Jasarat News:
2025-10-04@20:23:37 GMT

لکیریں

اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کبھی میں اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے نہیں الجھا

مجھے معلوم ہے قسمت کا لکھا بھی بدلتا ہے

(ظفر اقبال)

ہاتھوں کی لکیروں سے الجھنے میں، ہاتھ دکھانے میں ایک بڑی قباحت یہ ہے کہ آپ کے ساتھ ہاتھ ہوجاتا ہے۔ ایک دست شناس نے کسی کا ہاتھ دیکھ کر کہا تھا ’’اگر آپ کے دادا کے ہاں اولاد نہیں ہوئی تھی تو زیادہ امکان یہی ہے کہ آپ کے والد کے ہاں بھی اولاد نہیں ہوگی اور عین ممکن ہے آپ کے ہاں بھی نہ ہو‘‘۔ ہاتھ دکھانے میں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ دست شناس کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔ ہا تھ پھیلانے کے ہنر میں ہمارے حکمرانوں کی مہارت بے مثل ہے اس قدر کہ اب کوچہ سود خوراں میں ان کا سرخ قالین پر استقبال کیا جاتا ہے۔

دست شناسی ایک حیرت انگیز علم اور مہارت ہے۔ ہتھیلی، اس کی لکیریں، اشکال اور کانٹے آپ کی شخصیت کے بارے میں وہ باتیں ظاہر کردیتی ہیں جو گمان میں بھی نہ ہوں۔ دست شناسی صدیوں برس قدیم فن ہے۔ اس کا آغاز بھارت سے ہوا۔ یہاں سے نکل کر یہ ایشیا، یورپ اور شمالی امریکا میں پھیل گیا۔ چینی باشندوں اور ارسطو نے اس میں خصوصی دلچسپی لی۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم نے اس فن کی بدولت کئی جنگوں میں کامیابی حاصل کی۔

پاکستان خصوصاً کراچی میں بندر روڈ پر بیٹھے دست شناس اس فن کے امین ہی نہیں الاٹی بھی تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ دندان ساز بھی قطار میں بیٹھے ہوتے تھے۔ اب نہ دست شناس رہے اور نہ وہ دندان ساز۔ اخبار فروشوں کے ٹھیوں پر بھی جو سستی اور عوامی پسند کی کتابیں بکتی تھیں ان میں ’’کیرو کی پا مسٹری‘‘ لازمی ہوتی تھی۔ کسی دست شناس سے ایک مرمریں نازک سے ہاتھ نے سوال کیا۔

ہوش کا کتنا تناسب ہو بتادے مجھ کو

اور اس عشق میں درکار ہے وحشت کتنی

دست شناس نے جواب دیا ’’بیٹا ہوش کا تناسب اور عشق میں درکار وحشت چھوڑو، برتن کم دھویا کرو ایسا نہ ہو ہاتھ سے شادی کی لکیر ہی مٹ جائے‘‘۔ دبئی کے سابق حکمران شیخ زید بن سلطان النہیان کے بارے میں ایک نجومی نے کہا تھا کہ ان کے ہاتھ میں دولت کی لکیر نہیں ہے۔ نیلام گھر کے میزبان طارق عزیز مرحوم کے ہاتھ میں شہرت کی لکیر نہیں تھی۔ شاہ محمود قریشی جن دنوں وزیر خارجہ تھے ایک نجومی نے بتایا تھاکہ ان کے ہاتھ میں دماغ کی لکیر نہیں ہے۔ انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ ان کا کام ایسا تھا کہ دماغی کام کوئی اور کرتا تھا انہیں صرف منہ بگاڑ کر بولنا ہوتا تھا۔ عمران خان کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ ان کے ہاتھ میں وزیراعظم بننے کی لکیر نہیں ہے۔ مگر عمران خان کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ کبھی تھک کر نہیں بیٹھے۔ شادیاں اور سیاسی جدوجہد کرتے رہے۔ عمل پیہم سے انہوں نے نجومیوں کی بات کو غلط ثابت کردیا اور 2018 کے الیکشن میں سلیکٹ ہوگئے۔ نجومی پھر بھی اپنی بات پر اڑے رہے۔

