Jasarat News:
2025-11-10@12:10:57 GMT

بگرام ائر بیس دو۔ ٹرمپ، ایبسلوٹلی ناٹ۔ طالبان

اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250926-03-6

 

جاوید احمد خان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہر کچھ عرصے کے بعد ایسے متنازع بیان دے دیتے ہیں یا اپنا ایسا منصوبہ ظاہر کرتے ہیں جس کے پورا ہونے کا ایک فی صد بھی امکان نہیں ہوتا پھر جب ان کی کہی ہوئی بات ناکام ہوجاتی ہے اور ان کا منصوبہ ادھورا رہ جاتا ہے تو وہ پھر کسی کا غصہ کسی پر اتارتے ہیں۔ مثلاً انہوں نے بڑا سینہ پھلا کر کہا تھا کہ وہ روس اور یوکرین کی جنگ بند کرادیں گے اور اس کے لیے الاسکا میں روسی صدر کا عظیم الشان استقبال بھی کیا تھا لیکن بات نہ بن سکی حالانکہ یو کرین کے کچھ علاقے جن پر روس کا دعویٰ تھا اس کو واپس دینے پر آمادگی ظاہر ہوگئی تھی لیکن اس کے باوجود مذاکرات ناکام ہوگئے روس کا اصل مطالبہ یہ ہے کہ یوکرین کو ناٹو کا رکن نہ بنایا جائے، اس طرح خدشہ ہے کہ ناٹو کی رسی میں بندھے ہوئے ہونے کی وجہ سے سارا یورپی اسلحہ روس کے اندر ہوتے ہوئے روس کے مقابلے پر آجائے گا اور ناٹو کے فوجی اڈے بھی قائم ہوسکتے ہیں۔ اب جب کہ روس نے امریکا کی بات نہیں مانی تو امریکا روس کا غصہ بھارت پر ٹیرف بڑھا کر اُتار رہا ہے اس کا کہنا یہ کہ بھارت روس سے تیل خرید رہا ہے اور بین الاقوامی مارکیٹ میں مہنگے داموں بیچ رہا ہے اور روس اس کی آمدنی سے یوکرین میں عوام کو مار رہا ہے۔ ٹرمپ نے حماس سے کہا کہ وہ یرغمالیوں کو چھوڑدے اور ہتھیار ڈال دے حماس والے نہیں مانے تو اپنا غصہ دوحا پر اُتارا حملے کی آگاہی ہونے کے باوجود اپنے اتحادی کو خبر نہ کی۔

اسی طرح جب وہ برطانیہ کے دورے پر گئے تو انہوں نے وزیراعظم برطانیہ کے ساتھ پریس کانفرنس میں دورانِ گفتگو ایک عجیب بات کہہ دی کہ ہمیں بگرام ائر بیس نہیں چھوڑنا چاہیے تھا ہم اس کو واپس لینا چاہتے ہیں۔ یہ بات تو ٹرمپ نے اتنی آسانی سے کہہ دی کہ جیسے بگرام ائر بیس ہمیشہ سے امریکا کے زیر کنٹرول رہا ہو انہوں نے محض خیرسگالی کے طور پر افغانستان کو تحفے میں دے دیا، اب وہ اپنا دیا ہوا تحفہ واپس لینا چاہتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بگرام ائر بیس امریکی فوجوں کا گڑھ یا ایسا مرکز تھا جہاں سے وہ پورے افغانستان کو کنٹرول کررہا تھا یہ کئی کلومیٹرز پر پھیلا ہوا ہے صرف 2 کلومیٹر تو اس کا رن وے ہے دفاتر ہیں کچھ رہائشی علاقے ہیں اسلحے کا بہت بڑا ڈپو ہے۔ ایک قسم کی بہت بڑی ملٹری امپائر تھی۔ 2021 میں دوحا مذاکرات میں امریکا نے کہا تھا کہ ہم صرف بگرام ائر بیس اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں لیکن طالبان کا دوٹوک جواب تھا کہ ہم بیس سال تک اور جنگ لڑ لیں گے لیکن اپنی ایک انچ زمین نہیں چھوڑیں گے چونکہ امریکا بھی تھک چکا تھا وہ کسی طرح افغان بلا سے جان چھڑانا چاہتا تھا اس لیے پھر اس ائر بیس کے لیے زیادہ زور نہیں دیا۔

