے بلکہ مل کر اس مسئلے سے نکلنے پر بات کریں گے، ان کو بھی سنیں گے۔‘

کیا جرگے سے امن و امان میں بہتری آئے گی؟

خیبر پختونخوا حکومت افغانستان سے مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرامید ہے اور صوبائی حکومت کے مطابق طاقت کے بجائے مذاکرات سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق یہ مسئلہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: 9 مئی کے بعد سے میرا پاسپورٹ بلاک ہے، افغانستان کیسے جاؤں؟ علی امین گنڈاپور

فدا عدیل، پشاور کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار، جو افغان امور پر وی لاگ بھی کرتے ہیں، کے مطابق پاک افغان بات چیت شاید اتنی آسان نہیں ہوگی کیونکہ اس میں کئی اسٹیک ہولڈرز ہیں جن کا اعتماد حاصل کرنا ضروری ہے۔ ان کے مطابق سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس وقت افغانستان پر افغان طالبان کا کتنا کنٹرول ہے اور کیا وہ کسی آزاد گروپ کو کنٹرول کر سکتے ہیں یا نہیں۔

انھوں نے کہا کہ صوبے کا افغانستان کے ساتھ 1200 کلومیٹر سے زائد طویل بارڈر ہے اور صوبہ کراس بارڈر دہشت گردی سے براہِ راست متاثر ہو رہا ہے۔ اگر حکومتی سطح پر مذاکرات ہوئے تو پورے 2600 کلومیٹر طویل بارڈر کی سیکیورٹی پر بھی بات ہوگی۔

انھوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ وفاقی سطح پر پہلے سے ہی مذاکرات جاری ہیں اور وزیر خارجہ و نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کچھ عرصے میں ہی تین بار افغانستان جا چکے ہیں۔

چین کی مدد سے سی پیک کو افغانستان تک وسعت دینے پر بھی اتفاق ہوا ہے، جس کے لیے سب سے اہم اور ضروری قیام امن ہے۔ افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی صادق خان بھی کئی بار افغانستان جا چکے ہیں اور تجارت کے فروغ کے لیے افغان حکام کے ویزا سمیت دیگر مطالبات بھی منظور کیے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: قاسم اور سلیمان نے برطانوی پاسپورٹ پر ویزے کیلئے اپلائی کیا، حکومت روک نہیں سکتی، علیمہ خان

’وفاق اور ریاست کو اعتماد میں لینا ضروری ہے‘

فرزانہ علی، پشاور میں آج نیوز کی بیورو چیف، کے مطابق مسائل کا حل ضروری ہے لیکن صوبہ خود سے کچھ نہیں کر سکتا۔

ان کے مطابق وفاقی حکومت اور ریاست کو اعتماد میں لینا ہوگا، اس کے بغیر مذاکرات یا جرگے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ’وفاق اور بااختیار اداروں کے ساتھ بیٹھنا ہوگا، تب جا کے مذاکرات بامقصد ہوں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ تمام مسائل کا حل مذاکرات ہی ہے اور پاکستان کو افغانستان کے ساتھ رابطہ ختم نہیں کرنا چاہیے۔ جرگے کے ذریعے معمولات کا حل نکالا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے پاس ٹھوس ثبوت ہیں کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے اور اس کا حل بھی مذاکرات ہی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کی باتیں بیانات تک محدود رہتی ہیں، عملی طور پر کچھ نظر نہیں آتا۔ معلوم نہیں علی امین سنجیدہ نہیں ہیں یا اسلام آباد والے ان کی بات کو سنجیدہ نہیں لیتے۔

مزید پڑھیں: علی امین گنڈاپور کا رواں ماہ پشاور میں جلسہ کرنے کا اعلان

’وفاق کا اعتماد نہ ہو تو علی امین کا جانا بے سود ہے‘

سینئر صحافی محمود جان بابر، جو افغان امور پر گہری نظر رکھتے ہیں، نے کہا کہ اس حکومت سے پہلے بھی طالبان سے مذاکرات ہوئے تھے اور بیرسٹر سیف نے اس میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ’جب تک وفاق کا اعتماد نہ ہو، علی امین کا جانا بے سود ہے، اور اگر وفاق ساتھ ہو تو صوبہ بھی مذاکرات کر سکتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کا اہم مسئلہ طالبان ہیں اور علی امین ان سے کیا بات کریں گے، ان کے پاس اختیار کیا ہوگا؟ ’اگر طالبان نے اپنے لیے جگہ مانگی تو علی امین کیا کریں گے؟‘

