Jasarat News:
2025-09-24@16:19:29 GMT

سالوں سے معمہ بنے گڑھوں کے پیچھے کی اصل وجہ معلوم ہوگئی

اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سائنسدانوں نے بالآخر سائبیریا میں اچانک نمودار ہونے والے ان پراسرار گڑھوں (GECs) کے بارے میں نئی تحقیق پیش کی ہے جنہوں نے ایک دہائی سے ماہرین کو الجھا رکھا تھا۔

یہ گڑھے سب سے پہلے 2012 میں یمال اور گیدان کے علاقوں میں دریافت ہوئے تھے، جن کی گہرائی 164 فٹ تک ہے اور یہ زمین پھٹنے کے بعد مٹی و برف کو سیکڑوں فٹ بلندی پر اچھال دیتے ہیں۔ شروع میں ان کے بارے میں مختلف نظریات سامنے آئے تھے جیسے شہابِ ثاقب کا گرنا یا قدرتی گیس کے اچانک دھماکے، لیکن وہ وضاحتیں صرف سائبیریا کے محدود حصے میں ان کے نمودار ہونے کو پوری طرح نہیں سمجھا پاتی تھیں۔

تازہ تحقیق، جو سائنس آف دی ٹوٹل انوائرمنٹ نامی جرنل میں شائع ہوئی، بتاتی ہے کہ یہ گڑھے صرف یمال اور گیدان میں دیکھنے میں آئے ہیں جس کا مطلب ہے کہ ان علاقوں کی کچھ خاص خصوصیات اس کے پیچھے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق یہاں موجود زیرِ زمین گیس کے بڑے ذخائر اور موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بڑھتا ہوا درجہ حرارت ان گڑھوں کی اصل وجہ ہیں۔

تحقیق کے مطابق جب زمین کی گہرائی میں موجود گیس اور حرارت میں اضافہ ہوتا ہے تو اوپر کی جمی ہوئی برف کی تہہ پگھل کر پتلی ہو جاتی ہے۔ اس دوران گیس دباؤ بناتی ہے، اور جیسے ہی یہ دباؤ اپنی حد سے تجاوز کرتا ہے تو سطح دھماکے سے پھٹ جاتی ہے اور ایک بڑا گڑھا وجود میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برف اور مٹی زور دار دھماکے سے فضا میں اچھل جاتے ہیں اور زمین پر گہرا سوراخ باقی رہ جاتا ہے۔

ماہرین نے کہا ہے کہ یہ ایک جاری عمل ہے اور مستقبل میں سائبیریا میں مزید ایسے گڑھے دریافت ہو سکتے ہیں۔ وہ امید رکھتے ہیں کہ اس مقام پر مزید تحقیقی مشن بھیجے جائیں اور کمپیوٹر ماڈلز کے ذریعے ان مظاہر کو مزید بہتر طریقے سے سمجھا جا سکے۔ اس تحقیق نے واضح کیا ہے کہ جی ای سی ایس موسمیاتی تبدیلی اور زیرِ زمین گیس کے ملاپ سے بننے والا ایک قدرتی اور خطرناک رجحان ہے۔

ویب ڈیسک شیخ یاسین.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

پاکستان میں بڑھتی دہشتگردی: کیا افغان طالبان کی ٹی ٹی پی پر گرفت کمزور ہوگئی؟

19 اپریل کو پاکستان کے نائب وزیراعظم و وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار کے دورہِ کابل اور اُس کے بعد مئی اور اگست میں پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کے بعد یہ اُمید تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان دہشتگردی کے حوالے سے تحفظات دور کیے جائیں گے اور تعلقات آگے بڑھیں گے، جس سے خطّے میں استحکام اور سکیورٹی صورتحال میں بہتری آئے گی۔

افغان سرزمین سے حملے اور پاکستانی ردِ عمل

لیکن افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی کی مسلسل دہشت گرد کارروائیوں کی وجہ سے پاکستان نے 27 اگست کو افغانستان میں موجود دہشتگرد ٹھکانوں پر فضائی حملے کیے، جس کے بعد کابل میں پاکستانی سفیر کو طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:20 سال مزید جنگ کے لیے تیار ہیں، بگرام ایئربیس دوبارہ حاصل کرنے کی امریکی دھمکیوں پر طالبان کا ردعمل

