بدین:موسمیاتی تبدیلی سے کسان شدید متاثر ہے ،ہمدم فائونڈیشن
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بدین (نمائندہ جسارت )ہمدم فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام بدین جم خانہ میں “بدین کے ساحلی علاقوں کا کیس اسٹڈی” کے موضوع پر موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ایک روزہ کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں ماحولیاتی ماہرین، سرکاری افسران اور سول سوسائٹی نمائندوں نے شرکت کی۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سی ای او ہمدم فاؤنڈیشن شوکت سومرو نے بتایا کہ ان کی تنظیم تعلیم، صحت اور ماحول کے شعبوں میں بدین زیرو پوائنٹ ساحلی برادری کی مدد کر رہی ہے۔ ’’سرمی پروجیکٹ‘‘ کے تحت 100 نوجوانوں کو تربیت دی گئی جبکہ 120 خواتین کو بااختیار بنایا گیا ہے، جن میں سے 80 سے 90 خواتین روزگار سے وابستہ ہیں۔ علاوہ ازیں کاروچھان سے زیرو پوائنٹ تک ایک لاکھ 70 ہزار پودے لگائے گئے ہیں، جن کے مثبت اثرات آنے والے برسوں میں ظاہر ہوں گے۔سیڈا کے واٹر ایکسپرٹ مسرور احمد شاہوانی نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی نے سندھ کے کسانوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ آج کا موسم سو سال پہلے کے موسم سے مشابہ ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے کاشتکاروں کو یہ سمجھنے میں دشواری ہو رہی ہے کہ کب اور کون سا فصل کاشت کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ساحلی پٹی کی سب سے بڑی مشکل زمینوں میں بڑھتی ہوئی نمکیات (سلی نیٹی) ہے، جو فصلوں کو متاثر کر رہی ہے۔ انہوں نے متبادل روزگار اور کاروباری مواقع پیدا کرنے، شہری آبادی پر قابو پانے اور ابتدائی وارننگ سسٹم بہتر بنانے پر زور دیا تاکہ 2022 جیسی تباہ کن سیلابی صورتحال دوبارہ پیش نہ آئے۔ماحولیات کے ضلعی انچارج اور ای پی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عبدالسلام سموں نے کہا کہ بدین میں موسمیاتی تبدیلی کی بڑی وجوہات میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور دیگر گیسوں کا اخراج شامل ہے، جو مقامی صنعتوں، بھٹیوں، تیل و گیس کے ذخائر اور توانائی کے ذرائع سے خارج ہو رہی ہیں۔ ان کے مطابق بدین بارہا سمندری کٹاؤ، سیلاب، سائیکلون اور خشک سالی جیسے خطرات کا سامنا کر چکا ہے، جبکہ 2011ء میں 22 لاکھ ایکڑ زرعی زمین زیرِ آب آگئی تھی۔ڈاکٹر زب ڈھر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کا براہِ راست اثر عورتوں، بچوں اور بزرگوں پر پڑتا ہے۔ بدین زیرو پوائنٹ کی برادری کو صحت، صفائی، تعلیم اور محفوظ آمدورفت سے متعلق تربیت فراہم کی گئی ہے۔چیئرمین سیڈا قبول محمد کھٹیا نے کہا کہ 2011ء کی شدید بارشوں کے دوران بدین کے 90 فیصد اسکول تباہ ہوگئے تھے، اور آج بھی کئی اسکول درختوں کے نیچے تعلیم دے رہے ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ درختوں کی کاشت اور ان کی حفاظت سب کی مشترکہ ذمے داری ہے۔کانفرنس میں ماہرین نے سفارش کی کہ موسمیاتی سمارٹ زراعت، مقامی برادری کی شمولیت، این جی اوز کی معاونت اور حکومتی پالیسی کے ساتھ ہی موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ آلوبخارا، سورج مْکھی، چیکو اور ’’ایری 6‘‘ چاول جیسے فصلیں متاثرہ لوٹیال زمینوں پر کامیابی سے کاشت کی جا سکتی ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: موسمیاتی تبدیلی نے کہا کہ
پڑھیں:
گندم درآمد کا حکومتی اعلان قابل تشویش ہے، چوہدری ذوالفقار اولکھ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور (کامرس ڈیسک) مرکزی کسان لیگ کے چیئرمین چوہدری ذوالفقار علی اولکھ اور صدر اشفاق ورک نے وفاقی وزیر خوراک رانا تنویر کی جانب سے آئندہ سال ڈیڑھ ارب ڈالر مالیت کی گندم درآمد کرنے کے اعلان پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ رہنماوں نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں گندم کی درآمد کا فیصلہ نہ صرف کسانوں کی محنت بلکہ ملکی زرعی صلاحیت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ کئی برسوں سے گندم کی امدادی قیمت بروقت مقرر نہ کرنے کے باعث کسان شدید مایوسی کا شکار ہیں۔ مرکزی کسان لیگ کے رہنماوں نے کہا کہ حالیہ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے وہ ہیں جہاں گندم کی کاشت ہوتی ہے، جبکہ گندم کی بوائی 15 اکتوبر سے شروع ہو رہی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت فی الفور گندم کی امدادی قیمت 4000 روپے فی من مقرر کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ معیاری بیج، کھاد، اور پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور ذخیرہ اندوزی کے خلاف موثر اقدامات کیے جائیں۔ ان پالیسیوں پر عمل درآمد کر کے پاکستان نہ صرف گندم میں خودکفیل ہو سکتا ہے بلکہ خطے میں گندم برآمد کرنے والے ممالک کی صف میں بھی شامل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت زرعی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور کسانوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل کرے۔ اس مقصد کے لیے فوری ریلیف پیکج کا اعلان کیا جائے، سیلاب متاثرہ کسانوں کے کم از کم تین ماہ کے بجلی کے بل معاف کیے جائیں اور گندم کی کاشت کے لیے سبسڈی فراہم کی جائے تاکہ بہتر پیداوار ممکن ہو سکے اور ملک ممکنہ غذائی بحران سے محفوظ رہ سکے۔رہنماوں نے خبردار کیا کہ گندم کی درآمد پر انحصار ملکی معیشت اور قیمتی زرمبادلہ دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا۔ اگر حکومت نے بروقت کسان دوست پالیسیاں نہ اپنائیں تو کسان اپنی بقا کی جنگ سڑکوں پر لڑنے پر مجبور ہوں گے۔ مرکزی کسان لیگ نے واضح کیا کہ وہ ہر سطح پر کسانوں کے حقوق کی ترجمانی کرے گی اور ملکی کسانوں کو کسی صورت نظرانداز نہیں ہونے دے گی۔