سائنسدانوں کی ٹیلر سوئفٹ پر دلچسپ تحقیق، کیا جاننا چاہتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
امریکی سائنس دانوں نے انسانی آواز میں تبدیلی کے اسباب جاننے کے لیے عالمی شہرت یافتہ پاپ گلوکارہ ٹیلر سوئفٹ کو تحقیق کا مرکز بنایا اور کئی برس تک ان کی آواز کے ارتقا کا مشاہدہ کیا۔
تحقیق کے نتائج سے معلوم ہوا کہ انسانی لہجہ صرف رہائش گاہ کے فرق سے ہی نہیں بلکہ سماجی ماحول، پیشے اور ذاتی شناخت سے بھی متاثر ہوتا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق یونیورسٹی آف مینیسوٹا کے دو محققین نے 2008 سے 2019 کے دوران ٹیلر سوئفٹ کی آواز اور لہجے میں آنے والی تبدیلیوں کو باریک بینی سے پرکھا۔ انہوں نے گلوکارہ کے متعدد انٹرویوز اور گانوں کا تجزیہ کیا تاکہ یہ جان سکیں کہ وقت کے ساتھ ان کے لب و لہجے میں کیا تغیر آیا۔
ٹیلر سوئفٹ 1989 میں پنسلوانیا میں پیدا ہوئیں اور 13 سال کی عمر میں کنٹری میوزک کے خواب لیے ٹینیسی منتقل ہو گئیں۔ 2008 میں انہوں نے اپنا مشہور ایلبم فئیرلیس ریلیز کیا، بعد ازاں وہ فلاڈیلفیا اور پھر نیویارک جا بسی۔ ہر مرحلے پر ان کی آواز اور اندازِ گفتگو میں تبدیلی محسوس کی گئی۔
تحقیق سے پتا چلا کہ ٹینیسی میں رہتے ہوئے ان کا لہجہ جنوبی امریکی رنگ لیے ہوئے تھا۔ مثلاً وہ لفظ ride کو rod اور two کو tee-you کی مانند ادا کرتی تھیں۔ لیکن جیسے ہی وہ فلاڈیلفیا اور نیویارک منتقل ہوئیں، ان کا لب و لہجہ معیاری امریکی انداز میں ڈھل گیا۔ نیویارک کے دور میں ان کی آواز کی پچ بھی نسبتاً کم ہوئی، جسے سائنس دان زیادہ اعتماد اور قائدانہ شخصیت کی علامت قرار دیتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ تبدیلی صرف مقام یا پیشے کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ عمر کا عنصر بھی اس میں شامل ہے، کیونکہ 19 سے 30 سال کے درمیان قدرتی طور پر آواز میں کچھ فرق آ جاتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھا گیا کہ جب ٹیلر سوئفٹ صنفی امتیاز یا میوزک انڈسٹری کے حقوق جیسے سماجی موضوعات پر گفتگو کرتی تھیں تو ان کا لہجہ مزید بدل جاتا تھا۔
سائنس دانوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ٹیلر سوئفٹ کی مثال اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانی آواز جامد نہیں بلکہ مسلسل ارتقا پذیر ہے اور یہ فرد کے حالات، ماحول اور شناخت کے مطابق ڈھلتی رہتی ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ٹیلر سوئفٹ کی آواز
پڑھیں:
اسمارٹ فون کا استعمال بچوں کی ذہنی صحت کیلیے خطرناک ہے، تحقیق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نیویارک: ایک تازہ عالمی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ جن بچوں کو 13 سال کی عمر سے پہلے اسمارٹ فون دیا جاتا ہے، ان میں بڑے ہونے پر ذہنی صحت کے سنگین مسائل پیدا ہونے کا خطرہ نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے۔
بین الاقوامی ماہرین کی ٹیم نے اس تحقیق کے دوران ایک لاکھ سے زائد نوجوانوں (عمر 18 تا 24 سال) کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا، جس کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ جن بچوں نے 12 سال یا اس سے کم عمر میں فون کا استعمال شروع کیا، وہ جوانی میں ڈپریشن، اضطراب، خوداعتمادی کی کمی، اور خودکشی کے خیالات جیسے مسائل کا زیادہ شکار پائے گئے۔
تحقیق کے مطابق 10 سے 13 سال کی عمر انسانی دماغی نشوونما اور شخصیت کی تعمیر کا نہایت نازک مرحلہ ہے، اس عمر میں مسلسل فون یا سوشل میڈیا کے استعمال سے بچوں کی جذباتی توازن، توجہ اور سماجی تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تحقیقاتی رپورٹ میں خاص طور پر لڑکیوں میں خطرے کی شرح زیادہ دیکھی گئی، جن لڑکیوں نے 5 یا 6 سال کی عمر میں فون استعمال کرنا شروع کیا، ان میں سے 48 فیصد نے کسی مرحلے پر خودکشی کے خیالات ظاہر کیے جب کہ وہ لڑکیاں جنہیں فون 13 سال کے بعد ملا، ان میں یہ شرح صرف 28 فیصد رہی۔
تحقیق میں تجویز دی گئی ہے کہ بچوں کو 13 سال کی عمر سے پہلے اسمارٹ فون نہ دیا جائے، سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے وقت اور اصول مقرر کیے جائیں، والدین اور اساتذہ بچوں کو آن لائن سرگرمیوں کے نقصانات سے آگاہ کریں،اسکولوں میں ڈیجیٹل ویلفیئر پروگرام متعارف کرائے جائیں۔
ماہرین نے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ گھر میں فون فری زونز قائم کریں اور بچوں کو حقیقی دنیا کی سرگرمیوں جیسے کھیل، مطالعہ اور دوستوں سے بالمشافہ میل جول کی ترغیب دیں تاکہ ان کی ذہنی اور جذباتی صحت متوازن رہے۔