دوسری طرف 17 ستمبر کو پاکستانی دفترِ خارجہ نے افغان سفیر احمد شکیب کو دفترِ خارجہ طلب کیا اور تحریکِ طالبانِ پاکستان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کے خلاف احتجاج کیا۔ پاکستان نے افغان حکومت پر زور دیا کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف سخت ایکشن لے۔

علاقائی عدم استحکام اور بین الاقوامی خدشات

صدر ٹرمپ کے بگرام ائربیس پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بیان نے بھی خطّے میں سیکیورٹی صورتحال کو عدم استحکام سے دوچار کیا ہے، لیکن پاکستان کا مسئلہ ٹی ٹی پی ہے جو افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشتگرد کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور پاکستان کو افغان سرحد سے ملحقہ علاقوں میں آپریشن کی ضرورت درپیش ہے۔

اقوامِ متحدہ میں تنبیہ اور مطالبہ

18 ستمبر کو اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے سلامتی کونسل کو خبردار کیا کہ افغانستان کے اندر دہشت گردوں کے ٹھکانے پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرناک ہیں اور یہاں موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف بین الاقوامی طور پر ایکشن لیا جانا چاہیے۔

پاکستان کا مؤقف اور مسئلے کی نوعیت

پاکستانی دفترِ خارجہ اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں صحافیوں کو بتاتا ہے کہ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جس کے ساتھ ہمارے تاریخی، ثقافتی اور مذہبی رشتے ہیں۔

ہم افغانستان کے ساتھ نارمل تعلقات چاہتے ہیں اور تجارت بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ ہمارا مسئلہ صرف تحریکِ طالبانِ پاکستان کے محفوظ ٹھکانے اور وہاں سے پاکستانی سرزمین پر دہشتگرد حملے ہیں۔

افغان طالبان کا کنٹرول اور متفرق گروہ

مبصرین کے مطابق ساری صورتحال کا خلاصہ یہ ہے کہ افغان طالبان پورے افغانستان پر کنٹرول نہیں رکھتے؛ مختلف دہشت گرد گروہ افغانستان کے مختلف علاقوں پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:طالبان نے بگرام ایئر بیس واپس لینے کے امریکی امکان کو سختی سے مسترد کردیا

اس کے ساتھ ساتھ بیرونی خفیہ ایجنسیوں کا کھیل دہشت گردی کی صورتحال کو مزید خراب کر رہا ہے۔

بھارت کی ممکنہ مداخلت

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوامِ متحدہ میں سابق مستقل مندوب ایمبیسڈر مسعود خان نے وی نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو میں کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ تعلقات کی خرابی میں بھارت کا ہاتھ ہے۔

ان کے بقول یہ شواہد پر مبنی بات کی جا سکتی ہے کہ بھارت افغانستان میں طالبان کے دھڑوں کے بیچ غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پیدا کر رہا ہے اور طالبان کو پاکستان کے خلاف بدگمان کرتا رہتا ہے۔ افغانستان میں بھارت کا بڑا نیٹ ورک کارفرما ہے۔

امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوامِ متحدہ میں سابق مستقل مندوب ایمبیسڈر مسعود خان۔

مسعود خان نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے موجود ہیں جہاں سے انہیں اسلحہ اور تربیت ملتی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغان طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ کی بار بار یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان میں دہشتگردی کے لیے افغان سرزمین استعمال ہوتی ہے۔

ایمبیسڈر مسعود خان نے کہا کہ افغانستان میں داعش بھی موجود ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ افغانستان کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے۔ ان کے مطابق بی ایل اے بھی وہاں سے سرحد پار کر کے پاکستان پر حملے کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:کراچی میں سی ٹی ڈی کی بڑی کارروائی، القاعدہ اور ٹی ٹی پی کے 5 شدت پسند گرفتار

پاکستان اور امریکا کے درمیان دوطرفہ مذاکرات میں یہ طے پایا تھا کہ دونوں ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے۔ اس ساری صورتحال میں افغان قیادت کو پہل کرنی چاہیے۔

