data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (کامر س رپورٹر) کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال کی توجہ مبذول کراتے ہوئے انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے کی قانونی آخری تاریخوں میں توسیع کی پُرزور اپیل کی ہے۔کے سی سی آئی کے صدر محمد جاوید بلوانی نے چیئرمین ایف بی آر کو بھیجے گئے ایک مراسلے میں اس بات پر زور دیا کہ ملک بھر کے ٹیکس دہندگان کو درپیش مشکلات کے پیش نظر انکم ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے کی آخری تاریخ 30 ستمبر سے بڑھا کر 31 اکتوبر 2025 تک کی جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگست 2025 کے سیلز ٹیکس ریٹرنز جمع کرانے کے لیے بھی ایک ماہ کی توسیع دی جائے کیونکہ موجودہ حالات میں تاجر برادری کو فوری ریلیف فراہم کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔وجوہات بیان کرتے ہوئے صدر کے سی سی آئی نے کہا کہ آئی آر آئی ایس پورٹل شدید تکنیکی مسائل اور سست رفتاری کا شکار ہے، خاص طور پر مصروف اوقات میں، جس کے باعث ٹیکس دہندگان کے لیے ریٹرنز مؤثر طریقے سے جمع کرانا تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ بارہا یقین دہانیوں کے باوجود یہ مسائل گزشتہ سال سے حل نہیں ہو سکے جبکہ ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافے نے ایف بی آر کے نظام پر مزید دباؤ ڈال دیا ہے جسے فوری اپ گریڈ کی ضرورت ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ طوفانی بارشوں اور شہری سیلاب نے ملک بھر میں انٹرنیٹ اور ٹیلی کام سروسز کو بری طرح متاثر کیا ہے جبکہ کئی علاقوں میں فور جی اور فائیو جی کنیکٹیوٹی خراب رہی ہے۔ یہ رکاوٹیں ان فائلرز کے لیے مزید مشکلات کا باعث بنی ہیں جو آن لائن پلیٹ فارمز پر ہی انحصار کرتے ہیں۔صدر کے سی سی آئی نے یاد دلایا کہ ماضی میں بھی ایف بی آر نے ایسے ہی حالات میں ریٹرنز جمع کرانے کی تاریخوں میں توسیع دی تھی۔ایسی سہولتیں نہ صرف ٹیکس دہندگان کو حوصلہ افزائی فراہم کرتی ہیں بلکہ معیشت کی ڈاکیومنٹیشن کو بھی فروغ دیتی ہیں اور زیادہ ریونیو کلیکشن کا سبب بنتی ہیں، جو ایف بی آر اور بزنس کمیونٹی دونوں کے مشترکہ مفاد میں ہے۔جاوید بلوانی نے زور دیا کہ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس ریٹرنز کی تاریخ میں توسیع دینے سے ایڈووکیٹس، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس، کنسلٹنٹس اور ٹیکس پریکٹیشنرز کو اپنے فرائض بہتر انداز میں انجام دینے میں سہولت ملے گی، جس سے درستگی اور بہتر تعمیل یقینی بنائی جا سکے گی۔انہوں نے امید ظاہر کی کہ چیئرمین ایف بی آر مثبت ردعمل دیں گے اور ٹیکس دہندگان اور قومی خزانے کے بہترین مفاد میں فیصلہ کریں گے۔

beta4admin25 کامرس رپورٹر.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ریٹرنز جمع کرانے ٹیکس دہندگان جمع کرانے کی کے سی سی ا ئی ٹیکس ریٹرنز انکم ٹیکس ایف بی ا ر

پڑھیں:

ای چالان یا لوٹ کا نیا طریقہ؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251108-03-4

 

