بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ جہانگیر عالم چودھری نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کے جنوب مشرقی سرحدی علاقے  چٹاگانگ میں جاری بدامنی میں “غیرملکی ہتھیاروں” کا کردار ہے، جو بیرونِ ملک سے لا کر شرپسند عناصر استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہتھیار پہاڑی چوٹیوں سے فائرنگ کے لیے استعمال ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
مظاہرہ، جھڑپیں اور ہلاکتیں
تشدد کا یہ واقعہ ایک خاتون کے ساتھ مبینہ اجتماعی زیادتی کے بعد شروع ہوا، جب مظاہرین نے سڑکیں بند کر کے احتجاج کیا۔ سکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین کو روکنے کی کوشش پر جھڑپیں ہوئیں۔

مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ وہ پرامن احتجاج کر رہے تھے، لیکن  فوج نے گولیاں چلائیں، جس سے تین افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ تاہم فوج نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے اس تشدد کا ذمہ دار یونائیٹڈ پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ کو قرار دیا ہے۔
فوج اور باغیوں کے دعوے
فوج کے تعلقاتِ عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ یو پی ڈی ایف، جو ایک باغی تنظیم  ہے، نے سینکڑوں گولیاں چلائیں اور حالات کو پرتشدد بنایا۔ یہ گروپ  1997 کے امن معاہدے کو مسترد کر چکا ہے اور اب بھی خودمختاری اور فوجی اڈوں کے انخلا کا مطالبہ کر رہا ہے۔
سیاسی پس منظر اور بحران
یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب بنگلہ دیش سیاسی طور پر غیر مستحکم ہے۔  طلبہ مظاہروں کے بعد سابق وزیراعظم  شیخ حسینہ   کو ملک چھوڑنا پڑا۔ عبوری حکومت کے تحت  محمد یونس کو فروری میں ہونے والے عام انتخابات کی نگرانی سونپی گئی ہے اور یہ واقعہ ان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔
چٹاگانگ کا علاقہ طویل عرصے سے نسلی اور لسانی کشیدگی کا شکار رہا ہے، جہاں مقامی قبائل اور بنگالی بولنے والوں کے درمیان زمین اور وسائل  پر تنازعات معمول بن چکے ہیں۔
وزیر داخلہ کا یہ بیان کہ “ہتھیار ملک سے باہر سے آ رہے ہیں”، تشدد کی  بین الاقوامی جہت کو اجاگر کرتا ہے، اور یہ واقعہ حکومت کی  سلامتی حکمتِ عملی اور  سیاسی استحکام  کے لیے ایک سنگین آزمائش بن گیا ہے۔

 

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: یہ واقعہ رہے ہیں

پڑھیں:

آزاد کشمیر میں مظاہرین کے مطالبات بجا لیکن تشدد کا راستہ نہیں اپنانا چاہیے: کوآرڈینیٹر وزیراعظم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد: وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر رانا احسان افضل نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر میں مظاہرین کے مطالبات جائز ہیں، لیکن انہیں منوانے کے لیے تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے گزشتہ سال بھی آزاد جموں و کشمیر کے لیے 30 ارب روپے کا پیکج دیا تھا، عوامی مطالبات پُرامن طریقے سے تسلیم کیے جا سکتے ہیں، تاہم پرتشدد واقعات میں ہونے والی ہلاکتیں افسوسناک ہیں۔

رانا احسان افضل کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی کوشش ہے کہ معاملہ پُرامن طور پر حل کیا جائے۔ گزشتہ روز تمام جماعتوں کی قیادت نے بھی اتفاق رائے سے مسائل کے حل کی کوشش کی، وزیراعظم ان معاملات کو اعلیٰ سطح پر دیکھ رہے ہیں اور امید ہے کہ کوئی مثبت حل سامنے آئے گا، جبکہ احتجاج کے دوران جاں بحق ہونے والوں کی انکوائری کرائی جائے گی۔

ویب ڈیسک مقصود بھٹی

متعلقہ مضامین

  • آزاد کشمیر میں مظاہرین کے مطالبات بجا لیکن تشدد کا راستہ نہیں اپنانا چاہیے: کوآرڈینیٹر وزیراعظم
  • ’آزاد کشمیر‘ سے ’پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر‘ تک، ‘بھارتی بورڈ نے کرک انفو کو بھی نہیں چھوڑا‘
  • اسلام آباد پریس کلب میں پولیس تشدد، وزیر داخلہ کا نوٹس، آئی جی سے رپورٹ طلب
  • کراچی، گلشن اقبال میں اسپیشل بچوں کے اسکول میں بچے پر تشدد
  • اسلام آباد پولیس کی نیشنل پریس کلب میں توڑ پھوڑ، صحافیوں پر تشدد
  • اسلام آباد نیشنل پریس کلب پر حملہ اور پولیس تشدد، پی ٹی آئی کا سخت ردعمل
  •  نیشنل پریس کلب اسلام آباد پر پولیس اہلکاروں کا حملہ تاریخ کا بدترین اور سیاہ ترین واقعہ ہے:صدر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس
  • صحافیوں پر تشدد: وزیرداخلہ محسن نقوی کا نوٹس، آئی جی اسلام آباد سے رپورٹ طلب کرلی
  • پریس کلب میں ناخوشگوار واقعہ کا نوٹس، وزیرداخلہ نے آئی جی اسلام آباد پولیس سے رپورٹ طلب کرلی
  • آزاد کشمیر میں احتجاج کی آڑ میں  عوامی ایکشن کمیٹی کے شرپسند عناصر اشتعال اور تشدد پر اتر آئے