ایپل کے پَتلے ترین آئی فون کے ڈیزائن کے پیچھے عابِدُر چوہدری کون ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 14th, September 2025 GMT
چاول دنیا کی سب سے زیادہ کھائی جانے والی غذا ہے، مگر اس کی غذائیت اس کی اقسام کیوجہ سے مختلف ہوتی ہیں۔
درج ذیل انہی اقسام اور ان کی غذائیت کے بارے میں بات کی گئی ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان میں سے انسانی صحت کیلئے سب سے بہترین چاول کونسے ہیں۔
سفید چاول
یہ سب سے زیادہ عام استعمال ہونے والے چاول ہیں۔ پالش ہونے کی وجہ سے ان میں فائبر اور کئی غذائی اجزا کم ہو جاتے ہیں۔ یہ ہضم جلدی ہو جاتا ہے مگر شوگر لیول تیزی سے بڑھاتا ہے۔
براؤن رائس
یہ مکمل اناج والا ہوتا ہے کیونکہ اس میں چاول کی بیرونی تہہ موجود رہتی ہے۔ فائبر، میگنیشیم، وٹامن بی اور antioxidants زیادہ ہوتے ہیں۔ ہاضمے میں وقت لیتا ہے، اس لیے شوگر اور کولیسٹرول کے لیے بہتر ہے۔
سرخ چاول
اس کا سرخ رنگ anthocyanins نامی اینٹی آکسیڈینٹس کی وجہ سے ہوتا ہے۔ فائبر اور منرلز (آئرن اور زنک) زیادہ ہوتے ہیں۔ دل، بلڈ پریشر اور مدافعتی نظام کے لیے مفید ہے۔
کالا چاول
سب سے زیادہ اینٹی آکسیڈینٹس رکھنے والی قسم سمجھی جاتی ہے۔ پروٹین، فولاد، آئرن اور وٹامن ای بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اینٹی سوزش اور کینسر سے بچاؤ خصوصیات بھی پائی جاتی ہیں۔
باسمتی چاول
یہ زیادہ خوشبودار اور لمبے دانے والے چاول ہوتے ہیں۔ سفید اور براؤن دونوں شکلوں میں دستیاب ہوتے ہیں۔ دوسرے سفید چاول کے مقابلے میں ان میں شوگر کم ہوتی ہے یعنی شوگر کے مریضوں کے لیے نسبتاً بہتر ہے۔
صحت کے لیے بہترین کون سا؟
براؤن رائس، سرخ چاول یا کالا چاول صحت کیلئے بہتر ہیں کیونکہ ان میں فائبر زیادہ اور شوگر کم ہے۔ دل اور کولیسٹرول کے لیے بھی براؤن رائس اور سرخ چاول زیادہ فائدہ مند ہے۔ اس میں ناکارہ بڑھاپے اور بیماریوں سے بچاؤ کی خصوصیت بھی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
ترقی کی چکا چوند کے پیچھے کا منظر
اللہ بھلا کرے ہمارے ناخداؤں کا، صبح شام ہمیں یقین دلائے رکھتے ہیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے، گھبرانا نہیں۔ بلکہ ثبوت کے طور پر کئی دعوے اور مختلف معاشی اشاریے پیش کیے جاتے ہیں کہ لو دیکھ لو، جنگل کا جنگل ہرا ہے لیکن کیا کیجیے۔
زمینی حقائق سے واسطہ پڑتا ہے تو بندۂ مزدور کے اوقات اسی طرح تلخ اور سوہان روح ملتے ہیں۔ ہم عوام کی یہ دہائی کون سنتا ہے لیکن جب ان اعداد وشمار کو مختلف ترتیب سے کوئی عالمی ادارہ مرتب کر کے عوام کی دہائی اور تاثر کی تائید کرے تو اس پر اعتبار کرنا بنتا ہے۔
سالہا سال سے سن، پڑھ اور دیکھ رہے ہیں کہ ترقی کی دوڑ میں ایشیاء تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جی ڈی پی گروتھ، پیداوار، برآمدات اور ارب پتیوں کی تعداد میں دھڑادھڑ اضافہ ہو رہا ہے۔
ایسے میں معاشی بدحالی کا دھڑکا تو اصولاً نہیں ہونا چاہیے لیکن معروف عالمی ریسرچ ادارے آکسفیم کی ایشیائی ممالک کی ترقی کی بابت تازہ رپورٹ کے مطابق ترقی ہو تو رہی لیکن اس کے ثمرات کا غالب حصہ چند ہاتھوں تک محدود ہے جب کہ عوام کے حصے میں ٹریکل ڈاؤن ایفیکٹ کا لالی پاپ ہی رہتا ہے۔ یقین نہ آئے تو رپورٹ کے چیدہ نکات سنئے اور سر دھنیے…
رپورٹ کا عنوان ہے ’’An Unequal Future‘‘ یعنی ’’غیر مساوی مستقبل‘‘۔ رپورٹ کا خلاصہ یہ کہ اگر ترقی کی یہ رادھا نو من تیل کے ساتھ اسی طرح ناچتی رہی تو پورے ایشیاء میں انصاف، مساوات اور خوشحالی کا خواب بس خواب ہی رہے گا۔
آکسفیم کے مطابق، ایشیاء کے بیشتر ممالک میں دولت اور آمدنی کی تقسیم خطرناک حد تک غیر مساوی ہے۔ بظاہر ترقی کی شرح بلند ہے مگر سماجی انصاف، پائیدار روزگار اور روزمرہ کی پبلک سرورسز کی فراہمی کمزور تر ہو رہی ہے۔
یہ رپورٹ تین بڑے بحرانوں کو ایک دوسرے سے جوڑتی ہے۔ آمدنی و دولت کی ناہمواری، موسمیاتی تباہ کاری اور ڈیجیٹل خلاء (Digital Divide)۔
رپورٹ کے مطابق ایشیاء کے بڑے ممالک میں امیر ترین 10 فیصد افراد قومی آمدنی کے 60 سے 77 فیصد حصہ کے مالک ہیں۔
