مقبوضہ کشمیر کے لداخ میں پُرتشدد احتجاج مظاہرے، تین شہری جانبحق
اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT
عینی شاہدین کے مطابق احتجاجی مظاہرین بی جے پی دفتر کے باہر جمع ہوئے اور اپنے دیرینہ مطالبات کے حق میں نعرے بازی کی، اس دوران بی جے پی حامیوں کیساتھ انکی شدید جھڑپ ہوئی۔ اسلام ٹائمز۔ مقبوضہ کشمیر کے ضلع لیہہ میں آج ریاستی درجے (اسٹیٹ ہُڈ) اور چھٹے شیڈول کے مطالبے پر شٹر ڈاؤن (ہڑتال) کے دوران احتجاج کے دوران تین سے چار افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے، جبکہ مظاہروں کے دوران درجنوں شہریوں کے زخمی ہونے کی بھی خبر ہے۔ اطلاعات کے مطابق مظاہرین نے لیہہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دفتر کو آگ لگا دی اور ایک سکiورٹی فورسز کی گاڑی بھی نذرِ آتش کر دی۔ عینی شاہدین کے مطابق احتجاجی مظاہرین بی جے پی دفتر کے باہر جمع ہوئے اور اپنے دیرینہ مطالبات کے حق میں نعرے بازی کی۔ اس دوران بی جے پی حامیوں کے ساتھ ان کی شدید جھڑپ ہوئی۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے گولے داغے اور لاٹھی چارج بھی کیا، تاہم حالات مزید بگڑ گئے اور تشدد بھڑک اٹھا اور اس دوران تین سے چار افراد کے ہلاک اور ستر کے قریب عام شہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔
حالات پر قابو پانے کے لئے اضافی فورسز کو علاقے میں تعینات کیا گیا ہے۔ یہ احتجاج چھٹے شیڈول کے تحت آئینی تحفظات اور لداخ کو ریاستی درجہ دینے کے مطالبے کے لئے منعقد ہوا تھا۔ یاد رہے کہ لداخ کی قیادت اور مرکز کے درمیان مذاکرات کا اگلہ سلسلہ 6 اکتوبر کو طے ہے، جس میں لیہہ ایپکس باڈی (LAB) اور کرگل ڈیموکریٹک الائنس (KDA) کے نمائندے شامل ہوں گے۔ احتجاج کی کال LAB یوتھ ونگ کی جانب سے کی گئی تھی، جو اس وقت شدت اختیار کر گیا جب بھوک ہڑتال پر بیٹھے 15 احتجاجیوں میں سے دو کی صحت بگڑنے کے بعد انہیں اسپتال منتقل کرنا پڑا۔ یہ بھوک ہڑتال 10 ستمبر سے جاری ہے اور اس میں ماحولیاتی کارکن سونم وانگچک بھی شریک ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: بی جے پی
پڑھیں:
ہندوتوا نظریے کا فروغ،مقبوضہ کشمیر کے اسکولوں میں وندے ماترم گانا لازمی قرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ا ننت ناگ:بھارت میں انتہاپسند ہندوﺅں کی مودی حکومت ہندوتوا کے نظریے کے فروغ کے لیے رات دن کوشاں ہے،اس سلسلے میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں پر ظلم،تشدد ، قتل و غارت ،کاروبار سے روکنا معمول بنتا جارہا ہے۔
تازہ حکم نامے میں مودی سرکار نے ہندوتوا کے پرچار کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر کے اسکولوں میں ’وندے ماترم‘ گانے کو لازمی قراردے دیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں اسکولوں میں ’وندے ماترم‘ گانے کو لازمی قرار دینے کے سرکاری حکم نامے سے وزیرِ تعلیم سکینہ ایتو نے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔
حالیہ دنوں میں محکمہ ثقافت کی جانب سے جاری کیے گئے ایک حکمنامے میں یہ ہدایت دی گئی تھی کہ وندے ماترم کے 150 برس مکمل ہونے کے موقع پر تمام سرکاری و غیر سرکاری اسکولوں میں ثقافتی اور موسیقی کے پروگرام منعقد کیے جائیں، جن میں اس ترانے کی اجتماعی پیشکش کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔
حکمنامے کے مطابق جموں اور کشمیر کے محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹرز کو ان تقریبات کی نگرانی کے لیے نوڈل افسر مقرر کیا گیا ہے۔ تاہم یہ فیصلہ سامنے آتے ہی مختلف مذہبی و سماجی حلقوں کی جانب سے اس پر سخت اعتراضات اٹھائے گئے، جن کا کہنا ہے کہ طلبا کو اس طرح کے پروگراموں میں زبردستی شریک کرنا مذہبی آزادی کے اصولوں کے منافی ہے۔
اس معاملے پر وزیر تعلیم سکینہ ایتو نے اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ،اگر جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ حاصل ہوتا، تو اس طرح کا حکمنامہ جاری کرنے کی کوئی جرآت نہیں کرتا۔
بدقسمتی سے ہمارے پاس اب ریاست نہیں بلکہ یونین ٹریٹری ہے۔ اس فیصلے میں میرا کوئی رول نہیں ہے، فائل میرے پاس نہیں پہنچی اور میں اس فیصلے سے خوش نہیں ہوں۔
وزیر تعلیم نے واضح کیا کہ یہ آرڈر باہر سے جاری کیا گیا ہے اور وہ خود اس سے بے خبر تھیں۔
دوسری جانب، اس معاملے پر وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ کابینہ کی سطح پر نہیں لیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ وزیرِ تعلیم نے نہیں لیا، نہ ہی کابینہ نے اس پر کوئی بحث کی۔ ہمیں اپنے اسکولوں کے معاملات خود طے کرنے چاہییں، باہر سے ہدایات نہیں آنی چاہییں۔
ویب ڈیسک
Faiz alam babar