عبید مغل

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ جب حکمران فلاحی ریاست کے بجائے اپنی عیاشیوں کی ریاست قائم کر لیں تو محلات کے چراغ عوام کے خون سے جلنے لگتے ہیں۔ قدیم روم کے ظالم بادشاہوں نے رعایا کے سروں پر ’’سر ٹیکس‘‘ مسلط کیا۔ فرعونوں نے نیل کے کسانوں سے ’’پانی کا ٹیکس‘‘ وصول کیا۔ یورپ کے عیاش بادشاہوں نے ’’کھڑکیوں‘‘ اور ’’چرچ‘‘ پر ٹیکس لگا کر روشنی اور عبادت دونوں کو قیمت کے ترازو میں تول دیا۔ کشمیر کے ڈوگرہ مہاراجوں نے تو ظلم کی حد کر دی۔ مسلمانوں پر چراغ، گائے، درخت، شادی اور حتیٰ کہ نماز پڑھنے پر بھی ٹیکس لگا دیا۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب حکمرانوں کے ضمیر مر جائیں تو ٹیکس خدمت نہیں ظلم کا ہتھیار بن جاتا ہے۔ اب وہی تماشا صدیوں بعد سندھ میں دہرایا جا رہا ہے۔ فرق صرف ناموں کا ہے۔ کبھی انہیں مہاراجا کہا جاتا تھا اب یہ لوگ عوامی نمائندے کہلاتے ہیں۔ ظلم وہی ہے بس لباس نیا ہے۔ کراچی میں ٹریفک کی روانی بہتر بنانے کے لیے ای چالان متعارف کرانا یقینا لائق تحسین عمل ہے مگر اس کی آڑ میں کراچی کے شہریوں کی جیب پر ڈاکا ڈالنا انتہائی قابل مذمت ہے۔ ای چالان کے بھاری جرمانوں سے ظاہر ہوتا ہے مقصد اصلاح نہیں بلکہ لوٹ مار ہے اور سندھ حکومت اس کام کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کرتی رہتی ہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ قانون کے لبادے میں سندھ حکومت شہریوں کے جیب کاٹ رہی ہے۔

کراچی کی سڑکیں ایسی کہ گاڑی نہیں صبر کا سسپنشن بھی ٹوٹ جاتا ہے اور کمر کی ہڈی بھی اپنی جگہ سے ہل جاتی ہے۔ یاد رہے کہ جن ممالک میں ای جرمانے نافذ ہیں وہاں اگر فٹ پاتھ میں ایک انچ کا گڑھا ہو اور اس کی وجہ سے کوئی شخص گر جائے تو حکومت کو متاثرہ شہری کو بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے مگر سندھ میں الٹا حساب ہے۔ یہاں حکومت گڑھے بناتی ہے عوام کو بھگتنا پڑتا ہے اور پھر جرمانہ بھی انہی سے وصول کیا جاتا ہے۔

مہذب ممالک میں جہاں ٹریفک کیمرے نصب ہوں وہاں جگہ جگہ وارننگ سائن لگے ہوتے ہیں تاکہ لوگ قانون کا احترام بھی کریں اور جرمانوں سے بھی بچ سکیں۔ اْن معاشروں میں جرمانوں سے زیادہ عوام کے اندر شعور بیدار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور چالان سے قبل ڈرائیور کو موقع دیا جاتا ہے کہ وہ جرمانے اور پوائنٹس سے بچنے کے لیے روڈ سیفٹی کا تربیتی کورس کرے۔ پھر ایسے ملکوں میں فلاحی ریاستوں میں ٹیکس کے بدلے سہولت ملتی ہے۔ صاف سڑکیں، پبلک ٹرانسپورٹ، صاف پانی، مفت علاج، تعلیم، صفائی، تحفظ لیکن سندھ میں ٹیکس کے بدلے بدبو، گڑھے، کرپشن، سفارش اور رشوت ملتی ہے چونکہ یہ فلاحی نہیں فریب کی ریاست ہے۔

سوال یہ ہے کہ اربوں روپے کے یہ ٹیکس کہاں جا رہے ہیں۔ عوام کا پیسہ ترقی پر نہیں تصویری مہمات اور عیاشیوں پر خرچ ہو رہا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ سندھ حکومت نے مہاراجا گلاب سنگھ کی روح کو جدید لباس پہنا دیا ہے۔ وہی لوٹ مار وہی استحصال مگر انداز نیا۔ تاریخ کا اصول یہی ہے کہ جب حکمران عیاشی کے عادی ہوں تو ٹیکس عوام کے خون سے وصول ہوتا ہے۔ کراچی میں نافذ کردہ ای چالان دراصل ای ظلم ہے جو بھٹو زادوں کے محلات روشن رکھنے کے لیے عوام کے گھروں کے چراغ بجھا رہا ہے۔