بھارت میں ایک فیصد اشرافیہ ملک کی کل دولت کا 40 فیصد جب کہ چین میں 31 فیصد کنٹرول کرتی ہے۔ یہ خوفناک تضاد اس حقیقت کا اظہار ہے کہ معاشی ترقی کے اعداد و شمار اور رنگ برنگے اشاریے عوامی فلاح اور متناسب سماجی ترقی کے مترادف نہیں۔ ترقی کے باوجود 18.9 فیصد آبادی اب بھی روزانہ 3.65 ڈالر سے کم پر گزارا کرتی ہے اور 50 کروڑ سے زائد لوگ غربت یا اس کے دہانے پر ہیں۔
ٹیکس کا نظام بھی بالعموم غیرمنصفانہ ہے۔ ایشیاء میں اوسطاً ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب 19 فیصد ہے جو ترقی یافتہ ممالک (OECD اوسط 34 فیصد) سے کہیں کم ہے۔ نتیجتاً حکومتوں کے پاس تعلیم، صحت اور سماجی تحفظ کے لیے وسائل ناکافی رہتے ہیں۔اے آئی، انٹرنیٹ اور موبائلز فونز کے انقلاب کے باوجود ڈیجیٹل ناہمواری بھی بڑھ رہی ہے۔ شہری علاقوں میں 83 فیصد لوگ آن لائن ہیں جب کہ دیہی علاقوں میں یہ شرح 49 فیصد ہے۔صنفی پیمانے سے جانچیں تو خواتین کی ڈیجیٹل شمولیت مردوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم ہے۔
ماحولیاتی اعتبار سے بھی عدم مساوات نمایاں ہے۔ جن طبقات کا آلودگی میں حصہ سب سے کم ہے، وہی سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ جنوبی ایشیاء میں امیر ترین 0.1 فیصد افراد ایک عام شہری کے مقابلے میں 70 گنا زیادہ کاربن خارج کرتے ہیں جب کہ غریب ترین 50 فیصد طبقہ ماحولیاتی نقصانات کا سب سے بڑا شکار ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں معاشی نمو کے باوجود معاشی ناہمواری اور سماجی عدم مساوات تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ غربت میں گاہے وقتی کمی دیکھی گئی مگر عملاً امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ وسیع تر ہو رہا ہے۔ پاکستان میں امیر ترین 10 فیصد افراد قومی آمدنی کا تقریباً 62 فیصد حاصل کرتے ہیں جب کہ نچلے 50 فیصد عوام کے حصے میں صرف 10 فیصد آمدنی آتی ہے۔ یہ معاشی و سماجی ناہمواری وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور اشرافیہ کے ہاتھوں میں طاقت کے ارتکاز کو ظاہر کرتی ہے۔
ٹیکس کا ڈھانچہ اس خلیج کو مزید گہرا کرتا ہے۔ پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب محض 9.5 تا 10 فیصد ہے جو خطے میں سب سے کم ہے۔ یہ مایوس کن شرح پبلک سروسز کے لیے مالی گنجائش کو مزید محدود کر دیتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیادہ تر محصولات بالواسطہ ٹیکسوں (پٹرول، بجلی، اشیائے ضروریہ) سے حاصل کیے جاتے ہیں، جس کا بوجھ بالآخر غریب اور متوسط طبقے پر آتا ہے۔
تعلیم اور صحت پر سرکاری خرچ بھی اسی عدم توازن کا تسلسل ہے۔ پاکستان اپنی قومی آمدنی کا صرف 2.2 فیصد تعلیم اور 1.5 فیصد صحت پر خرچ کرتا ہے۔ یہ شرح بنگلہ دیش (تعلیم 2.6÷، صحت 2.4÷) اور نیپال (تعلیم 3.4÷، صحت 2.9÷) سے کم ہے جب کہ جنوبی کوریا جیسے ممالک تعلیم پر 4.8÷ اور صحت پر 5.1÷ خرچ کرتے ہیں۔
ماحولیاتی لحاظ سے پاکستان دنیا کے ان دس ممالک میں شامل ہے جو کلائمیٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں ماحولیاتی آفات کے باعث 3 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے اور 30 ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا عالمی آلودگی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد اگرچہ کچھ کم ہوئی، تاہم رپورٹ کے مطابق 22 فیصد آبادی اب بھی روزانہ 3.65 ڈالر سے کم پر زندہ ہے اور 50 فیصد سے زیادہ لوگ ایسے ہیں جو معمولی معاشی جھٹکے سے غربت میں جا سکتے ہیں۔
یہ تمام اعداد وشمار چیخ چیخ کر دہائی دے رہے ہیں کہ معاشی ترقی کے افسانوں میں ہم نے مساوات اور ہیومن ڈویلپمنٹ کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ پاکستان کے لیے اصل چیلنج صرف معاشی نمو ہی نہیں بلکہ اس نمو کی منصفانہ تقسیم بھی ہے۔ اگروسائل، مواقع اور انصاف کی سمت درست نہ کی گئی تو دولت کے محلوں کے سائے میں غربت کی بستیاں مزید پھیلتی جائیں گی۔ فیصلہ سازوں کوتو شاید سوچنے کی مجبوری نہیں لیکن سماج کو ضرورسوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کیسی ترقی چاہتے ہیں: اشرافیہ کے ایک محدود طبقے کے لیے یا سب کے لیے؟