ججز کو ہی بغیر معاوضہ ثالث کا کردار ادا کرنا ہو گا: جسٹس شاہد وحید
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
جسٹس شاہد وحید—فائل فوٹو
سپریم کورٹ کے جج جسٹس شاہد وحید کا کہنا ہے کہ ثالث کا خرچ بچانے کے لیے ججز کو ہی بغیر معاوضہ ثالث کا کردار ادا کرنا ہو گا، ثالثی کے ذریعے مقدمات کے حل کو عام کرنا ہو گا۔
اسلام آباد میں ثالثی ٹریننگ کی اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ قرآن پاک بھی صلح کی تعلیمات دیتا ہے، سپریم کورٹ کی اے ڈی آر کمیٹی نے مستقبل کی گائیڈ لائنز بنا کر دی ہیں، تجویز دی ہے، ملک میں مقدمات کے متبادل حل کے لیے ایک ہی قانون سازی کی جائے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ 2022 سے اب تک ترکیہ نے 2 ملین سے زائد مقدمات ثالثی سے نمٹائے، پاکستان کے پاس 200 ثالث ہیں لیکن ان کو مقدمات بھیجے نہیں جاتے، ثالثی کے لیے دل اور دماغ میں تبدیلی لانا ناگزیر ہے۔
جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ فیملی کورٹس کے لیے فریقین کے بڑوں کو بیٹھ کر معاملات حل کرنے کی تجویز دی ہے، وکلاء اگر فیملی کیسز میں ثالث بنیں تو معاملات خراب ہوتے ہیں، ثالثی کی ترویج کیلئے مہم شروع کریں گے جس کا نعرہ ’میڈی فیئر‘ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابراہم لنکن نے کہا تھا کہ مقدمات کو عدالتوں میں لے جانے سے احتراز برتیں، نیلسن مینڈیلا نے کہا تھا کہ اگر دشمن کے ساتھ امن چاہتے ہو تو دشمن کے ساتھ کام کرنا ہو گا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: جسٹس شاہد وحید کرنا ہو گا نے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
قطر کی ثالثی کام کرگئی، افغان طالبان نے برطانوی جوڑے کو رہا کردیا
طالبان کی قید میں آٹھ ماہ گزارنے کے بعد ایک سینیئر برطانوی جوڑے اربی اور پیٹر رینولڈز کو بالآخر رہا کر دیا گیا ہے، جنہیں فروری میں افغان طالبان کے انٹیریئر منسٹری نے حراست میں لیا تھا۔ جوڑے کی رہائی قطر کی کامیاب ثالثی کے بعد عمل میں آئی، رہائی کے بعد جوڑے کو دوحہ منتقل کردیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں گرفتار برطانوی جوڑا کون ہے؟
طالبان وزارت داخلہ کے ایک ترجمان کے مطابق رواں سال فروری میں مجموعی طور پر 4 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، جن میں 2 برطانوی شہری، ایک چینی نژاد امریکی شہری اور ان کا مقامی مترجم شامل تھے۔
برطانوی خبر رساں ادارے “PA” کے مطابق، یہ جوڑا اپنے چینی-امریکی دوست “فائے ہال” اور ایک مقامی مترجم کے ہمراہ ایک تربیتی ادارے کے لیے کام کر رہا تھا جب انہیں گرفتار کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں زیرحراست برطانوی جوڑے کی صحت بگڑ گئی، ٹرائل تاخیر کا شکار
بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ یہ دونوں برطانوی شہری وسطی افغان صوبے بامیان میں ایک غیر سرکاری تنظیم (NGO) کے لیے کام کر رہے تھے۔ طالبان کے ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ انہیں بغیر اجازت طیارہ استعمال کرنے پر گرفتار کیا گیا۔
قطر کی ثالثی اور سفارتی کردارذرائع کے مطابق، قطر نے برطانوی حکومت اور متاثرہ جوڑے کے خاندان کے تعاون سے طالبان حکام سے کئی مہینوں تک مذاکرات کیے تاکہ ان کی رہائی ممکن ہو سکے۔
یہ بھی پڑھیں:والدین کی دوران حراست موت کا خدشہ، رہا کیا جائے، افغانستان میں قید معمر برطانوی جوڑے کے بچوں کی اپیل
قطری سفارت خانے نے دورانِ قید دونوں افراد کو اہم سہولیات فراہم کیں، جن میں ان کے ذاتی معالج تک رسائی، ادویات کی ترسیل، اور خاندان سے رابطے کی سہولت شامل ہے۔ قید کے دوران دونوں کو اکثر اوقات الگ الگ رکھا گیا۔
برطانوی دفتر خارجہ کی خاموشیبرطانیہ کی وزارتِ خارجہ نے رائٹرز کی جانب سے تبصرے کی درخواست پر کوئی فوری ردِ عمل ظاہر نہیں کیا۔
18 سالہ خدمات اور افغانستان میں قیام“سنڈے ٹائمز” کے مطابق، باربی اور پیٹر رینولڈز نے افغانستان میں اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں مختلف پراجیکٹس پر 18 سال تک کام کیا، اور 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد بھی وہ ملک میں قیام پذیر رہے۔
یہ بھی پڑھیں:عالمی دباؤ کے بعد افغان طالبان نے برطانوی جوڑے کی گرفتاری کی وجہ ’غلط فہمی‘ قرار دیدی
قطر نے 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں گرفتار غیر ملکیوں کی رہائی میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ صرف 2025 میں اب تک قطر نے کم از کم 3 امریکی شہریوں کی رہائی میں مدد کی ہے۔
سفارتی پس منظرطالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک نے کابل میں اپنے سفارت خانے بند کر دیے تھے اور سفارتی عملہ واپس بلا لیا تھا۔ اسی وجہ سے برطانوی شہریوں کو افغانستان کا سفر نہ کرنے کی سخت ہدایات جاری کی گئی ہیں، کیونکہ وہاں غیر ملکیوں کو حراست میں لیے جانے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news افغانستان برطانوی جوڑا گرفتار برطانیہ ثالثی دوحہ رہائی طالبان قطر گرفتاری