کراچی کی سڑکوں پر چلنا اب کسی ایڈونچر پارک میں جھولے لینے کے مترادف ہے۔ انہی گڑھوں میں سے ایک میں گر کر پیپلز پارٹی کے اداکار مصطفی قریشی بھی شدید زخمی ہوئے۔ پھر ایک ہی ملک میں مختلف ٹریفک قوانین بھی حیرت کا باعث ہیں۔ بات رشوت کی ہو یا جرمانوں کی سندھ ہمیشہ آگے رہتا ہے۔

پنجاب میں سڑکوں کی مرمت پر اربوں روپے کے منصوبے جاری ہیں جبکہ کراچی میں ایسے منصوبے تاخیر کے باعث شہریوں کے لیے وبال جان ہیں۔ پنجاب میں سگنل چمک رہے ہیں لینیں بحال ہو رہی ہیں اور کراچی میں سڑک اور نالا ایک ہی دھارا بن چکے ہیں۔ بارش ہو تو سڑک اور سیوریج کا فرق مٹ جاتا ہے اور ڈرائیور سوچتا رہ جاتا ہے کہ یہ روڈ ہے یا دریا۔ پنجاب میں حالات منظم منصوبہ بندی کے تحت بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں جبکہ سندھ میں عوام اب بھی بھٹو کے مزار کے گرد امید کے چراغ جلا رہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ لاہور میں ترقی کی بارش ہوتی ہے اور سندھ میں بارش آتے ہی بھٹو یہی فلسفہ دہراتے ہیں کہ جب زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔ پھر کراچی کا المیہ یہ بھی ہے کہ سوائے جماعت اسلامی کے کوئی بھی جماعت شہریوں پر ہونے والے ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کرتی۔ چلیں مان لیا کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے منہ میں سرکار نے وزارتوں کی ہڈی ڈال کر ان کے منہ بند کر دیے ہیں مگر سب سے زیادہ ووٹ لینے کی دعویدار پی ٹی آئی کہاں ہے؟ کیا ان کی سیاست کا مقصد عمران خان کی رہائی کے علاوہ کچھ نہیں؟ کیا انہیں کراچی کے شہریوں کی مشکلات سے کوئی سروکار نہیں؟ پھر ستم بالائے ستم یہ کہ پیپلز پارٹی کے رہنما ڈھٹائی سے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم لاہور میں بھی کراچی جیسی ترقی لائیں گے۔ یہ دھمکی سنتے ہی لاہوری زندہ بھٹو سے پناہ مانگنے لگتے ہیں۔

عبید مغل

متعلقہ مضامین

  • ای چالان یا لوٹ کا نیا طریقہ؟
  • کرشنگ سیزن شروع ہونے کے پیش نظر شوگر ملز کی مانیٹرنگ مزید سخت کرنے کا فیصلہ
  • 27 ویں آئینی ترمیم، مجوزہ آئینی عدالت، 7 ججز، 68 سال ریٹائرمنٹ، ’’ کمانڈر آف ڈیفنس فورسز‘‘ کا نیا عہدہ متعارف کرانے پر غور
  • ماہواری کی مصنوعات پر ٹیکس چیلنج، لاہور ہائیکورٹ نے رٹ قابلِ سماعت قرار دے دی
  • کراچی: ڈمپر کی ٹکر سے شہری کی ہلاکت کے مقدمے میں لیاقت محسود کی عبوری ضمانت میں توسیع
  • موبائل فونز سے پی ٹی اے ٹیکس ختم کیا جائے، علی قاسم گیلانی نے قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو خط لکھ دیا
  • کراچی:وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کراچی چیمبر آف کامرس کے دورے کے موقع پر تاجر و صنعتکاروںسے خطاب کررہے ہیں
  • مینول طریقے سے انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی تاریخ میں 30 نومبر تک توسیع
  • مینول ٹیکس فائلرز کیلئے ریٹرن جمع کرانے کی تاریخ میں 30 نومبر تک توسیع
  • مینوئل انکم ٹیکس فائلرز کیلئے خصوصی سہولت کا اعلان