بہت سے دست شناس ہاتھ کے بجائے چہرے پر لکھی خواہشیں پڑھ کر قسمت کا حال بناتے ہیں۔ ایک دست شناس نے اداکارہ میرا کا ہاتھ دیکھ کر بتایا آپ کو بہت جلد ایک بڑی کاسٹ کی فلم میں لیڈ نگ رول ملنے والا ہے۔ ویسے آپ کس قسم کے رول پسند کرتی ہیں؟ ’’قیمے والے‘‘ اداکارہ میرا نے جواب دیا۔ دست شناس نے ایک لڑکی کا ہاتھ دیکھ کر بتایا ’’مس ناز آپ کا اچھا وقت شروع ہونے والا ہے۔ عنقریب ایک بہت بڑا فلمساز آپ کو دیکھے گا اور اگلے سال تک آپ کی ملک کی نامور اور مہنگی ترین ہیروئن بن جائیں گی‘‘۔ مس ناز نے نجومی کوغصے سے دیکھتے ہوئے کہا ’’میں ویٹنگ روم میں سن رہی تھی مجھ سے پہلے جو پین دی سری آئی تھی اس کو بھی تم نے یہی بتایا تھا‘‘ نجومی نے بے بسی سے مس نازکو دیکھتے ہوئے کہا ’’کیا کریں اس سے کم پر کوئی لڑکی راضی ہی نہیں ہوتی‘‘۔

پاکستان نام کے ایک ملک نے بھی اپنا ہاتھ نجومی کو دکھاتے ہوئے پوچھا تھا ’’مجھے اچھے حکمران کب ملیں گے‘‘۔ نجومی نے جواب دیا ’’کئی دہائیوں تک تمہیں برے حکمران ملیں گے‘‘۔ پاکستان نے خوش ہوتے ہوئے کہا ’’تو کیا اس کے بعد مجھے اچھے حکمران مل جائیں گے؟‘‘ نجومی نے جواب دیا ’’نہیں! اس کے بعد تم برے حکمرانوں کے عادی ہو جائوگے‘‘۔

کسی دست شناس نے ایک نوجوان کا ہاتھ دیکھ کر کہا ’’سات قسم کی عورتوں سے شادی مت کرنا۔۔ انانہ۔۔ منانہ۔۔ کنانہ۔۔ حنانہ۔۔ حداقہ۔۔ براقہ۔۔ اور۔۔ شداقہ‘‘ نوجوان نے حیرت سے پوچھا ’’یہ عورتیں ہیں یا کوہ قاف کے جنات‘‘۔

دست شناس نے تامل سے کہا: ’’انانہ‘‘ سے وہ عورت مراد ہے جو ہر وقت سر پر پٹی باندھے رکھے۔ شکوہ اور شکایت جس کا معمول ہو۔ ’’منانہ‘‘ وہ عورت ہے جو ہر وقت شوہر پر احسان جتاتی رہے اور کہے تم سے شادی کرکے تو میری قسمت ہی پھوٹ گئی۔ ’’کنانہ‘‘ وہ عورت ہے جو ہر وقت ماضی کی یادوں میں گم رہے۔ فلاں وقت میرے پاس یہ تھا فلاں وقت میرے پاس وہ تھا۔ ’’حنانہ‘‘ ایسی عورت ہوتی ہے جو ہر وقت اپنے سابق خاوند کو یاد کرتی رہتی ہے اور موجودہ بدنصیب کا سابق سے تقابل کرتے ہوئے کہتی ہے ’’اُس کی بات ہی کچھ اور تھی۔ جو بات اُس میں تھی وہ تم میں کہاں‘‘۔ ’’حداقہ‘‘ عورت ہمیشہ شاپنگ کی فرمائش کرتی رہتی ہے۔ ہر وقت شوہر سے کچھ نہ کچھ طلب کرنا اس کا معمول ہوتا ہے۔ ’’براقہ‘‘ وہ عورت ہے جو ہر وقت اپنے بنائو سنگھار میں لگی رہے۔ ’’شداقہ‘‘ تیز زبان اور ہر وقت باتیں بناتی رہتی ہے۔

