امریکا سے قربت… احتیاط لازم ہے!
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250927-03-2
وزیر اعظم محمد شہباز شریف اور پاک فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اہم ملاقات کی ہے یہ گزشتہ دو دنوں میں تیسری ملاقات تھی، ذرائع ابلاغ کے مطابق ملاقات میں دو طرفہ تعلقات، تجارت، علاقائی، عالمی امور، افغانستان، خطے کی صورتحال، انسداد دہشت گردی کے حوالے سے تعاون، توانائی کے منصوبوں، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور خطے کی اقتصادی ترقی پر بھی تفصیلی بات چیت ہوئی۔ خوشگوار ماحول میں ہونے والی ملاقات ایک گھنٹہ سے زائد جاری رہی، اس موقع پر نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار اور وزیر داخلہ محسن نقوی بھی موجود تھے۔ ملاقات سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ عظیم رہنما وائٹ ہائوس آ رہے ہیں وزیر اعظم پاکستان اور فیلڈ مارشل ملاقات کے لیے آ رہے ہیں، فیلڈ مارشل اور وزیر اعظم عظیم رہنما ہیں، فیلڈ مارشل بہترین شخصیت کے مالک ہیں اور وزیر اعظم شہباز شریف بھی۔ ملاقات کے بعد وزیر اعظم شہبازشریف نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر سے ملاقات بہت اچھی رہی ہے۔ ملاقات میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کی نوجوان آبادی اور ابھرتی ہوئی معیشت امریکا کے لیے ایک بڑی تجارتی مارکیٹ ہے اور دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری کے مواقع بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے امریکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کے توانائی، آئی ٹی اور زراعت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ ٹرمپ نے پاکستان کے معاشی امکانات کی تعریف کی اور کہا کہ امریکا پاکستانی معیشت کے استحکام کے لیے مختلف پروگراموں اور شراکت داریوں پر کام کرے گا۔ ٹرمپ نے پاکستان کی سیکورٹی فورسز کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ دنیا دہشت گردی کے خاتمے میں پاکستان کی کوششوں کو تسلیم کرتی ہے۔ اینڈریوز ائربیس پہنچنے پر وزیر اعظم شہباز شریف کا ریڈ کارپٹ پر امریکی ائر فورس کے اعلیٰ عہدیدار نے استقبال کیا، وزیر اعظم شہباز شریف کو موٹر کیڈ امریکی سیکورٹی کے حصار میں ائر بیس سے روانہ کیا گیا۔ وزیر اعظم کی صدر ٹرمپ سے اہم ملاقات رات دو بجے اووول آفس میں شروع ہوئی۔ یہ اہم ملاقات پاکستان کی طاقت، اسٹرٹیجک اہمیت اور نئی خارجہ پالیسی کے اعتماد کا اعلان ہے، وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی واشنگٹن آمد پر جس شاندار اور تاریخی انداز میں استقبال کیا گیا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان کی اہمیت کو تسلیم کر رہی ہیں۔ امریک سیکورٹی کے حصار میں پروٹوکول کے ساتھ موٹر کیڈ کی آمد اور وائٹ ہائوس میںدیے گئے خصوصی استقبالیہ نے پاکستان کو ایک مرکزی عالمی کردار کے طور پر دنیا کے سامنے اُجاگر کیا۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی موجودگی اور اعتماد بھرے رویے نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کی فوج نہ صرف ملکی سیکورٹی بلکہ عالمی امن اور اقتصادی توازن میں بھی ایک مضبوط اور فیصلہ کن فریق ہے۔ عاصم منیر کی متوازن اور دور اندیش حکمت عملی پاکستان کو امریکا، چین، خلیجی ممالک اور یورپ کے درمیان ایک گلوبل بیلنس ماسٹر کے طور پر پیش کر رہی ہے، جب کہ ان کی قیادت یہ واضح کر رہی ہے کہ پاکستان خطے کے اہم فیصلوں میں ایک لازمی کردار ادا کر سکتا ہے۔ وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل کا وائٹ ہائوس میں مشترکہ طور پر جانا پاکستان کے اندرونی استحکام اور پالیسی تسلسل کا بھی ثبوت ہے، یہ سول و ملٹری اتحاد عالمی سرمایہ کاروں اور مالیاتی اداروں کے لیے اعتماد کی علامت ہے کہ پاکستان کی پالیسیوں میں استحکام اور تسلسل موجود ہے۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی نوعیت اور تاریخ خاصی دلچسپ، عجیب اور الجھی ہوئی ہے۔ اپنے قیام کے جلدی بعد پاکستان دو محوری دنیا کے کمیونسٹ بلاک کو ناراض کر کے امریکی اتحاد کا حصہ بن گیا تھا اور بین الاقوامی سلامتی کے نام پر تشکیل دیے جانے والے مختلف دفاعی معاہدوں کا فعال رکن رہا مگر امریکا اور دوسرے اتحادیوں کا رویہ ہمیشہ ناقابل فہم رہا۔ بھارت نے جب بھی پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا، امریکا اور دوسرے اتحادیوں نے پاکستان کے تحفظ و دفاع کی ذمے داریاں مختلف معاہدوں کے مطابق ادا کرنے کے بجائے الٹا پاکستان پر مختلف پابندیاں عائد کر کے بھارت کی مدد کی حتیٰ کہ 1971ء میں جب پاکستان دولخت کیا گیا تو اس وقت بھی امریکا وغیرہ کا کردار پاکستان توڑنے میں نمایاں رہا۔ امریکا اور دوسری مغربی دنیا کے طرز عمل کو سمجھنا ہو تو سابق صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں کی تصنیف ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ جس کا ترجمہ ’’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘ کے نام سے اردو میں بھی شائع ہو چکا ہے، کا مطالعہ ضرور کیا جانا چاہیے مختصر یہ کہ جب امریکا کا اپنا مفاد وابستہ ہوتا ہے تو وہ پاکستان پر صدقے واری جانے لگتا ہے، جیسا کہ آج کل محسوس کیا جا سکتا ہے یا قبل ازیں افغانستان پر سوویت یونین کے قبضہ کے بعد اس کی مزاحمت کو منظم کرنے کے دوران فوجی آمر ہونے کے باوجود جنرل محمد ضیاء الحق امریکا ہی نہیں پوری مغربی دنیا اور مسلم ممالک کے بھی غیر متنازع ہیرو رہے مگر دونوں ملکوں کے تعلقات میں اُتار چڑھائو کی تاریخ کے مطالعہ سے یہ بات بھی نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ مفاد کا عنصر باقی نہ رہنے کے بعد امریکا کو پاکستان سے آنکھیں پھیرتے دیر نہیں لگتی اور اس کا رویہ ’’جیسے جانتے نہیں، مطلب نکل گیا ہے تو پہچانتے نہیں۔‘‘ والا ہو جاتا ہے افغان مزاحمت کے بعد جنرل ضیاء الحق اور پاکستان کے ساتھ امریکا نے جو سلوک کیا وہ بین الاقوامی تعلقات سے دلچسپی رکھنے والے کسی شخص سے پوشیدہ نہیں۔ پھر نائن الیون کے واقعہ کے بعد پاکستان کے اس وقت کے فوجی آمر نے جس طرح پوری قوم کے جذبات کے برعکس امریکا کی چاکری قبول کی اور امریکا کی خاطر پاکستان کے بے دام غلام افغانستان کے حکمران طالبان سے مخالفت بلکہ دشمنی مول لی جس کا خمیازہ آج تک پاکستانی قوم دہشت گردی اور تخریب کاری کی کارروائیوںکی صورت میں بھگت رہی ہے اور بے پناہ مالی نقصان کے علاوہ ہزاروں انسانی جانوں کی قربانی بھی دے چکی ہے اور ابھی تک دے رہی ہے مگر امریکا نے پاکستان کی ان قربانیوں کا صلہ یہ دیا کہ جب وہ شکست کی ذلت کا ٹیکہ پیشانی پر سجائے بے نیل و مرام افغانستان سے نکلنے پر مجبور ہوا تو پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لیے بیسیوں بھارتی مراکز افغانستان میں سرگرم تھے۔ اسی طرح امریکا کی مفاد پرستی اور پاکستان سے دوستی کے دعوئوں کے پردے میں پاکستان دشمنی کی متعدد مثالیں تاریخ کے اوراق میں بکھری پڑی ہیں۔ جنہیں دہرانے کے بجائے عرض صرف یہ کرنا مقصود ہے کہ یقینا موجودہ عالمی حالات میں امریکا سے تعلقات بگاڑنا پاکستان جیسے مختلف النوع مسائل سے دو چار ملک کے لیے ممکن نہیں البتہ ہمیں ماضی کے تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے امریکا سے قربت بڑھاتے ہوئے ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا چاہیے اور صدر ٹرمپ کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر ہر گز ہرگز کوئی ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہیے جس سے امت مسلمہ یا خود پاکستان کا مفاد متاثر ہوتا ہو اور بعد میں ہمیں پچھتاوے کا سامنا کرنا پڑے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان فیلڈ مارشل پاکستان کی پاکستان کے کہ پاکستان کے بعد رہی ہے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
وزیر اعظم شہباز شریف کی آج صدر ٹرمپ سے ملاقات
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 ستمبر 2025ء) خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بتایا کہ امریکی صدر جمعرات کو وائٹ ہاؤس میں پاکستانی وزیرِاعظم شہباز شریف سے ملاقات کرنے والے ہیں۔
