پاکستان میں بڑھتی دہشتگردی: کیا افغان طالبان کی ٹی ٹی پی پر گرفت کمزور ہوگئی؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
19 اپریل کو پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کے دورہِ کابل اور اُس کے بعد مئی اور اگست میں پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کے بعد یہ اُمید تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان دہشتگردی کے حوالے سے تحفظات دور کیے جائیں گے اور تعلقات آگے بڑھیں گے، جس سے خطّے میں استحکام اور سکیورٹی صورتحال میں بہتری آئے گی۔
افغان سرزمین سے حملے اور پاکستانی ردِ عمللیکن افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی کی مسلسل دہشت گرد کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان نے 27 اگست کو افغانستان میں موجود دہشتگرد ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے، جس کے بعد کابل میں پاکستانی سفیر کو طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:20 سال مزید جنگ کے لیے تیار ہیں، بگرام ایئربیس دوبارہ حاصل کرنے کی امریکی دھمکیوں پر طالبان کا ردعمل
دوسری طرف 17 ستمبر کو پاکستانی دفترِ خارجہ نے افغان سفیر احمد شکیب کو دفترِ خارجہ طلب کیا اور تحریکِ طالبانِ پاکستان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ پاکستان نے افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف سخت ایکشن لے۔
علاقائی عدم استحکام اور بین الاقوامی خدشاتصدر ٹرمپ کے بگرام ائربیس پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بیان نے بھی خطّے میں سیکیورٹی صورتحال کو عدم استحکام سے دوچار کیا ہے، لیکن پاکستان کا مسئلہ ٹی ٹی پی ہے جو افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشتگرد کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور پاکستان کو افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں آپریشن کی ضرورت درپیش ہے۔
اقوامِ متحدہ میں تنبیہ اور مطالبہ18 ستمبر کو اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے سلامتی کونسل کو خبردار کیا کہ افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانے پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرناک ہیں اور یہاں موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف بین الاقوامی طور پر ایکشن لیا جانا چاہیے۔
پاکستان کا مؤقف اور مسئلے کی نوعیتپاکستانی دفترِ خارجہ اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں صحافیوں کو بتاتا ہے کہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جس کے ساتھ ہمارے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی رشتے ہیں۔
ہم افغانستان کے ساتھ نارمل تعلقات چاہتے ہیں اور تجارت بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ ہمارا مسئلہ صرف تحریکِ طالبانِ پاکستان کے محفوظ ٹھکانے اور وہاں سے پاکستانی سرزمین پر دہشتگرد حملے ہیں۔
افغان طالبان کا کنٹرول اور متفرق گروہمبصرین کے مطابق ساری صورتحال کا خلاصہ یہ ہے کہ افغان طالبان پورے افغانستان پر کنٹرول نہیں رکھتے؛ مختلف دہشت گرد گروہ افغانستان کے مختلف علاقوں پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:طالبان نے بگرام ایئر بیس واپس لینے کے امریکی امکان کو سختی سے مسترد کردیا
اس کے ساتھ ساتھ بیرونی خفیہ ایجنسیوں کا کھیل دہشت گردی کی صورتحال کو مزید خراب کر رہا ہے۔
بھارت کی ممکنہ مداخلتامریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوامِ متحدہ میں سابق مستقل مندوب ایمبیسڈر مسعود خان نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ تعلقات کی خرابی میں بھارت کا ہاتھ ہے۔
ان کے بقول یہ شواہد پر مبنی بات کی جا سکتی ہے کہ بھارت افغانستان میں طالبان کے دھڑوں کے بیچ غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پیدا کر رہا ہے اور طالبان کو پاکستان کے خلاف بدگمان کرتا رہتا ہے۔ افغانستان میں بھارت کا بڑا نیٹ ورک کارفرما ہے۔
مسعود خان نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں جہاں سے انہیں اسلحہ اور تربیت ملتی ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغان طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ کی بار بار یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان میں دہشتگردی کے لیے افغان سرزمین استعمال ہوتی ہے۔
ایمبیسڈر مسعود خان نے کہا کہ افغانستان میں داعش بھی موجود ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے۔ ان کے مطابق بی ایل اے بھی وہاں سے سرحد پار کر کے پاکستان پر حملے کرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کراچی میں سی ٹی ڈی کی بڑی کارروائی، القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے 5 شدت پسند گرفتار