عارف حیات، پشاور کے سینئر صحافی، کے مطابق علی امین گنڈاپور کی صوبائی حکومت افغان حکومت کو ہر ممکن سہولت دے رہی ہے، جس سے صوبائی حکومت کی اہمیت افغان طالبان کی نظر میں بڑھی ہے۔

انھوں نے کہا کہ افغان مہاجرین کے انخلا کے معاملے پر خیبر پختونخوا حکومت وفاق کے ساتھ نہیں ہے اور افغان باشندوں کو مزید مہلت دینے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ساتھ ہی صوبے میں مقیم افغان باشندوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی۔ ’مذاکرات، بات چیت اور مطالبات تبھی منظور ہوتے ہیں جب دونوں جانب فائدہ ہو اور دونوں کے کنٹرول میں معاملات ہوں۔‘

مزید پڑھیں: مجھ پر تنقید کرنے والے بے شرم، پی ٹی آئی انتشار کا شکار ہوگئی ہے، علی امین گنڈاپور برس پڑے

انھوں نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ٹی ٹی پی ہے، جن پر الزام ہے کہ وہ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں اور کراس بارڈر حملوں میں ملوث ہیں۔ ’سوال یہ ہے کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو کنٹرول کر سکتے ہیں؟ میرے خیال میں نہیں۔‘

ان کے مطابق افغانستان کے کنڑ اور دیگر صوبوں میں ٹی ٹی پی کے محفوظ ٹھکانے ہیں اور افغان طالبان بھی ان کے خلاف نہیں جا سکتے۔ اگر افغان حکومت ان کے خلاف کارروائی کرتی ہے تو وہ افغانستان میں امن کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں، جو طالبان کبھی نہیں چاہیں گے۔

انھوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کے ہاتھ میں اس وقت کچھ نہیں ہے کہ وہ افغان طالبان کو کوئی پیشکش کر سکے۔ ’جب آپ کچھ دے نہیں سکتے تو وہ خطرہ کیوں اٹھائیں گے؟‘ تاہم ان کے مطابق مذاکرات سے عدم اعتماد کو دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے مشترکہ حکمت عملی پر بات ہو سکتی ہے۔

’افغانستان کو اس وقت سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور چین اس میں دلچسپی رکھتا ہے۔ چین کے ذریعے ہی افغانستان پر اس وقت دباؤ ڈالا جا سکتا ہے۔‘

مزید پڑھیں: علی امین گنڈاپور کا ایک بار پھرعوامی مینڈیٹ چوری اور آئین کی پامالی کا الزام

عارف حیات کے مطابق خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال انتہائی ابتر ہے، پے درپے حملے ہو رہے ہیں جن کا تانابانا افغانستان سے ملتا ہے۔ بشام میں چینی شہریوں پر حملے سے لے کر بنوں میں حالیہ حملے میں افغان سرزمین استعمال ہونے کے شواہد سامنے آئے ہیں۔

’علی امین چاہتے ہیں کہ افغان حکومت کو ہر ممکن سہولت دی جائے اور بدلے میں وہ دہشتگردی پر قابو پانے میں مدد کرے، افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔‘

انھوں نے کہا کہ مذاکرات کس حد تک کامیاب ہو سکتے ہیں، یہ پہلے راؤنڈ کے بعد ہی واضح ہوگا۔

مذاکرات اہم ہیں، وفاق سنجیدہ نہیں لے رہا: ترجمان کے پی

ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر سیف کے مطابق اس وقت صوبے میں قیام امن کے لیے کابل سے مذاکرات اہم ہیں اور صوبہ تیار ہے، لیکن وفاق سنجیدہ نہیں لے رہا۔ وی نیوز کو جاری کیے گئے بیان میں بیرسٹر سیف نے کہا کہ قیام امن کے لیے مذاکرات ناگزیر ہیں، لیکن ان کی کوششوں کو وفاق سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔

