دل بند ہونے سے اموات: این آئی سی وی ڈی کا زندگیاں بچانے کے لئے شہریوں کو تربیت دینے کا منصوبہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: پاکستان میں روزانہ سیکڑوں افراد اچانک دل بند ہونے کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ قومی ادارہ برائے امراضِ قلب (این آئی سی وی ڈی) کے ایمرجنسی وارڈ میں روزانہ 70 سے 100 ایسے مریض لائے جاتے ہیں جن میں سے کئی ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔
اس تشویشناک صورتحال کے پیشِ نظر این آئی سی وی ڈی نے فارمیو کے تعاون سے ایک بڑا اقدام اٹھاتے ہوئے 1000 شہریوں کو سی پی آر (کارڈیو پلمونری ریسسٹیٹیشن) ماسٹر ٹرینرز بنانے کا منصوبہ شروع کر دیا ہے تاکہ لوگ ابتدائی قیمتی منٹوں میں زندگیاں بچا سکیں۔
افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے این آئی سی وی ڈی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر طاہر صغیر نے کہا کہ اچانک دل بند ہونے کے کیسز نوجوانوں میں خطرناک حد تک بڑھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق اگر سی پی آر تین سے پانچ منٹ کے اندر کر دیا جائے تو مریض کی جان بچنے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ ہمارا مقصد عام شہریوں کو زندگی بچانے کی یہ بنیادی مہارت سکھانا ہے تاکہ وہ فوری طور پر مداخلت کر سکیں اور اموات کو روکا جا سکے،
ڈاکٹر طاہر صغیر نے دل کی بیماریوں کے بڑھتے رجحان کو غیر صحت مند طرزِ زندگی سے جوڑا۔ان کا کہنا تھا کہ تھا کہ موبائل فون پر وقت ضائع کرنا، نیند، ورزش اور خوراک کو نظر انداز کرنا دل کے امراض کو جنم دے رہا ہے۔ ماضی میں جب لوگ سادہ غذا اور دیسی گھی استعمال کرتے تھے تو دل کا دورہ نایاب تھا، اب جنک فوڈ، مٹھائیاں اور کاہلی نے اسے وبا میں بدل دیا ہے، انہوں نے عوام کو تلقین کی کہ میٹھے کی جگہ پھل کھائیں اور سبزیوں، دالوں اور روزانہ کی چہل قدمی کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔
این آئی سی وی ڈی کے پروفیشنل اسکلز ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ ڈاکٹر نوبیہ مہدی نے کہا کہ ان کے ایمرجنسی وارڈ میں روزانہ 70 سے 100 مریض لائے جاتے ہیں، جن میں سے چار پانچ اکثر ڈیڈ آن ارائیول ہوتے ہیں۔ پہلے تین سے پانچ منٹ زندگی اور موت کے درمیان فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ فوری سی پی آر سے جان بچ سکتی ہے لیکن تاخیر دماغ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا دیتی ہے۔ ٹریفک جام اور خراب سڑکیں ایمبولینس کو دیر کروا دیتی ہیں، اس لیے عوامی تربیت نہایت ضروری ہے۔
ڈاکٹر نوبیہ نے مزید بتایا کہ این آئی سی وی ڈی کے چیسