Express News:
2025-10-04@13:48:31 GMT

حکومتی دعوے اور زمینی حقائق

اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT

عالمی بینک نے پاکستان میں غربت و افلاس کے حوالے سے اپنی حالیہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں ترقی کا موجودہ ماڈل 2018 سے 2025 کے دوران غربت و افلاس کی سطح پر فرق ڈالنے میں ناکام رہا ہے۔

بین الاقوامی پاورٹی انڈیکس کے مطابق پاکستان میں غربت 45 فی صد پر کھڑی ہے، قومی زراعت سکڑ رہی ہے، تعمیرات میں اجرتیں کم، قرضے اور خسارے بڑھ رہے ہیں، سرمایہ کاری کمزور ہے، سیاسی عدم استحکام کاروبار کو تباہ کر رہا ہے، غریبوں کو نوکریاں نہیں مل رہی ہیں اور لاکھوں نوجوان بیرون ملک جانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ طاقتور اشرافیہ پالیسیوں کو اپنے فائدے کے لیے موڑتی ہے اور مقامی حکومتوں کی ناقص ٹیکس پالیسی کا بوجھ زیادہ تر نچلے طبقے پر ڈالا جاتا ہے۔

ورلڈ بینک کے چیف اکانومسٹ کے مطابق غربت کا خاتمہ مختلف عوامل پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں میکرو اکنامک استحکام، افراط زر میں کمی، آمدن میں اضافہ اور ملک کی معیشت کو کھولنا شامل ہے۔

عالمی بینک کی مذکورہ رپورٹ ملک کی مجموعی معاشی صورت حال، عوام کی حالت زار اور سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے نہایت اہمیت کی حامل اور سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی ہے۔ موجودہ مخلوط حکومت کے حکمران اور ان کے وزراء تواتر کے ساتھ ملک کی معیشت بہتر ہونے اور غربت میں کمی اور مہنگائی و گرانی نیچے آنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ ملک میں سیاسی استحکام اور نظام حکومت کی مضبوطی کی دلیلیں دی جا رہی ہیں۔ جب کہ زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے جس کی ایک جھلک عالمی بینک کی مذکورہ رپورٹ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

کیا قرضوں میں جکڑی ہوئی معیشت کو مستحکم قرار دیا جا سکتا ہے؟ مارچ 2025 تک پاکستان پر مجموعی قرضے اور واجبات کی رقم 89 ہزار 834 ارب روپے سے بھی متجاوز ہو چکی تھی۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق ملکی قرضہ 51 ہزار 518 ارب روپے اور غیر ملکی قرضہ 36 ہزار 509 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔

رپورٹ کے مطابق وطن عزیز پر قرضوں کا بوجھ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ موجودہ حکومت کا قرضوں پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔ اس وقت آئی ایم ایف کا ایک وفد پاکستان کے دورے پر آیا ہوا ہے اور حکومتی ٹیم مزید قرض حاصل کرنے کے لیے ان سے مذاکرات کر رہی ہے۔

ملک میں غربت و بے روزگاری اور مہنگائی میں برق رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے۔ نوجوان ڈگریاں لے کر نوکری کی تلاش میں سرگرداں و پریشان گھوم رہے ہیں۔ روزگار کے مواقعوں کی عدم دستیابی کے باعث پڑھے لکھے نوجوان چار و ناچار بیرون ملک جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ذہین نوجوان جن سے پاکستان کو فیض پہنچنا چاہیے تھا وہ غیر ممالک میں جا کر وہاں کی معاشی ترقی کا حصہ بن رہے ہیں جو پالیسی سازوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ملک کی نصف کے قریب آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔

بدقسمتی سے اس تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کا مہنگائی پر کوئی کنٹرول نظر نہیں آتا، روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں بڑھ کر عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ آٹا اور چینی جیسی اہم اور بنیادی اشیا عوام کو سرکاری نرخوں پر دستیاب نہیں ہیں۔

ملک کے چاروں صوبوں میں آٹے اور چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں صوبائی حکومتیں ناکام نظر آتی ہیں جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں آنے والے حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں نے چاروں صوبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ غذائی پیداوار میں کمی کے باعث اشیا ضروریہ کی قیمتوں میں مزید اضافے اور غربت کا گراف اونچا ہونے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی دادرسی کے حوالے سے سندھ اور پنجاب کی حکومتوں کے درمیان لفظی جنگ جاری ہے۔

پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو کہتے ہیں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے سیلاب متاثرین کی مدد کرنا وفاق کی ذمے داری ہے۔ حکومت آئی ایم ایف سے اس ضمن میں بات کرے اور عالمی امداد کی اپیل کی جائے۔ کیا وکلا برادری کا 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف ملک گیر احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان ملک کے سیاسی و عدالتی استحکام کا ضامن ہو سکتا ہے؟ ایسے تلخ زمینی حقائق کی روشنی میں حکومت کے سیاسی، معاشی اور عدالتی استحکام کے دعوؤں کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے مطابق رہا ہے ملک کی

پڑھیں:

آزاد کشمیر کی خراب صورتحال پر وزیراعظم پاکستان کا سخت نوٹس

حکومتی سطح پر مسئلے کے پرامن حل کے لیے وزیراعظم نے مذاکراتی کمیٹی کے ارکان میں اضافہ بھی کر دیا۔ کمیٹی میں سینیٹر رانا ثنا اللہ، وفاقی وزراء سردار یوسف، احسن اقبال، سابق صدر آزاد جموں و کشمیر مسعود خان اور قمر زمان کائرہ کو شامل کیا گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے آزاد کشمیر کی صورتحال پر گہری تشویش اور سخت نوٹس لیتے ہوئے شہریوں سے پُرامن رہنے کی زوردار اپیل کی جبکہ مذاکراتی کمیٹی کے ارکان میں اضافہ بھی کر دیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پرامن احتجاج ہر شہری کا آئینی و جمہوری حق ہے تاہم مظاہرین امن عامہ کو نقصان پہنچانے سے گریز کریں۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مظاہرین کے ساتھ تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کریں، عوامی جذبات کا احترام یقینی بنائیں اور کسی بھی قسم کی غیر ضروری سختی سے اجتناب برتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہے۔ وزیراعظم نے مظاہروں کے دوران ہونے والے ناخوش گوار واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کی شفاف تحقیقات کا حکم دیا جبکہ احتجاجی مظاہروں سے متاثرہ خاندانوں تک فوری امداد پہنچانے کی ہدایت بھی کی۔

حکومتی سطح پر مسئلے کے پرامن حل کے لیے وزیراعظم نے مذاکراتی کمیٹی کے ارکان میں اضافہ بھی کر دیا۔ کمیٹی میں سینیٹر رانا ثنا اللہ، وفاقی وزراء سردار یوسف، احسن اقبال، سابق صدر آزاد جموں و کشمیر مسعود خان اور قمر زمان کائرہ کو شامل کیا گیا ہے۔ مزید برآں وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ مذاکراتی کمیٹی فوراً مظفرآباد جائے اور مسائل کا فوری اور دیرپا حل نکالے۔ وزیراعظم نے ایکشن کمیٹی کے اراکین اور قیادت سے اپیل کی ہے کہ حکومتی مذاکراتی کمیٹی سے تعاون کرے۔ کمیٹی اپنی سفارشات اور مجوزہ حل بلاتاخیر وزیراعظم آفس کو بھجوائے گی تاکہ مسائل کے فوری تدارک کے لیے اقدامات کیے جا سکیں۔ وزیراعظم نے وطن واپسی پر مذاکرات کے عمل کی نگرانی کا اعلان کر دیا۔
 

متعلقہ مضامین

  • اسکاٹ لینڈ: بادشاہت کا دعوے دار افریقی قبیلہ گرفتار
  • موجودہ حالات میں پاکستان کو سب سے زیادہ معاشی استحکام کی ضرورت ہے، گورنر سندھ
  • غزہ پر اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں تیزی، مزید 63 فلسطینی شہید
  • فلور ملز ایسوسی ایشن نے گندم درآمد کرنےکی حکومتی پیشکش مسترد کر دی
  • ا مریکا اور پاکستان میں مثبت پیش رفت
  • مزید مہنگائی ، مزید غربت ، مزید قرضے
  • آزاد کشمیر کی خراب صورتحال پر وزیراعظم پاکستان کا سخت نوٹس
  • ہچکولے کھاتی معیشت کے استحکام کے دعوے!
  • کرنٹ اکاؤنٹ، حکومتی اخراجات ہدف کے اندر رہنے چاہئیں، آئی ایم ایف: سیلاب نقصانات پر حتمی رپورٹ مانگ لی
  • 2025 میں غربت کی شرح میں مزید اضافے کا خطرہ ہے