سجاول کے عوام صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250930-11-8
سجاول(نمائندہ جسارت) ضلع سجاول کے قیام کو 12 سال گزر چکے ہیں لیکن ضلع کے عوام صحت کی سہولیات سے محروم ہیں۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر کے سرکاری اسپتال کو صرف نام کا سول اسپتال درجہ دے دیا گیا۔ صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے سندھ کے انتہائی پسماندہ ضلع کے عوام کو شدید تکالیف پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا ہے۔ ضلع سجاول سے ایک صوبائی وزیر، ایک ایم این اے اور تین ایم پی اے ہونے کے باوجود عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔اسپتال میں بیشتر ڈاکٹرز کی کمی ہے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اسپتال میں آنکھ، دانت، جلد، کان، ناک اور گلے، بے ہوشی، دل، گردے اور دیگر جنرل کیٹیگری کی اسامیاں خالی ہیں۔ ضلع کے دور دراز علاقوں شاہ بندر،بنون، ابڑال، لائک پور، بٹھورو دڑو، لاڈیوں، شاہ عقیق اور ساحلی پٹی سے علاج کے لیے آنے والے مریضوں کو صحت کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ علاج معالجے کی ضروری سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اسپتال کا عملہ ان مریضوں کو ٹھٹھہ، کراچی یا حیدرآباد بھیجتا ہے جبکہ سجاول کے اتنے بڑے ایمرجنسی وارڈ میں صرف ایک ڈاکٹر تعینات کیا گیا ہے۔ اس وقت ضلع سجاول میں جلد کی بیماریاں وبائی شکل اختیار کرچکی ہیں جس پر ضلعی محکمہ صحت کی آنکھیں بند ہیں۔ چند ماہ قبل صوبائی وزیر صحت نے اسپتال کا دورہ کیا اور اسپتال میں صحت کی مطلوبہ سہولیات کو بہتر بنانے کی یقین دہانی کرائی تھی تاہم ضلع سجاول کا سول اسپتال عوام کی صحت کے لیے بے لاب ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں ضلع کی سماجی، عوامی حلقوں نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے وزیر اعلیٰ سندھ اور صوبائی وزیر صحت سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ سجاول کے سول اسپتال میں مختلف امراض کے لیے درکار ڈاکٹرز کی کمی کو پورا کیا جائے اور ضلع کے عوام کو صحت کی ضروری سہولیات فراہم کی جائیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: صحت کی سہولیات اسپتال میں ضلع سجاول سجاول کے کے عوام ضلع کے
پڑھیں:
سپریم کورٹ نے وراثت سے متعلق کیس کا فیصلہ جاری کردیا
سپریم کورٹ نے وراثت سے متعلق فیصلہ جاری کرتے ہوئے درخواست گزار عابد حسین کی اپیل خارج اور سندھ ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عرفان سعادت پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 7 صفحات پر مشتمل فیصلہ سنایا، جو جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے استعفے سے قبل تحریر کیا تھا۔عدالت نے ورثا کو ان کے حقِ وراثت سے تاخیر سے محروم رکھنے پر عابد حسین پر 5 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا ہے، جو 7 دن کے اندر رجسٹرار سپریم کورٹ میں جمع کرایا جائے گا، عدالت کے مطابق یہ رقم ورثا میں تقسیم کی جائے گی۔فیصلے میں کہا گیا کہ عابد حسین جائیداد کو تحفہ ثابت کرنے میں ناکام رہا، جب کہ وراثت کا حق خدائی حکم ہے اور عورتوں کو محروم کرنا آئین اور اسلام کی واضح تعلیمات کے منافی ہے۔عدالت نے ریاست کی یہ ذمہ داری بھی واضح کی کہ خواتین کو بلا تاخیر، خوف یا طویل عدالتی کارروائی کے بغیر وراثتی حقوق دلائے جائیں، جبکہ وراثت سے محروم کرنے والوں کو قانون کے مطابق جوابدہ ٹھہرایا جائے۔سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ جائیداد کی ملکیت مالک کی وفات کے فوراً بعد ورثا کو منتقل ہو جاتی ہے۔
واضح رہے کہ 20 مارچ 2025 کو وفاقی شرعی عدالت (ایف ایس سی) نے اپنے تاریخی فیصلے میں کہا ہے کہ کوئی بھی رسم، جس کی بنیاد پر کسی خاندان کی کسی بھی خاتون رکن کو اس کے وراثت کے حق سے محروم کیا جا رہا ہے، اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔چیف جسٹس اقبال حمید الرحمٰن، جسٹس خادم حسین ایم شیخ اور جسٹس امیر محمد خان پر مشتمل 4 رکنی بینچ نے 21 صفحات پر مشتمل یہ فیصلہ ضلع بنوں کے کچھ حصوں میں رائج چادر یا پرچی کے رواج کے خلاف دائر درخواست پر سنایا، جس میں خواتین کو قرآن و سنت کے ذریعے دیے گئے وراثت کے حق سے محروم رکھا گیا تھا، یا انہیں جرگوں کے ذریعے اپنی وراثت سے کم قیمت کا حصہ قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