ایف بی آر کا شاہانہ لائف اسٹائل دکھانے والے امیروں کیخلاف گھیرا تنگ
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
اسلام آباد: فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے سوشل میڈیا پر اپنی دولت اور عیش و عشرت کی زندگی کی نمائش کرنے والے افراد کے خلاف بڑا اقدام اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ایف بی آر نے ان ایک لاکھ افراد کا ڈیٹا جمع کرلیا ہے جو پرتعیش گھروں، قیمتی گاڑیوں اور زیورات کے ذریعے اپنی شاہانہ زندگی کا اظہار کرتے ہیں لیکن ٹیکس نیٹ میں موجود نہیں یا کم ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔
ایف بی آر کی سوشل میڈیا ٹیم نے ان افراد کے طرزِ زندگی اور ان کے اخراجات کا تفصیلی ریکارڈ حاصل کرلیا ہے تاکہ ان کی آمدنی اور اخراجات کے درمیان فرق کو جانچا جا سکے۔
حکام کا کہنا ہے کہ شادیوں پر حد سے زیادہ اخراجات کرنے والے بھی اس کریک ڈاؤن کی زد میں آئیں گے۔ بعض افراد اپنی شادیوں میں ہزاروں ڈالر مالیت کے ملبوسات استعمال کرتے ہیں لیکن اپنے انکم ٹیکس گوشواروں میں ان اخراجات کو ظاہر نہیں کرتے۔
ایف بی آر نے عندیہ دیا ہے کہ ایسے تمام افراد کو اپنے ٹیکس ریٹرن میں درست اور مکمل معلومات فراہم کرنی ہوں گی، بصورت دیگر وہ قانونی کارروائی کے لیے تیار رہیں۔
مزید بتایا گیا کہ ایف بی آر پچھلے سال کے گوشواروں کا اس سال کے گوشواروں کے ساتھ موازنہ کرے گا اور کم از کم 80 فیصد ریٹرنز کا آڈٹ کیا جائے گا۔ اس طریقہ کار کے ذریعے ایف بی آر ان افراد تک پہنچنے کا ارادہ رکھتا ہے جو بظاہر اپنی زندگی میں آسائشیں اور شاہانہ اخراجات کرتے ہیں لیکن ان کی آمدنی کے ذرائع ٹیکس ریکارڈ میں نظر نہیں آتے۔
ایف بی آر نے واضح کیا ہے کہ جو لوگ فوری طور پر اپنے گوشواروں کو اپ ڈیٹ کرلیں گے اور درست معلومات فراہم کریں گے، ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، تاہم جو افراد اس ہدایت کو نظر انداز کریں گے، ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔
.ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: ایف بی آر
پڑھیں:
منی بجٹ کی خبریں بے بنیاد ہیں، چیئرمین ایف بی آر کا بیان
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد سے جاری خبروں کے مطابق چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے ملک میں منی بجٹ آنے کی خبروں کی سختی سے تردید کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کی تیاری مکمل کرلی ہے تاہم اضافی ٹیکسوں کے لیے منی بجٹ لانے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔
چیئرمین ایف بی آر نے وضاحت کی کہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے تناظر میں مختلف آپشنز پر غور کیا گیا ہے لیکن ٹیکس ریونیو ہدف میں ردوبدل سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔ دوسری طرف ایف بی آر کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے ٹیکس ہدف میں 300 ارب روپے کمی کی درخواست کرے گا تاکہ موجودہ حالات میں ریونیو کے اہداف حقیقت پسندانہ بن سکیں۔
ذرائع کے مطابق کوشش کی جارہی ہے کہ موجودہ مالی سال کے ٹیکس ہدف کو 14 ہزار ارب روپے سے نیچے لایا جائے۔ تاہم یہ بھی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی اور ٹیکس اہداف پورے کرنے کے لیے محدود پیمانے پر منی بجٹ لانے پر غور کیا جاسکتا ہے۔
اطلاعات کے مطابق مجوزہ منی بجٹ میں لگژری گاڑیوں، سگریٹس، الیکٹرانک سامان اور دیگر غیر ضروری درآمدی اشیاء پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز دی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ فیڈرل فلڈ لیوی کے نفاذ پر بھی غور کیا جارہا ہے تاکہ تعمیر نو کے اخراجات پورے کیے جا سکیں۔ یوں سرکاری سطح پر منی بجٹ کی تردید کے باوجود امکانات کو مکمل طور پر رد نہیں کیا گیا۔