سالوں سے معمہ بنے گڑھوں کے پیچھے کی اصل وجہ معلوم ہوگئی
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سائنسدانوں نے بالآخر سائبیریا میں اچانک نمودار ہونے والے ان پراسرار گڑھوں (GECs) کے بارے میں نئی تحقیق پیش کی ہے جنہوں نے ایک دہائی سے ماہرین کو الجھا رکھا تھا۔
یہ گڑھے سب سے پہلے 2012 میں یمال اور گیدان کے علاقوں میں دریافت ہوئے تھے، جن کی گہرائی 164 فٹ تک ہے اور یہ زمین پھٹنے کے بعد مٹی و برف کو سیکڑوں فٹ بلندی پر اچھال دیتے ہیں۔ شروع میں ان کے بارے میں مختلف نظریات سامنے آئے تھے جیسے شہابِ ثاقب کا گرنا یا قدرتی گیس کے اچانک دھماکے، لیکن وہ وضاحتیں صرف سائبیریا کے محدود حصے میں ان کے نمودار ہونے کو پوری طرح نہیں سمجھا پاتی تھیں۔
تازہ تحقیق، جو سائنس آف دی ٹوٹل انوائرمنٹ نامی جرنل میں شائع ہوئی، بتاتی ہے کہ یہ گڑھے صرف یمال اور گیدان میں دیکھنے میں آئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ان علاقوں کی کچھ خاص خصوصیات اس کے پیچھے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق یہاں موجود زیرِ زمین گیس کے بڑے ذخائر اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بڑھتا ہوا درجہ حرارت ان گڑھوں کی اصل وجہ ہیں۔
تحقیق کے مطابق جب زمین کی گہرائی میں موجود گیس اور حرارت میں اضافہ ہوتا ہے تو اوپر کی جمی ہوئی برف کی تہہ پگھل کر پتلی ہو جاتی ہے۔ اس دوران گیس دباؤ بناتی ہے، اور جیسے ہی یہ دباؤ اپنی حد سے تجاوز کرتا ہے تو سطح دھماکے سے پھٹ جاتی ہے اور ایک بڑا گڑھا وجود میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برف اور مٹی زور دار دھماکے سے فضا میں اچھل جاتے ہیں اور زمین پر گہرا سوراخ باقی رہ جاتا ہے۔
ماہرین نے کہا ہے کہ یہ ایک جاری عمل ہے اور مستقبل میں سائبیریا میں مزید ایسے گڑھے دریافت ہو سکتے ہیں۔ وہ امید رکھتے ہیں کہ اس مقام پر مزید تحقیقی مشن بھیجے جائیں اور کمپیوٹر ماڈلز کے ذریعے ان مظاہر کو مزید بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے۔ اس تحقیق نے واضح کیا ہے کہ جی ای سی ایس موسمیاتی تبدیلی اور زیرِ زمین گیس کے ملاپ سے بننے والا ایک قدرتی اور خطرناک رجحان ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
ڈی این اے تحقیق پر نوبل انعام یافتہ جیمس واٹسن انتقال کرگئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ڈی این اے پر تحقیق میں نوبل انعام جیتنے والے معروف امریکی سائنسدان جیمس واٹسن 97 برس کی عمر انتقال کر گئے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ڈی این اے کی ساخت کے حوالے سے نوبل انعام پانے والے امریکی سائنسدان جیمس واٹسن طویل عرصے سے علیل تھے، ان کی موت کی تصدیق کولڈ سپرنگ ہاربر لیبارٹری کے ترجمان نے کی۔
جیمس واٹسن نے 1962ء میں نوبل انعام جیتا تھا، جیمس واٹسن نے اپنے موت سے قبل ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں کچھ اہم کام کرنا چاہتے تھے، وہ سچائی کی کھوج میں تھے اور یہی ان کے زندگی کا مقصد تھا۔
جیمس واٹسن کو 1953ء میں فرانسس کرک اور مورس ولکنز کے ساتھ ڈبل ہیلکس سٹرکچر دریافت کرنے پر نوبل انعام کا شریک حقدار قرار دیا گیا تھا، نیچر نامی رسالے میں پہلی بار شائع ہونے والی ان کی تحقیق کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے جسے مالیکیولر بائیولوجی میں اہم پیشرفت قرار دیا گیا۔