نوجوان نے دست شناس کی ہدایت پر عمل کیا۔ ملکوں ملکوں گھوما اور ستر سال کی عمر میں بن شادی کے ہی مرگیا۔

انکشاف ذات ایک ایسامسئلہ ہے جس کے لیے لوگ ماہرین نفسیات سے رجوع کرتے ہیں۔ گوتم بدھ کی طرح جنگلوں میں نکل جاتے ہیں۔ توتوں سے فال نکلواتے ہیں، نجومیوں، قیافہ شناسوں اور دست شناسوں کے آگے بیٹھتے ہیں لیکن آئینے سے رجوع نہیں کرتے۔ آپ کی تقدیر آپ ہی کے خدوخال، چہرے کے نشیب وفراز اور شکنوں میں پوشیدہ ہے جسے آپ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا، کوئی نہیں سمجھ سکتا۔

آج کل کے دست شناس، نجومی اور مستقبل کا حال بتانے والے لیپ ٹاپ ہاتھ میں لیے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ سارے جہاں کا علم ہمارے سینے اور لیپ ٹاپ میں ہے۔ یہ جدید اور نفیس لباس میں ملبوس ہوتے ہیں۔ گفتگو بھی بڑی مہارت اور سلیقے سے کرتے ہیں جس میں انگریزی الفاظ کا تناسب اور خود پسندانہ جھلک بڑی مقدار میں پائی جاتی ہے جب کہ ماضی میں ان اصحاب کی ہیئت میں ایک مجنونانہ بے پروائی پائی جاتی تھی۔ نیم استغراقی اور نیم خود فراموشی کا عالم ان پر طاری ہوتا تھا اور بالوں کی صورت حال تو وہ ہوتی تھی کہ استاد ذوق یاد آجائیں:

خط بڑھا، کاکل بڑھے، قلمیں بڑھیں، گیسو بڑھے

حسن کی سرکار میں جتنے بڑھے ہندو بڑھے

 

بابا الف.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کی لکیر نہیں ہے جو ہر وقت نے جواب دیا کے ہاتھ میں وہ عورت

پڑھیں:

کردار اور امید!

1947میں تقسیم ہند کے فیصلے کے بعد‘ تقریباً ڈیڑھ کروڑ نفوس دونوں اطراف سے اپنے نئے ممالک میں کوچ کر گئے۔ انسانی تاریخ کی یہ سب سے بڑی ہجرت تھی۔

اگر ٹائن بی کو غور سے پڑھیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ چشم فلک نے اتنی کثیر تعداد میں لوگوں اور ان کے خاندانوں کو حد درجہ بے بسی سے لٹتے پٹتے ہوئے ‘ ایک ملک سے سرحد پار‘ اپنے نئے وطن میں جاتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ قتل و غارت تو خیر ہر جانب سے ہوئی۔ اس خون ریزی سے صرف نظر کرتے ہوئے‘ ا گر صرف یہ سوال پوچھا جائے کہ کروڑوں انسانوں نے اپنے گھر بار ‘ کاروبار اور آبائی شہروں کو چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کر کیا؟ کیا وجوہات تھیں کہ ان گنت نفوس‘ بغیر کسی سابقہ تجربہ کے یک دم‘ مہاجر بن گئے؟ یہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ اس کی تمام جزئیات کو ایک مختصر کالم میں سمویا نہیں جا سکتا۔

مگر طالب علم کو دو وجوہات ایسی معلوم پڑتی ہیں جنھوں نے لوگوں کو ذہنی طور پر قائل کیا‘ اور انھوںنے فانی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کر لیا۔ پہلا عنصر تو یہ‘ اس وقت کی قیادت اور ان کے دعوؤں پر عام آدمی کو مکمل یقین تھا۔ مسلمانوں کی اکثریت محمد علی جناح کو اپنا نجات دہندہ سمجھتی تھی۔ یہی حال ‘ ہندوؤں کا گاندھی اور نہرو پر مکمل اعتماد کا تھا۔ اگر ہم صرف‘ مسلمانوں کی بات کریں۔ تو اس میں بھی ہمیں دو طرح کے رجحانات دکھائی دیتے ہیں۔ برصغیر میں مسلم آبادی چورانوے ملین (94 Millin) کے لگ بھگ تھی۔ واضح اکثریت نے قائداعظم کی باتوں پر لبیک کہا اور نئے ملک یعنی پاکستان آ گئے۔ مگر‘ ہندوستان کو نہ چھوڑنے والے مسلمان بھی کروڑوں میں تھے۔