ٹرمپ کے جو دل میں ہے وہ کھل کر صاف کہہ دیتے ہیں انہوں نے کہا کہ بگرام ائر بیس سے ایک گھنٹے کے فاصلے وہ جگہ ہے جہاں چین اپنے ایٹمی تجربات کرتا ہے اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے لیکن پھر بھی انہوں نے دل کی ساری باتیں نہیں کیں، چین کے ایٹمی مرکز کے علاوہ ایران پر بھی نظر رکھنے کا پروگرام ہے کہ کہیں وہ چین کی معاونت سے کوئی ایسی ایٹمی پیش رفت کرلے جو اسرائیل کے وجود کے لیے خطرہ ہو اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بدلے ہوئے حالات کے تناظر میں پاکستان پر بھی نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اس کے بعد پورے افغانستان پر نظر ازخود رہے گی۔ آپ نے وہ لطیفہ تو سن ہی رکھا ہوگا کہ ایک لڑکے سے پوچھا کہ تمہاری شادی کا معاملہ کہاں تک پہنچا اس نے کہا پچاس فی صد کام ہو گیا ہے آدھا باقی ہے۔ پوچھا کیا مطلب میں تو تیار ہوں لڑکی کی طرف سے ابھی ہاں نہیں ہوئی۔ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکا کے بگرام ائر بیس دوبارہ حاصل کرنے کے لیے افغانستان سے مذاکرات جاری ہیں اوول آفس میں صحافیوں سے صدر ٹرمپ نے کہا کہ بگرام فوجی ائر بیس کی اہمیت بہت زیادہ ہے ہم بگرام ائر بیس واپس لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ائر بیس امریکا کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ اس علاقے سے صرف ایک گھنٹے کی پرواز کے فاصلے پر ہے جہاں چین اپنے جوہری ہتھیار تیار کرتا ہے۔ امریکی اخبار کے مطابق بگرام ائر بیس پر محدود تعداد میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی پر غور کیا جارہا ہے اور ان مذاکرات کی قیادت امریکی نمائندہ خصوصی ایڈم بوبلر کررہے ہیں۔

دوسری طرف طالبان حکومت نے بگرام ائر بیس کو دوبارہ حاصل کرنے کی امریکی دھمکیوں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا کو ہمارے اڈے واپس چاہئیں تو اگلے 20 سال مزید لڑنے کے لیے تیار ہیں بیرونی فوج کی موجودگی بحال کرنے کی کسی بھی کوشش کی صورت میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ پیش رفت امریکی صدر کی جانب سے بگرام بیس واپس نہ کرنے کی صورت میں افغانستان کو دی گئی سنگین نتائج کی دھمکی کے بعد سامنے آئی ہے۔ چینی خبر رساں ادارے شنوا کی رپورٹ کے مطابق افغان وزیر دفاع محمد یعقوب مجاہد نے میڈیا سے گفتگو میں اس اسٹرٹیجک ائر بیس کو دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش کا جواب دیتے ہوئے کہا واضح رہے کہ ملا یعقوب امارت اسلامیہ افغانستان کے بانی امیر ملا عمر مجاہد کے فرزند ہیں۔ 79 سالہ امریکی صدر نے اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ اگر افغانستان بگرام ائر بیس ان لوگوں کو واپس نہیں دیتا جنہوں نے اسے بنایا تھا یعنی امریکا کو، تو بہت بری چیزیں ہونے والی ہیں۔ افغان وزارت خارجہ کے سیاسی ڈاریکٹر ذاکر جلالی نے امریکی واپسی کے تصور کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان کبھی بھی اپنی سرزمین پر غیر ملکی افواج کو قبول نہیں کرتے اور واشنگٹن کے ساتھ کسی بھی مکالمے میں دوبارہ فوجی قبضے کا معاملہ خارج ہونا چاہیے۔ بگرام ائر بیس سب سے پہلے روس نے 1950 میں بنایا تھا۔ نائن الیون کے بعد جب امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تو بگرام ائر بیس کو مزید وسعت دی اس کی تعمیر اور تزئین و آرائش میں کروڑوں ڈالر خرچ کیے ایک وقت میں یہاں ایک لاکھ امریکی فوج تھی۔ ٹرمپ کا یہ کہنا غلط ہے کہ یہ ائر بیس چین کے ہاتھ میں ہے، یہ براہ راست افغان حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ بی بی سی کا ایک ادارہ بی بی سی ویریفائی ہے جو خبروں کی تحقیق کرتا ہے اس نے بھی کہا ہے کہ یہ ائر بیس چین کے کنٹرول میں نہیں ہے۔

دونوں طرف کا موقف سامنے آگیا امریکا کی خواہش اور افغانستان کا بہت واضح اور صاف انکار اس گتھی کو مزید پیچیدہ بنارہا ہے۔ اب کیا ہوگا میں سمجھتا ہوں پاکستان پر ایک آزمائش آنے والی ہے۔ امریکا پاکستان پر دبائو ڈالے گا کہ افغانستان کو مذاکرات پر آمادہ کیا جائے۔ ہمارا انکار ٹرمپ کے غصے اور جھنجھلاہٹ میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ اب پرویز مشرف کے دور کا پاکستان ہے اور نہ ٹرمپ کا نائن الیون والا غصہ۔ پاکستان کے انکار سے یہ ہوسکتا ہے کہ ٹی ٹی پی اور مجید بریگیڈ جو آئے دن کوئی نہ کوئی ایسی کارروائی کررہے ہیں جس سے پاکستانی فوجی اور افسران شہید ہورہے ہیں انہیں اس وقت افغانستان کی مجبوراً حمایت و سرپرستی، انڈیا کی کھلی حمایت کے ساتھ اب شاید امریکا کی خاموش حمایت بھی حاصل ہوجائے۔ اس کے علاوہ اگر امریکا نے براہ راست افغانستان پر کوئی جارحیت کی اور اپنی فوجیں اُتاریں تو چین اور روس افغانستان کی مدد کو آسکتے ہیں اس طرح یہ خطہ ایک بار پھر خدا نہ خواستہ بڑی قوتوں کے درمیان جنگ کا میدان بن جائے گا۔

