لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے
اشاعت کی تاریخ: 28th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
گزشتہ بیس پچیس برس سے اقوامِ متحدہ کور کرتا رہا ہوں اور پاکستانی سیاست و خارجہ پالیسی کا ادنیٰ سا طالب علم ہوں یقین مانیں، کئی برسوں کے بعد وہ احساس پیدا ہوا ہے کہ پاکستان ایک منفرد عالمی مقام پر کھڑا ہے۔ ایک ایسا مقام جسے ہم نے پہلے کم ہی محسوس کیا تھا۔ یہ بھی سچ ہے کہ اس پیش رفت کو اندرونِ ملک کئی حلقے شک و تردد کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کا ماضی شفاف نہیں رہا، اسی بنا پر عوام میں ان کی نیت پر مکمل اعتماد موجود نہیں۔ تاہم تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اکثر اوقات ریاستی فیصلے مخصوص مفادات کے تابع رہے ہیں۔ پھر بھی موجودہ عالمی نظم اور حالات کچھ مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ ایک خطرناک زمانے میں، جب عالمی محاذ بن رہے ہیں اور طاقتیں نئے اتحاد بنا رہی ہیں، پاکستان کو جو توجہ اور مقام ملا ہے وہ پہلے کم ہی دیکھا گیا ہے۔ امریکا، چین، سعودی عرب، دیگر عرب ریاستیں، ایران، روس اور ترکی— سب نے پاکستان کی طرف نظریں اُٹھا رکھی ہیں۔ بعض مواقع پر غیر متوقع اتحاد و خیرمقدم بھی سامنے آئے ہیں، جو ہمارے لیے حیران کن بھی ہیں اور معنی خیز بھی۔ اقوام متحدہ میں جو پذیرائی ملی وہ غیرمعمولی رہی۔ مگر اس عزت کا ایک تلخ پہلو بھی ہے: یہ مقام جزوی طور پر اس پس منظر کی وجہ سے ملا جس میں انڈیا جیسے دشمن نے ہم پر جنگ مسلط کی اور پاکستان نے بھر پور جواب دیا گناہگار ہونے کے باجود اللہ نے اپنا کرم کیا اور پھر راتوں رات ہماری قسمت بدلی، دنیا کا رُخ بدلا۔ دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ جنگ ہار جاتے تو پاکستان نہ صرف تہی دست ہوتا بلکہ اندرونی بحران کا شکار بھی ہو سکتا تھا۔ مگر قسمت کو کچھ اور منظور تھا اور آج کا پاکستان مختلف ہے۔ اور آج کا پاکستان انڈیا کی لونڈی بن جاتا جب بھی مودی صاحب چاہتے جو بھی چاہتے وہ کرتے؟؟
یہ تمام خوش خبریاں اور عزت اگرچہ باعث ِ تسکین ہیں، مگر ان کے ساتھ بڑی تشویش بھی وابستہ ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان دوبارہ بین الاقوامی مفادات کا آلہ ِ کار بنے گا؟ کیا ہم اس میں شریک ہو جائیں گے کہ فلسطین کی قربانیوں کو پس ِ پشت ڈال کر کوئی بین الاقوامی سمجھوتا جائز ٹھیرایا جائے؟ جب ستر ہزار کے قریب افراد شہید ہو چکے ہوں اور لاکھوں بے گھر ہوں، تو یہ سوال محض اخلاقی نہیں بلکہ قومی ہوا کرتا ہے۔ ہماری پالیسیوں اور ہماری قیادت کا امتحان ہے۔ مزید برآں، وہ کامیابیاں جو آج ہمیں بین الاقوامی طور پر ملی ہیں، کیا ان کے حقیقی ثمرات عوام تک پہنچیں گے؟ یا یہ صرف چند خاندانوں، جغرافیائی مفادات اور طاقت کے مراکز کے لیے سود مند ثابت ہوں گے؟ اگر حکمران اور اسٹیبلشمنٹ اپنی قدیم سوچ ترک نہ کریں تو یہ مقام بھی وقتی اور استعمال شدہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارے لیے ذلت کا اگلا پڑاؤ بننے کا خطرہ ہمیشہ موجود ہے۔ لہٰذا ایک واضح راہ یہی ہے: بین الاقوامی کامیابی کو جمہوری شفافیت، معاشی بہتری اور عوامی بہبود سے جوڑا جائے۔ کامیابی تب حقیقی کہلائے گی جب اس کے ثمرات ملک کے عام شہری تک پہنچیں، جب ادارے جوابدہ ہوں اور فیصلے شفاف ہوں۔ بصورتِ دیگر بین الاقوامی توجہ محض آئینی اور سیاسی دکھاوے کے زمرے میں رہ جائے گی اور پھر اس عظمت کے بعد ڈر یہی ہوگا کہ اگلا مرحلہ ذلت ہو۔ کیونکہ الحمدللہ یہ عزت صرف حکمرانوں تک محدود نہیں بلکہ عام پاکستانی بھی اسے محسوس کر رہے ہیں۔ دنیا کے لوگوں کا پاکستانیوں کو دیکھنے کا نقطہ ٔ نظر بدل رہا ہے۔ جس طرح پہلے پاکستانیوں کی پہچان دبے دبے انداز میں یا محض ذاتی سطح پر رہتی تھی، اب پاکستان کا بھرپور تعارف عوام کے سامنے آیا ہے۔