جنوبی ہندوستان میں مسلمانوں کی کثیر تعداد پاکستان نہیں آئی۔ بہر حال‘ اعداد و شمار کی بحث سے نکل کر‘ اگر ہم واقعاتی طرز پر معاملہ دیکھیں تو قائد کی شخصیت پر بھرپور اعتماد ‘ وہ بنیاد بنی‘ جس نے لوگوں کو نامعلوم شہروں کی طرف آنے پر آمادہ کر لیا۔ مگر سوچئے‘ کہ جناح صاحب اور 1947کے مسلمانوں میں تو کوئی بھی قدر مشترک نہیں تھی۔ قائد‘ مغربی طرز پر زندگی گزارنے والے دولت مند انسان تھے۔ مالا بار ہلز میں ان کا گھر‘ ایک محل کی طرح تھا۔ کھاناپینا بھی‘ عام لوگوں سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ گھر میں کانٹی نینٹل اور دیگر کھانے بنانے والے علیحدہ علیحدہ باورچی تھے۔ کپڑوں کو ملاحظہ کریں تو صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ برصغیرکے نناوے فیصد لوگ‘ اتنے قیمتی ملبوسات زیب تن کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ جناح صاحب کے پاس‘ بیش قیمت گاڑیاں تھیں۔ قیمتی ترین سگار پیتے تھے۔

چھٹیاں گزارنے کے لیے لندن ‘ پیرس‘ اور مغربی ممالک میں رہتے تھے۔ تو پھر کیا۔ یہ سوال پوچھنا مناسب نہیں ہے کہ… ایک ایسا شخص جس کی مماثلت ‘ کسی طور پر عام مسلمانوں کے طرز زندگی سے نہیں تھی۔ مسلمانوں نے اس پر آنکھ بند کر کے کیسے یقین کر لیا؟ جواب صرف ایک ہے۔ وہ یہ کہ جناح صاحب کا کردار اتنا پختہ اور مضبوط تھا کہ ان پر مسلمان تو کیا‘ غیر مسلم بھی مکمل یقین کرتے تھے۔ کردار کی عظمت وہ بنیاد بنی جس نے مسلمانوں کو جواز فراہم کیا ‘ کہ آنکھیں بند کر کے‘ نئے وطن کی طرف روانہ ہوجائیں۔ خون کے دریا گزرنے سے بھی نہ گھبرائیں۔ جائیداد بھی پیروں کی زنجیر نہ بننے پائی۔ قائد کا کردار ہی وہ کنجی ہے‘ جس سے پاکستان جیسے عظیم ملک کو قائم کرنے کا تالہ کھل پایا۔

مگر اس کے علاوہ‘ ایک حد درجہ اہم عنصر اور بھی تھا۔ جسے پہچاننے اور ذہن نشین کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ وہ یہ ‘ کہ عام مسلمانوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن تھی۔ یقین تھا کہ نیا وطن‘ پاکستان ان کے لیے بے پناہ مواقع لے کر آئے گا۔ معاشی‘ معاشرتی‘ سماجی‘ اقتصادی ترقی‘ ان کے قدموں میں ہو گی۔ خود پاکستان کے خالق نے ان نئی جہتو ں کا متعدد بار اعادہ کیا تھا۔ بارہا اعلان کیا تھا کہ نئے ملک میں مسلمانوں کو ذاتی ترقی کے وہ تمام مواقع دستیاب ہوں گے جو آج تک ہندو اکثریت نے انھیں فراہم نہیں کیے۔

