WE News:
2025-09-19@08:40:19 GMT

گولڈ بلین کیا ہے اور اسکی حکمرانی کو کیا خطرہ درپیش ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 19th, September 2025 GMT

گولڈ بلین کیا ہے اور اسکی حکمرانی کو کیا خطرہ درپیش ہے؟

دنیا میں طاقت کے توازن میں بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔ کبھی جسے ’گولڈ بلین‘(Golden Billion)  کہا جاتا تھا، وہ اپنا تاج کھو رہا ہے، جبکہ ’عالمی اکثریت‘(Global Majority)  نئے اصولوں کے ساتھ سفارت کاری کی بازی پلٹ رہی ہے۔

پیریٹو اصول سے عالمی سیاست تک

معاشیات اور سماجیات میں پیریٹو اصول (Pareto Principle) مشہور ہے جسے عام طور پر 80/20 اصول کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق 20 فیصد کوششیں 80 فیصد نتائج دیتی ہیں، جبکہ باقی 80 فیصد کوششیں صرف 20 فیصد نتیجہ دیتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:روس-چین قربتیں، کیا دنیا، مغرب کے بغیر آگے بڑھنے کو تیار ہے؟

 وقت کے ساتھ یہ اصول مغرب کی اشرافیہ تھیوری’ (Elite Theory)کے جواز کے طور پر استعمال ہوا – یعنی 20 فیصد لوگ 80 فیصد وسائل پر قابض ہیں۔

لیکن اب یہ اصول قومی سطح سے نکل کر عالمی سیاست میں داخل ہو چکا ہے، جہاں ’عالمی اقلیت‘ اور ’عالمی اکثریت‘ آمنے سامنے ہیں۔

گولڈ بلین: اجارہ داری کا دور

’گولڈ بلین‘ کی اصطلاح اس گروہ کے لیے استعمال ہوئی جو سرد جنگ کے بعد امریکا، جی-7 اور نیٹو کے ذریعے عالمی سیاست میں حاوی ہوا۔

یہ بھی پڑھیں:بیجنگ میں نیا عالمی نظام؟ پیوٹن اور شی کا مشترکہ وژن

انہوں نے گلوبلائزیشن کو اپنے مفاد میں استعمال کیا اور دنیا پر ایک قطبی نظام (Unipolar World) مسلط کرنے کی کوشش کی۔

عالمی اکثریت کا عروج

اس کے برعکس ’عالمی اکثریت‘ نے مساوی اور کثیر قطبی نظام کا مطالبہ کیا۔

روس، چین اور بھارت جیسے ممالک نے اپنی مزاحمتی قوت کے ساتھ نئی تنظیمیں قائم کیں، جیسے BRICS اور SCO  جنہوں نے طاقت کے توازن کو بدلنا شروع کیا۔

تیانجن میں SCO پلس کا حالیہ اجلاس (اگست 2025) تنظیم کی تاریخ کا سب سے بڑا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:جوہری طاقت کے میدان میں امریکی اجارہ داری کا خاتمہ، دنیا نئے دور میں داخل

 اسی طرح برازیل کی صدارت میں BRICS کی دوسری سمٹ نے واضح کر دیا کہ دنیا کی زیادہ تر زمین، آبادی اور اب عالمی معیشت کا بڑا حصہ ’عالمی اکثریت‘ کے پاس ہے۔

مغرب کی گرتی ساکھ

اس کے برعکس ’عالمی اقلیت‘ یعنی مغربی ممالک معاشی زوال، وسائل کی کمی اور سیاسی انتشار کا شکار ہیں۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، پولینڈ اور اسرائیل جیسے ممالک اندرونی خلفشار اور قیادت کے بحران سے دوچار ہیں۔

امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ اور ایک ری پبلکن رہنما کا قتل سیاسی تقسیم کی انتہا کو ظاہر کرتا ہے۔

برطانیہ میں مظاہرے، لیبر پارٹی اور کنزرویٹو دونوں پر عوامی عدم اعتماد اور فرانس میں وزیرِ اعظم کے بار بار استعفے مغرب کی کمزور حکمرانی کو بے نقاب کرتے ہیں۔

عسکریت اور خارجہ پالیسی پر انحصار

مغربی رہنماؤں کے پاس داخلی بحران دبانے کے لیے ایک ہی راستہ بچا ہے: عسکریت پسندی اور جارحانہ خارجہ پالیسی۔ فرانس یوکرین کے لیے سیکیورٹی گارنٹیوں میں سرگرم ہے۔ برطانیہ نے یوکرین کے لیے ’خصوصی مشن‘ بھیجا۔