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب واشنگٹن اور اسلام آباد نے چند ہفتے قبل ایک تجارتی معاہدے کا اعلان کیا تھا، جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں حالیہ بہتری کو اجاگر کرتا ہے۔
یہ ملاقات ایک نہایت اہم سفارتی کوشش بھی قرار دی جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق، خطے میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی، تجارت اور محصولات کے مسائل، نایاب معدنیات پر تعاون، اور انسدادِ دہشت گردی کے وسیع تر اشتراک جیسے امور دونوں رہنماؤں کی بات چیت کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔
(جاری ہے)
ذرائع کے مطابق، وفد ایسے معاملات بھی اٹھائے گا جنہیں ''باہمی دلچسپی‘‘ کے امور قرار دیا گیا ہے، جن میں علاقائی استحکام اور دوطرفہ تعلقات شامل ہیں۔
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات ایک نئے مرحلے میںٹرمپ کے دور میں حالیہ مہینوں میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری آئی ہے، اس سے قبل واشنگٹن کئی برسوں تک پاکستان کے حریف بھارت کو ایشیا میں چین کے اثر و رسوخ کے مقابلے میں توازن قائم رکھنے کے لیے اہم سمجھتا رہا تھا۔
لیکن ٹرمپ کی دوسری مدت صدارت میں واشنگٹن اور نئی دہلی کے تعلقات کو ویزا مسائل، بھارت سے درآمدی اشیاء پر ٹرمپ کی جانب سے عائد بھاری محصولات اور ان کے بار بار اس دعوے کی وجہ سے پیچیدہ بنا دیا ہے کہ انہوں نے مئی میں بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کرائی تھی، جب دونوں جنوبی ایشیائی پڑوسیوں کے درمیان تازہ جھڑپیں ہوئیں۔
امریکہ اور پاکستان نے 31 جولائی کو ایک تجارتی معاہدے کا اعلان کیا تھا جس کے تحت واشنگٹن نے 19 فیصد ٹیرف عائد کیا۔ ٹرمپ ابھی تک بھارت کے ساتھ کوئی تجارتی معاہدہ نہیں کر سکے ہیں۔ حکام اور تجزیہ کاروں کے مطابق، بدلتی ہوئی صورتِ حال نئی دہلی کو بیجنگ کے ساتھ تعلقات از سر نو ترتیب دینے پر مجبور کر رہی ہے۔
ٹرمپ کی پاکستان سے بڑھتی دلچسپیٹرمپ پہلے ہی پاکستان کے ساتھ تعلقات کی اہمیت کا اظہار کر چکے ہیں۔
شہباز شریف منگل کو اس اجلاس میں بھی شریک تھے جس میں ٹرمپ نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موقع پر مسلم اکثریتی ممالک کے رہنماؤں سے ملاقات کی۔رواں سال کے اوائل میں ٹرمپ نے پاکستانی فوج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی وائٹ ہاؤس میں میزبانی کی تھی، جو ایک نایاب موقع تھا کہ کسی امریکی صدر نے پاکستانی فوجی رہنما سے ملاقات کی، وہ بھی اس وقت جب کوئی اعلیٰ سول عہدیدار موجود نہ تھا۔
دوسری جانب اسلام آباد نے بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی ٹرمپ کی کوششوں پر انہیں نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی کھل کر حمایت کی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار نے منگل کو ایک بریفنگ میں کہا،''ہم انسدادِ دہشت گردی کے معاملات کے ساتھ ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے حوالے سے کئی امور پر کام کر رہے ہیں۔
‘‘انہوں نے مزید کہا، ''صدر کا فوکس خطے میں امریکی مفادات کو آگے بڑھانے پر ہے، جس میں پاکستان اور اس کی حکومت کے رہنماؤں کے ساتھ روابط کو شامل کیا گیا ہے۔‘‘
بھارت امریکہ حالیہ تعلقاتجب بھارت کے ساتھ اختلافات کے بارے میں پوچھا گیا تو امریکی محکمہ خارجہ کے سینیئر عہدیدار نے کہا کہ ٹرمپ تعلقات میں موجود مسائل پر کھل کر بات کرنے پر یقین رکھتے ہیں لیکن مجموعی طور پر تعلقات مضبوط ہیں۔
انہوں نے کہا کہ واشنگٹن نئی دہلی کو ایک اچھا دوست اور شراکت دار سمجھتا ہے اور مانتا ہے کہ ان کے تعلقات اکیسویں صدی کی سمت کا تعین کریں گے۔
عہدیدار نے مزید کہا کہ واشنگٹن "کواڈ" گروپ (بھارت، آسٹریلیا، جاپان اور امریکہ) کی سربراہی اجلاس کی منصوبہ بندی پر کام کر رہا ہے، جو بھارت نومبر میں منعقد کرنے کی توقع رکھتا تھا۔ یہ اجلاس ''اگر اس سال نہیں تو اگلے سال کے اوائل میں‘‘ ہو گا۔
ادارت: صلاح الدین زین