ان کے مطابق جرگہ جانے کے لیے تیار ہے، تاہم کتنے ممبران پر مشتمل ہوگا اور کب جائے گا، اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان بیرسٹر سیف ترجمان خیبر پختونخوا عارف حیات علی امین گنڈاپور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا وفاق وفد.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغانستان بیرسٹر سیف ترجمان خیبر پختونخوا عارف حیات علی امین گنڈاپور وزیر اعلی خیبر پختونخوا وفاق وفد خیبر پختونخوا حکومت افغانستان کے ساتھ خیبر پختونخوا کا علی امین گنڈاپور صوبائی حکومت کے انھوں نے کہا کہ قبائلی عمائدین افغانستان میں کو اعتماد میں افغانستان سے افغان طالبان افغانستان جا افغان حکومت سنجیدہ نہیں ان کے مطابق بیرسٹر سیف مزید پڑھیں پاکستان کے کہ پاکستان سے مذاکرات مذاکرات کے ان کے خلاف امن کے لیے ان کے ساتھ کہ صوبائی اور افغان وزیر اعلی حکومت نے کہ افغان قیام امن اور وفاق سکتے ہیں ٹی ٹی پی وفاق کے کریں گے جائے گا سکتا ہے نہیں کر ہیں اور ہے اور بات کر پر بات

پڑھیں:

خیبر پختونخوا میں دو نئے پولیو کیسز کی تصدیق۔ تعداد 26 ہو گئی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد:۔ جنوبی خیبر پختونخوا کے اضلاع لکی مروت اور شمالی وزیرستان میں دو نئے پولیو کیسز کی تصدیق ہوگئی، رواں سال پاکستان میں پولیو کے مجموعی کیسز کی تعداد 26 ہو گئی۔

ترجمان نیشنل ای او سی کے مطابق جنوبی خیبر پختونخوا کے اضلاع لکی مروت اور شمالی وزیرستان میں دو نئے پولیو کیسز سامنے آئے ہیںجس کے بعد رواں سال پاکستان میں پولیو کے مجموعی کیسز کی تعداد 26 ہو گئی ہے ، پولیو ایک لاعلاج بیماری ہے جو عمر بھر کی معذوری کا باعث بن سکتی ہے،ہر مہم میں پانچ سال سے کم عمر تمام بچوں کو پولیو سے بچا و ¿کے قطرے لازمی پلائیں،وائرس کی روک تھام کے لیے جنوبی خیبر پختونخوا میں اعلیٰ معیار کی پولیو مہم جاری ہے۔

پولیو مہمات بچوں کو اس لاعلاج بیماری سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، جنوبی خیبرپختونخوا، باجوڑ اور اپر دیر میں پولیو مہم کا آغاز ہوگیاہے، رواں ہفتے کی مہم میں 16 لاکھ 85 ہزار سے زائد بچوں کو پولیو سے بچا و ¿کے قطرے پلائے جائیں گے، والدین سے اپیل ہے کہ ہر مہم میں اپنے 5 سال سے کم عمر بچوں کو پولیو کے قطرے لازمی پلائیں۔

متعلقہ مضامین

  • افغان حکومت کی سخت گیر پالیسیاں، ملک کے مختلف علاقوں میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ بند
  • پی ٹی آئی کے اندر منافق موجود ہیں، علی امین گنڈا پور
  • پاکستان کا سخت مؤقف، افغانستان میں ٹی ٹی پی اور “را” کی موجودگی ناقابل قبول
  • ٹی ٹی پی اور را کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان کو سخت پیغام
  • وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے شراب و اسلحہ برآمدگی کیس میں وارنٹ گرفتاری برقرار
  • ٹی ٹی پی اور ’’را‘‘ کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان حکومت کو سخت پیغام
  • علی امین گنڈاپور نے پہلی بار پی ٹی آئی کے اندرونی حالات کے بارے میں کھل کر بات کی: بیرسٹر عقیل ملک
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اپنے ہی ساتھیوں پر برس پڑے
  • خیبر پختونخوا کی تاریخ میں پہلی بار خاتون ایس ایس پی تعینات
  • خیبر پختونخوا میں دو نئے پولیو کیسز کی تصدیق۔ تعداد 26 ہو گئی