یہ بات بالکل درست تھی کہ پاکستان ایک ایسا خواب تھا‘ جو مسلمانوں کے ہر مثبت قدم کی تعبیر تھا۔ 1940سے لے کر 1947سے مسلمانوں میں امید کی یہ کرن ‘ اتنی طاقتور ہو چکی تھی کہ انھیں اپنا سب کچھ لٹانے میں معمولی سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی۔ دلیل کو سمیٹے ہوئے‘ یہ عرض کروں گا کہ قائداعظم کے بلند کردار‘ نے مسلمانوں کے دلوں میں امید کے ایسے چراغ جلا دیے تھے کہ وہ سود و زیاں سے بالاتر ہو چکے تھے۔ مگر قائد کی بیماری اور وفات نے‘ ملک کو ایسے معاملات سے دو چار کر دیا جس نے تمام رموز سلطنت‘ حددرجہ ادنیٰ لوگوں کے ہاتھ میں دے ڈالے۔

یہ وہ حکمران تھے‘ جو بذات خود‘ پاکستانیوں کے لیے ام المسائل تھے۔ شعوری طور پر لوگوں کو مفلوج کر کے ایک سراب تخلیق کیا گیا۔ جہاں پر آج تک ‘ کسی بھی پاکستانی کی رسائی نہیں ہو پائی۔ غلام محمد‘ سکندر مرزا‘ وہ ناعاقبت اندیش حکمران تھے‘ جنھوں نے ملک کی بہتری اور لوگوں کی خدمت کے بجائے‘ سازش کے ذریعے ملک پر مسلسل حکمرانی کا ارادہ کیا۔ دونوں تاریخ کے کوڑے دان میں گئے۔ مگر جاتے جاتے‘ ملک کی بنیادوں کو ہلا گئے۔ آمروں نے عمومی حکمرانی‘ سازش اور قومی تشخص کی کمزوری کی بنیاد پرکی ۔ کھوکھلے نعرے‘ بے مقصد تقریبات ‘ تشدد پسندی جذباتیت ‘ فرقہ پرستی اور نفرت کے ایسے بیج بوئے جو آج توانا ہو کر برگد کے درخت نہیں‘ بلکہ مہیب جنگل کے روپ میں سامنے آ چکے ہیں۔ ملک کی زمین کو انھوںنے فروعی کانٹوں سے پر کر دیا‘ جو اب بارودی سرنگیں بن چکی ہیں۔ یعنی قائداعظم کی رحلت کے بعد ‘باکردار حکمران تو خیر آئے ہی نہیں‘ یا آنے نہ دیے گئے۔

ملک کے عام لوگوں کی امید کی تمام روشنی کو بھی اندھیرے میں بدل دیا ۔ سیاست دانوں نے بھی اپنا قبلہ تبدیل کر لیا۔ مال و دولت کا ناجائز ذخیرہ ان کی زندگی کامقصد بن گیا۔ ہاں‘ ایک اور بات‘ جس سیاست دان یا شخص نے ملک کی بہتری کی کوئی بھی کوشش کی اسے منفی حکمت عملی سے دیوار میں چنوا دیا گیا۔ جس وزیراعظم نے ملک کو آئین دیا۔ نوے ہزار جنگی قیدی واپس لانے کا لازوال کارنامہ انجام دیا۔ بدلے میں عدالت کے ذریعے قتل کروا دیا گیا۔ جس سیاست دان نے ملک میں شہریوں کے لیے موٹرویز کا خوبصورت جال بچھایا۔ نئے ایرپورٹ تعمیر کروائے ‘ ہمسایہ ملک کے ساتھ پائیدار امن کی بات کی‘ اسے برباد کر دیا گیا اور آج بھی راندہ درگاہ ہے۔ جس خاتون وزیراعظم نے عوامی سطح کی خدمت کرنے کی جوت جگائی۔ اسے سفاکی سے قتل کر دیا گیا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ جنھوں نے‘ یہ سب منفی ترین کام کیے ان کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر پایا۔