 

جاوید احمد خان.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: افغانستان کو کہا ہے کہ انہوں نے کرنے کی کے بعد کہا کہ کے لیے نے کہا ہے اور رہا ہے

پڑھیں:

افغان طالبان کی ڈھٹائی، ثالثوں نے بھی ہاتھ اٹھا لیے، استنبول مذاکرات بے نتیجہ ختم  

ویب ڈیسک: پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں ہونے والے مذاکرات ناکام ہوگئے جس کے بعد مذاکرت میں شامل پاکستانی وفد واپس روانہ ہوگیا۔

 وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاک افغان مذاکرات ختم ہوچکے ہیں، مذاکرات کے اگلے دور کا اب کوئی پروگرام نہیں، ہمارا خالی ہاتھ واپس آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ثالثوں کو بھی اب افغانستان سے امید نہیں ہے۔

 اپنے بیان میں وزیر دفاع نے کہا کہ ترکیے اور قطرکے شکر گزار ہیں، خلوص کے ساتھ ثالثوں کا کردار ادا کیا، ترکیہ اور قطرپاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتے ہیں۔

ڈالر کی قیمت میں کمی

 وزیر دفاع نےبتایا کہ افغان وفد کہہ رہا تھا کہ ان کی بات کا زبانی اعتبار کیا جائے جس کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بین الاقوامی مذاکرات کے دوران کی گئی حتمی بات تحریری طور پر کی جاتی ہے، مذاکرات میں افغان وفد ہمارے موقف سے متفق تھا مگر لکھنے پر راضی نہ تھا۔

 خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت مذاکرات ختم ہوچکے ہیں، اب ثالثوں نے بھی ہاتھ اٹھالیے ہیں ان کو ذرا بھی امید ہوتی تو وہ کہتے کہ آپ ٹھہر جائیں، اگر ثالث ہمیں کہتے کہ انہیں امید ہے اور ہم ٹھہر جائیں تو ہم ٹھہر جاتے۔

روزِ اول سے پاکستان کو ڈیجیٹل نیشن بنانے کیلئے اقدامات کو اولین ترجیح دی؛ وزیراعظم

 وزیر دفاع نے واضح کیا کہ اگرافغان سرزمین سے پاکستان پر حملہ ہوا تو اس حساب سے ردعمل دیں گے، اگرافغان سرزمین سے کوئی کارروائی نہیں ہوتی تو ہمارے لیے سیز فائر قائم ہے، ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے کہ افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر حملہ نہ ہو۔

 واضح رہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ افغان طالبان زبانی یقین دہانیاں کروانے کے بجائے کسی تحریری معاہدے کا حصہ بن جائیں تو یہ دونوں ممالک اور پورے خطے کے لیے بہت اچھا ہو گا۔

رکشہ ڈرائیور کو بچانے والا پولیس کانسٹیبل چل بسا

 خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اگر کالعدم ٹی ٹی پی کے لوگ، افغان طالبان کے قابو میں نہیں ہیں تو پھر پاکستان کو انھیں قابو کرنے دیں اور اگر پاکستان افغانستان میں کارروائی کرتا ہے تو پھر افغانستان کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔

 یاد رہے کہ گزشتہ روز پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان استنبول میں مذاکرات کا تیسرا دور شروع ہوا تھا لیکن پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں ہونے والے مذاکرات میں ڈیڈلاک ہو گیا۔

  8 نومبر بروز ہفتہ کو مقامی عام تعطیل کا اعلان

متعلقہ مضامین

  •  افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے‘وزارت خارجہ
  • طالبان کے اقتدار میں آنے سے پاکستان پر دہشت گردانہ حملے بڑھے،دفتر خارجہ
  • افغان طالبان عبوری حکومت میں پاکستان مخالف لابی سرگرم ہے، دفتر خارجہ
  • افغان طالبان رجیم کی جابرانہ پالیسیوں اور بدانتظامی سے افغانستان شدید گراوٹ سے دو چار
  • پاک افغان بے نتیجہ مذاکرات اور طالبان وزرا کے اشتعال انگیز بیانات، جنگ بندی کب تک قائم رہے گی؟
  • پاک افغان مذاکرات کا روایتی نتیجہ
  • پاکستان بمقابلہ افغان طالبان، مذاکرات ختم، نیا محاذ تیار، افغانستان کا مودی سے گٹھ جوڑ
  • افغان طالبان کی ڈھٹائی، ثالثوں نے بھی ہاتھ اٹھا لیے، استنبول مذاکرات بے نتیجہ ختم  
  • بھارت، امریکا تعلقات میں نیا موڑ
  • بھارت کی شہ پر افغان طالبان کی ہٹ دھرمی، استنبول میں ہونے والے پاک افغان مذاکرات ناکام