جہاں تک مسلم ممالک کا تعلق ہے، اس فرق کو بھی نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایٹمی دھماکوں کے بعد مسلم دنیا میں پاکستانیوں کے ساتھ رویّے یکسر بدل گئے تھے۔ آج انڈیا پر سفارتی و سیاسی اور جنگی برتری حاصل کرنے اور دنیا کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کے بعد وہی کیفیت ایک بار پھر دیکھی جا سکتی ہے۔ امریکا میں رہنے والے پاکستانی اس تبدیلی کو بخوبی محسوس کر سکتے ہیں۔ سوائے چند شکوہ کرنے والے بھائیوں کے، زیادہ تر خوش اور مطمئن نظر آتے ہیں۔ یہی گواہی غالباً عرب ممالک میں مقیم پاکستانی بھی دیں گے کہ وہاں عام عرب مسلمانوں میں پاکستانیوں کے ساتھ رویّے بدل گئے ہیں اور عزت و احترام میں اضافہ ہوا ہے۔ اللہ کرے کہ یہ دور پاکستان کے عوام کے فائدے میں ثابت ہو — ورنہ یہ عظمت عنقریب مایوسی میں بدل سکتی ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی کے بعد
پڑھیں:
کشمیری عوام کے مسائل پر سنجیدہ مذاکرات کیے، غیر آئینی مطالبات تسلیم نہیں کیے جا سکتے، امیر مقام
وفاقی وزیر برائے امورِ کشمیر، گلگت بلتستان و سیفران امیر مقام نے کہا ہے کہ وزیراعظم کی خصوصی ہدایت پر مظفرآباد کا دورہ کیا تاکہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے 29 ستمبر کی ہڑتال کی کال اور عوامی مطالبات پر بات چیت کی جا سکے۔ ان کے ہمراہ وفاقی وزیر ڈاکٹر طارق فضل چوہدری بھی موجود تھے۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے کشمیر حکومت کے وزراء پر مشتمل کمیٹی سے تفصیلی ملاقات کی گئی، جس میں ان کا مؤقف سنا گیا۔ اس کے بعد جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے نمائندہ وفد سے علیحدہ ملاقات ہوئی، جبکہ بعد ازاں کشمیر حکومت کے وزراء، چیف سیکرٹری اور آئی جی کے ساتھ مشترکہ اجلاس بھی منعقد ہوا۔
امیر مقام کے مطابق یہ مذاکرات گزشتہ روز سہ پہر 3 بجے سے شروع ہو کر اگلی صبح 5 بجے تک جاری رہے، یعنی تقریباً 14 گھنٹے طویل اور مسلسل مشاورت کی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ جو مطالبات آئین و قانون کے دائرہ کار میں آتے تھے اور عوامی فلاح سے متعلق تھے، انہیں تسلیم کر لیا گیا — چاہے ان کا تعلق وفاقی حکومت سے تھا یا کشمیر حکومت سے۔
وفاقی وزیر نے یاد دلایا کہ پہلے ہی آزاد کشمیر میں بجلی 3 روپے فی یونٹ اور آٹا 20 روپے فی کلو فراہم کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان کی جانب سے گزشتہ سال 23 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی، جبکہ ترقیاتی فنڈ میں 100 فیصد اضافہ بھی کیا گیا۔
تاہم، انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کے اختتام پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے کچھ ایسے مطالبات پیش کیے جو آئینی و قانونی حدود سے باہر تھے، جن میں ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ کشمیر اسمبلی سے مہاجرین جموں و کشمیر کی 12 نشستیں ختم کر دی جائیں۔
“یہ مطالبہ دراصل اُن مظلوم کشمیریوں کی قربانیوں کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے، جو مقبوضہ کشمیر سے ہجرت پر مجبور ہوئے اور آج بھی پاکستان سے اپنی امیدیں وابستہ کیے بیٹھے ہیں۔”
وفاقی وزیر نے واضح کیا کہ اس نوعیت کا مطالبہ صرف آئینی ترامیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ “اگر آپ کو عوام کا اعتماد حاصل ہے تو الیکشن لڑیں، اسمبلی میں آئیں اور قانونی طریقہ اپنائیں۔”
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں جب عالمی سطح پر کشمیر کاز کو اہمیت مل رہی ہے اور امید ہے کہ کشمیریوں کو ان کے جائز حقوق ملیں گے، کچھ عناصر ایسے اقدامات کر رہے ہیں جو دراصل بھارت کے بیانیے کو تقویت دینے کے مترادف ہیں۔
“ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ کشمیری عوام کے مفاد میں جو بھی مطالبہ ہوگا، مرکز اور کشمیر حکومت مل کر اس پر عمل کریں گے۔ مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے ہیں، لیکن آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر۔”
Post Views: 1