پاکستان اور امریکا کے درمیان دوطرفہ مذاکرات میں یہ طے پایا تھا کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔ اس ساری صورتحال میں افغان قیادت کو پہل کرنی چاہیے۔
نظریاتی تعلق اور خفیہ ایجنسیوں کا کردارایمبیسڈر مسعود خان نے کہا کہ افغان طالبان اور تحریکِ طالبانِ پاکستان کے درمیان نظریاتی تعلق موجود ہے اور اس ملک میں بہت سی خفیہ ایجنسیاں کام کر رہی ہیں۔
طالبان کا پورے ملک پر مؤقف نہیں، حماد حسنسینئر صحافی حماد حسن نے وی نیوز کو بتایا کہ افغان طالبان کا اختیار عملی طور پر کابل تک محدود ہے۔ افغانستان میں نہ تو کوئی مستحکم سیاسی حکومت ہے اور نہ ہی جمہوری طرز حکومت، وہاں قبائلی نوعیت کے سردار اور وار لارڈز کا رجحان ہے۔
ان کے مطابق اس وقت افغانستان میں تقریباً 60 دہشتگرد گروہ کام کر رہے ہیں، جن میں جماعت الاحرار، حافظ گل بہادر گروپ، ٹی ٹی پی، آئی ایس خراسان وغیرہ شامل ہیں۔
مختلف علاقوں میں مختلف گروہوں کا غلبہ ہے، جیسے کنڑ میں طالبان، ننگرہار میں داعش، پکتیا اور پکتیکا میں ٹی ٹی پی، خوست میں حافظ گل بہادر وغیرہ۔ لہٰذا طالبان جو کہتے ہیں وہ پورے افغانستان کی رائے نہیں سمجھا جا سکتا۔
بیرونی مداخلت اور محفوظ ٹھکانےحماد حسن نے بیرونی مداخلت کے بارے میں کہا کہ افغانستان ایک جنگ زدہ ملک ہے اور جنگ زدہ ممالک میں بیرونی ایجنسیاں اپنے مفادات کے لیے کام کرتی ہیں۔
بیرونی ایجنسیاں اپنی پراکسیز کو متحرک کر دیتی ہیں۔ انہوں نے مثال کے طور پر کہا کہ داعش کے اہم لیڈر سیف العدل اس وقت افغانستان میں موجود ہیں اور ان کے بارے میں سوال اٹھتا ہے کہ انہیں کس نے یا کن صلاحیتوں نے وہاں محفوظ ٹھکانے فراہم کیے۔
بین الاقوامی یکجہتی کی ضرورتحماد حسن کا مؤقف یہ ہے کہ جب تک تمام ممالک دہشت گردی کے خلاف ایک مشترکہ موقف اختیار نہیں کریں گے، پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان امریکا ٹی ٹی پی حماد حسن دہشتگرد طالبان کابل مسعود خان.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان امریکا ٹی ٹی پی دہشتگرد طالبان کابل ایمبیسڈر مسعود خان کہ افغان طالبان افغانستان میں محفوظ ٹھکانے افغان سرزمین کہ افغانستان افغانستان کے کہا کہ افغان میں پاکستان پاکستان کے طالبان کا کے درمیان ٹی ٹی پی کے خلاف گردی کے کے ساتھ ہے اور کے لیے یہ بھی
پڑھیں:
افغان طالبان کی ڈھٹائی، ثالثوں نے بھی ہاتھ اٹھا لیے، استنبول مذاکرات بے نتیجہ ختم
ویب ڈیسک: پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں ہونے والے مذاکرات ناکام ہوگئے جس کے بعد مذاکرت میں شامل پاکستانی وفد واپس روانہ ہوگیا۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاک افغان مذاکرات ختم ہوچکے ہیں، مذاکرات کے اگلے دور کا اب کوئی پروگرام نہیں، ہمارا خالی ہاتھ واپس آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ثالثوں کو بھی اب افغانستان سے امید نہیں ہے۔
اپنے بیان میں وزیر دفاع نے کہا کہ ترکیے اور قطرکے شکر گزار ہیں، خلوص کے ساتھ ثالثوں کا کردار ادا کیا، ترکیہ اور قطرپاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتے ہیں۔
ڈالر کی قیمت میں کمی
وزیر دفاع نےبتایا کہ افغان وفد کہہ رہا تھا کہ ان کی بات کا زبانی اعتبار کیا جائے جس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بین الاقوامی مذاکرات کے دوران کی گئی حتمی بات تحریری طور پر کی جاتی ہے، مذاکرات میں افغان وفد ہمارے موقف سے متفق تھا مگر لکھنے پر راضی نہ تھا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت مذاکرات ختم ہوچکے ہیں، اب ثالثوں نے بھی ہاتھ اٹھالیے ہیں ان کو ذرا بھی امید ہوتی تو وہ کہتے کہ آپ ٹھہر جائیں، اگر ثالث ہمیں کہتے کہ انہیں امید ہے اور ہم ٹھہر جائیں تو ہم ٹھہر جاتے۔
روزِ اول سے پاکستان کو ڈیجیٹل نیشن بنانے کیلئے اقدامات کو اولین ترجیح دی؛ وزیراعظم
وزیر دفاع نے واضح کیا کہ اگرافغان سرزمین سے پاکستان پر حملہ ہوا تو اس حساب سے ردعمل دیں گے، اگرافغان سرزمین سے کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو ہمارے لیے سیز فائر قائم ہے، ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر حملہ نہ ہو۔
واضح رہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ افغان طالبان زبانی یقین دہانیاں کروانے کے بجائے کسی تحریری معاہدے کا حصہ بن جائیں تو یہ دونوں ممالک اور پورے خطے کے لیے بہت اچھا ہو گا۔
رکشہ ڈرائیور کو بچانے والا پولیس کانسٹیبل چل بسا
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اگر کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ، افغان طالبان کے قابو میں نہیں ہیں تو پھر پاکستان کو انھیں قابو کرنے دیں اور اگر پاکستان افغانستان میں کارروائی کرتا ہے تو پھر افغانستان کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں مذاکرات کا تیسرا دور شروع ہوا تھا لیکن پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں ڈیڈلاک ہو گیا۔
8 نومبر بروز ہفتہ کو مقامی عام تعطیل کا اعلان