پولینڈ میں ڈرون حملوں کے بہانے جنگی فضا پیدا کی جا رہی ہے۔ اسرائیل نے غزہ پر نئی جنگ مسلط کر دی ہے، حتیٰ کہ قطر پر بھی حملے کی کوشش کی۔ یہ سب اقدامات عوامی عدم اعتماد کو وقتی طور پر دبانے کی کوشش ہیں۔ قطر، نیپال اور ایشیا کی سفارتی اہمیت

قطر کو مذاکراتی مرکز بنانے کی امریکی کوششیں جاری ہیں، لیکن نیپال میں کٹھمنڈو کے سنگھا دربار کی تباہی اس بات کی علامت ہے کہ ’اقلیت‘ اور ’اکثریت‘ کی کشمکش دور رس نتائج دے رہی ہے۔ یہ کوئی اتفاق نہیں کہ یہ بحران چین اور بھارت کے بیچ پیدا ہوا۔

ایشیائی قیادت کا کردار

چین کے صدر شی جن پنگ نے دکھایا ہے کہ اختلافات کا حل عسکری ٹکراؤ نہیں بلکہ سفارت کاری ہے۔ یہی وہ امید ہے جو اس سخت اور غیر متوازن دنیا میں امن قائم رکھنے کا آخری سہارا ہے۔

بشکریہ: رشیا ٹو ڈے

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ایشیا برکس بھارت چین روس گولڈن بلین مغرب نیپال یوکرین.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: ایشیا بھارت چین گولڈن بلین نیپال یوکرین عالمی اکثریت گولڈ بلین رہی ہے کے لیے

پڑھیں:

ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ: کیشورن والکاٹ نے پہلی بار گولڈ میڈل جیت لیا

جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ہونے والے ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ 2025 کے جیولن تھرو فائنل میں پاکستان کے ارشد ندیم اور بھارت کے نیرج چوپڑا کوئی میڈل حاصل نہ کر سکے۔

ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوباگو کے کیشورن والکاٹ نے شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے 88.16 میٹر کی شاندار تھرو کے ساتھ پہلی بار ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ کا طلائی تمغہ اپنے نام کیا۔

والکاٹ اس سے قبل لندن اولمپکس 2012 میں بھی گولڈ میڈل جیت چکے ہیں، لیکن عالمی مقابلوں میں یہ ان کا پہلا تمغہ ہے۔ 32 سالہ ایتھلیٹ نے اس کامیابی کے ساتھ اپنی دیرینہ خواہش پوری کرلی۔

گریناڈا کے اینڈرسن پیٹرز، جو 2 مرتبہ عالمی چیمپیئن رہ چکے ہیں، اس بار دوسرے نمبر پر آئے اور چاندی کا تمغہ جیتا۔ تیسری پوزیشن امریکا کے تھامپسن نے حاصل کی، جنہوں نے مشکل موسمی حالات کے باوجود کانسی کا تمغہ اپنے نام کیا۔

بھارت کے سچن یادیو نے بھی اچھی کارکردگی دکھائی اور 80.95 میٹر کی تھرو کی، تاہم وہ تمغہ جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ جرمنی کے ویبر نے 84.67 میٹر کی تھرو کی لیکن وہ بھی میڈل کی دوڑ سے باہر رہے۔

بارش اور تیز ہوا کے باعث جیولن تھرو کے کھلاڑیوں کو مشکل حالات کا سامنا رہا، تاہم آخری راؤنڈ کے لیے کوالیفائی کرنے والے کھلاڑیوں میں والکاٹ، پیٹرز، تھامپسن، یادیو اور ویبر شامل تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • باد مخالف کے باجود اقوام متحدہ بہتر دنیا کے قیام میں کوشاں
  • صیہونی ایجنڈا اور نیا عالمی نظام
  • ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ: کیشورن والکاٹ نے پہلی بار گولڈ میڈل جیت لیا
  • خسرہ کے دنیا میں دوبارہ پھیل جانے کا خطرہ سر اٹھانے لگا
  • غزہ میں طبی سہولیات کانظام مکمل مفلوج ہوچکا ہے‘ جماعت اہلسنتّ
  • جموں وکشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ بن چکا ہے، الطاف وانی
  • عالمی سطح پر اسرائیل کو ذلت اور شرمندگی کا سامنا
  • چین نے جرمنی کو پیچھے چھوڑ دیا، پہلی بار دنیا کے 10 بڑے جدت پسند ممالک میں شامل
  • موسمیاتی تبدیلی کا مسئلہ دنیا بھر کو درپیش ہے، وزیر بلدیات سندھ