نظریاتی تعلق اور خفیہ ایجنسیوں کا کردار

ایمبیسڈر مسعود خان نے کہا کہ افغان طالبان اور تحریکِ طالبانِ پاکستان کے درمیان نظریاتی تعلق موجود ہے اور اس ملک میں بہت سی خفیہ ایجنسیاں کام کر رہی ہیں۔

طالبان کا پورے ملک پر مؤقف نہیں، حماد حسن

سینئر صحافی حماد حسن نے وی نیوز کو بتایا کہ افغان طالبان کا اختیار عملی طور پر کابل تک محدود ہے۔ افغانستان میں نہ تو کوئی مستحکم سیاسی حکومت ہے اور نہ ہی جمہوری طرز حکومت، وہاں قبائلی نوعیت کے سردار اور وار لارڈز کا رجحان ہے۔

ان کے مطابق اس وقت افغانستان میں تقریباً 60 دہشتگرد گروہ کام کر رہے ہیں، جن میں جماعت الاحرار، حافظ گل بہادر گروپ، ٹی ٹی پی، آئی ایس خراسان وغیرہ شامل ہیں۔

سینئر صحافی حماد حسن

مختلف علاقوں میں مختلف گروہوں کا غلبہ ہے، جیسے کنڑ میں طالبان، ننگرہار میں داعش، پکتیا اور پکتیکا میں ٹی ٹی پی، خوست میں حافظ گل بہادر وغیرہ۔ لہٰذا طالبان جو کہتے ہیں وہ پورے افغانستان کی رائے نہیں سمجھا جا سکتا۔

بیرونی مداخلت اور محفوظ ٹھکانے

حماد حسن نے بیرونی مداخلت کے بارے میں کہا کہ افغانستان ایک جنگ زدہ ملک ہے اور جنگ زدہ ممالک میں بیرونی ایجنسیاں اپنے مفادات کے لیے کام کرتی ہیں۔

بیرونی ایجنسیاں اپنی پراکسیز کو متحرک کر دیتی ہیں۔ انہوں نے مثال کے طور پر کہا کہ داعش کے اہم لیڈر سیف العدل اس وقت افغانستان میں موجود ہیں اور ان کے بارے میں سوال اٹھتا ہے کہ انہیں کس نے یا کن صلاحیتوں نے وہاں محفوظ ٹھکانے فراہم کیے۔

بین الاقوامی یکجہتی کی ضرورت

حماد حسن کا مؤقف یہ ہے کہ جب تک تمام ممالک دہشت گردی کے خلاف ایک مشترکہ موقف اختیار نہیں کریں گے، پاکستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغانستان امریکا ٹی ٹی پی حماد حسن دہشتگرد طالبان کابل مسعود خان

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں بڑھتی دہشتگردی: کیا افغان طالبان کی ٹی ٹی پی پر گرفت کمزور ہوگئی؟
  • غزہ: البصرہ میں بارودی مواد سے بھری بکتر بند گاڑیوںکو عمارتوںسے ٹکرانے سے دھماکے کے بعد دھواں اٹھ رہاہے ، چھوٹی تصویر میں اسرائیلی بمباری سے الشاطی پناہ گزین کیمپ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکاہے
  • بلوچستان میں ٹریک پر دھماکا ،جعفر ایکسپریس کی بوگیاں پٹری سے اتر گئیں،متعدد مسافر زخمی
  • فرانس: مساجد میں خنزیر کے سر رکھنے کے پیچھے کس کا ہاتھ؟
  • 2 بچوں کو قتل کرکے لاشیں سالوں تک سوٹ کیس میں چھپانے والی ماں پر جرم ثابت
  • ڈسپوزیبل برتن الزائمر کا باعث بن سکتے ہیں، نئی تحقیق میں خطرناک انکشاف
  • امریکا: 40 ویں سالگرہ سے قبل کروڑوں کا انعام جیتنے والا خوش قسمت شہری
  • پاک سعودی معاہدے میں شہبازشریف کا کتنا کردار ہے سب کو معلوم ہے
  • قدرتی آفات اور گلیشیئر کے پگھلنے کا عمل