اسلام آباد( آئی این پی )عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف  ) اور پاکستان کے مابین ایک ارب ڈالر کی نئی قسط کیلئے مذاکرات رواں ماہ کے آخر میں ہوں گے۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف مشن  کل 25 ستمبر سے 8 اکتوبر تک پاکستان کا دورہ کرے گا، پہلے مرحلے میں تکنیکی، دوسرے مرحلے میں پالیسی سطح کے مذاکرات ہو گے۔وزارت خزانہ، توانائی، منصوبہ بندی، اسٹیٹ بنک کیساتھ مذاکرات ایجنڈے کا حصہ ہوگا، جبکہ ایف بی آر، اوگرا، نیپرا سمیت دیگر اداروں اور وزارتوں سے بھی مذاکرات ہوں گے۔آئی ایم ایف جائزہ مشن کے صوبائی حکومتوں سے بھی الگ الگ مذاکرات کے شیڈول بھی طے پا گئے ہیں۔وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق مشن کے دورہ پاکستان کے  لئے  ورکنگ حتمی مرحلے میں داخل ہوگئی ہے، جبکہ ایف بی آر کے مجوزہ ٹیکس اہداف میں کمی کے بارے میں انفورسمنٹ پلان ورکنگ کا حصہ ہوگا، اس کے علاوہ سیلاب کی تباہ کاریوں اور متاثرین کیلئے ریلیف بارے بھی تجاویز پیش ہوں گی۔سیلاب متاثرین کو فنڈز منتقلی،بجلی بلوں میں ریلیف ورکنگ کا حصہ، جبکہ وفد دورے میں پاکستان کی معاشی کارکردگی کا جائزہ لیگا۔ذرائع نے بتایا کہ مختلف وزارتوں کی کارکردگی کے اہداف کا جائزہ بھی مذاکرات کا حصہ ہوگا، جبکہ ڈسکوز کی نجکاری سمیت دیگر بینچ مارکس اقتصادی جائزہ میں زیر بحث آئیں گے، مذاکرات مکمل ہونے پر پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی اگلی قسط ملے گی، مشن کا دورہ 7 ارب ڈالر کے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی پروگرام کے تحت ہوگا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: ئی ایم ایف کا حصہ

پڑھیں:

علاقائی تبدیلیاں نئی اقتصادی حکمتِ عملی کی متقاضی ہیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد(کامرس ڈیسک)معروف تاجر رہنما شاہد رشید بٹ نے کہا ہے کہ بڑھتی ہوئی عالمی سیاسی غیر یقینی نئے دفاعی و تجارتی اتحاد اوربھارت اور افغانستان پر بڑھتے ہوئے امریکی دباؤ سے پاکستان کی تجارت متاثر ہو سکتی ہے۔ حکومت فوری طور پر تجارتی پالیسی پر نظرِثانی کرے۔ جب عالمی معیشت اور جغرافیائی سیاست تیزی سے بدل رہی ہو تو پاکستان پرانی پالیسیوں پر قائم نہیں رہ سکتا۔ پاکستان کی تجارتی مسابقت بات پر منحصر ہے کہ اس کی تجارتی حکمتِ عملی نئے حقائق سے کس حد تک ہم آہنگ ہے۔کاروباری برادری سے خطاب کرتے ہوئے شاہد رشید بٹ نے کہا کہ پاکستان کو درپیش تجارتی مسائل صرف محصولات میں ردوبدل سے حل نہیں ہو سکتے بلکہ یہ ایک وسیع تر عالمی تناظر سے جڑے ہوئے ہیں۔ کاروباری طبقے میں یہ تشویش بڑھ رہی ہے کہ برآمدات بڑھانے اور علاقائی تجارتی راہداریوں سے بھرپور فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے جڑی مالیاتی شرائط طویل عرصے سے پاکستان کی تجارتی پالیسی پر اثر انداز ہوتی رہی ہیں۔ محصولات میں اضافہ اور درآمدی پابندیاں زرِمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کے نام پر نافذ کی گئیں مگر یہ اقدامات صرف وقتی حل ہیں اور ان سے طویل مدتی ترقی ناممکن ہے ۔دنیا کے زیادہ تر ممالک اپنی حکمت عملی پر نظرِثانی کر رہے ہیں۔ بھارت جو خطے کی بڑی معیشت ہیامریکہ کی جانب سے ٹیکنالوجی رسائی تجارتی مراعات اور ویزوں کے حصول رکاوٹوں کا سامنا کر رہا ہے جس سے اسکی چالیس ارب ڈالر کی ترسیلات متاثر ہو رہی ہیں۔ خلیجی ممالک نئے معاشی و دفاعی اتحاد بنا رہے ہیں جبکہ چین بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں میں سرمایہ کاری بڑھا رہا ہے جس سے پاکستان کے لیے پائیدار تجارتی شراکت داریوں کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔شاہد رشید بٹ نے کہا کہ درآمدات پر ضرورت سے زیادہ انحصار مہنگائی کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔درامدات روکنے توانائی کی قیمت اورمحصولات بڑھانے نے عوام اور معیشت کو متاثر کیا ہے اور اہم شعبوں میں سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے جس پر توجہ دی جائے۔ انھوں نے کہا کہ وقتی اقدامات سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح کرتے ہیں۔ ہمیں واضح برآمدی اہداف مقرر کرنے، مصنوعات کی بنیاد وسیع کرنے اور نئے تجارتی معاہدے کرنے کی ضرورت ہیکیونکہ پاکستان کی ترقی، روزگار اور مہنگائی براہِ راست تجارت سے جڑے ہوئے ہیں۔

کامرس ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • کراچی والے ہوجائیں ہوشیار ! ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر چالان گھر پہنچے گا
  • آئی ایم ایف مشن کل پاکستان پہنچے گا، اقتصادی جائزے کے بعد نئی قسط ملنے کا امکان
  • ایشیا کپ: سری لنکا کیخلاف میچ کیلیے پاکستانی ٹیم میں تبدیلی کا امکان
  • آئی ٹی سی این ایشیا 2025 کا کراچی میں آغاز ہوگیا، اہم معاہدوں کا بھی امکان
  • علاقائی تبدیلیاں نئی اقتصادی حکمتِ عملی کی متقاضی ہیں
  • ڈاکٹروں کو ایچ-1 بی امریکی ویزا فیس سے استثنیٰ ملنے کا امکان
  • دو طرفہ ون ڈے سیریز: پاکستان نے جنوبی افریقہ کو 6 وکٹوں سے شکست دے دی
  • سی پیک فیز ٹو: پاک چین اقتصادی تعاون میں نئے دور کا آغاز
  • ایشیا کپ: بھارت کے خلاف میچ کیلیے پاکستان ٹیم میں اہم تبدیلیوں کا امکان