گزشتہ تین برس ملک پر خصوصی طور پر بھاری پڑے۔ 30لاکھ پاکستانی ‘ اپنے اثاثے اونے پونے فروخت کر کے پاکستان سے باہر منتقل ہو گئے۔ بلوم برگ جیسے معتبر چینل کے مطابق‘ یہ لاکھوں لوگ کوئی مزدوری کرنے نہیںگئے۔ یہ ان پڑھ افراد بھی نہیں تھے۔ ان میں پروفیشنل‘ کامیاب کاروباری اشخاص‘ ڈاکٹر‘ انجینئر‘ آئی ٹی ماہرین اور اسی سطح کے لوگ تھے۔ مگر سوچیئے کہ یہ سب کچھ کیوں ہوا‘ اور آج بھی کیوںبدستور جاری ہے؟ دراصل ‘ پاکستانیوں کی اکثریت ‘ اپنے حکمرانوں میں بلند کردار کے اوصاف نہیں دیکھتی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ سڑک چھاپ‘ سائیکل سے حد درجہ دونمبر ذرایع سے ارب پتی بن گئے۔ اور اب حق ِحکمرانی کو صرف اپنے تک محدود کر چکے ہیں۔ ہر وقت نت نئے اسکینڈل ‘ اخبارات کی زینت بنتے رہتے ہیں۔

مگر کسی قسم کا کوئی احتساب نہیں ہو پاتا۔ اچھے کردار کی بات کیا کرنی‘ اب تو جو حقیقتاً منفی صفات کا مالک ہے ‘ وہ خوب پھل پھول رہا ہے۔ اس ناجائز حکمرانی نے لوگوں کے دلوں میں ناامیدی پیدا کر دی ہے۔ ان سے بہتری کی معمولی سے معمولی امید بھی چھین لی ہے۔ انھیں یقین ہو چکا ہے کہ پاکستان کے حالات کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔ اس ملک میںان کا اور ان کی اولاد کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

ایک غیر جانبدار سروے کروا لیجیے۔ آپ کے سامنے ‘ حکمرانوں کے کردار اور امید کے متعلق تمام حقائق سامنے آ جائیں گے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ سچ سب جانتے ہیں مگر سچ سننا نہیں چاہتے۔ ملک کی ناکامی کی وجوہات سب سمجھتے ہیں۔ مگر اس کو ٹھیک کرنے کے لیے قصداً کوئی قدم نہیں اٹھاتے ۔ سرکاری سطح پر ناکامی کو چھپانے کے لیے‘ جھوٹ کی مکمل سرپرستی کی جا رہی ہے۔ صحرا میں پل بنانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ جانتے ہوئے کہ صحرا میں پانی کا گزر کبھی ہو گا ہی نہیں۔ ناامیدی کو اب‘ امید میں بدلنا معروضی طور پر ممکن نہیں رہا۔ اور ہاں۔ حکمران طبقہ میں بلند کردار کی بات کرنا‘ صرف اور صرف وقت کو ضایع کرنے کے مترادف ہے۔ جناب! یہاں حالات ‘ کم از کم عوام کے تو نہیں بدلنے والے! باقی آپ خود سمجھدار ہیں!

متعلقہ مضامین

  • سب سے مل آؤ مگر…
  • کردار اور امید!
  • لال اور عبداللہ جان
  • اشارے بازیاں، لاٹھی اور بھینس
  • ویمنز ورلڈکپ: بی سی سی آئی نے پاک بھارت کھلاڑیوں کے مصافحے سے راہِ فرار اختیار کرلی
  • ویمنز ورلڈکپ: پاکستانی ٹیم سے ہاتھ ملانے سے متعلق بی سی سی آئی کا موقف سامنے آگیا
  • بھارتی میڈیا جھوٹا، معافی مانگی نہ مانگوں گا، محسن نقوی: کوئی گارنٹی نہیں خواتین کھلاڑی ہاتھ ملائیں، سیکرٹری بھارتی بورڈ
  • ٹشو پیپرز
  • زبان بند، ہاتھ توڑ دوں گی والا لہجہ مناسب نہیں، قمر زمان کائرہ، مریم نواز پر برس پڑے
  • زبان بند، ہاتھ توڑدوں گی والا لہجہ مناسب نہیں: قمرزمان کائرہ وزیراعلیٰ پر برس پڑے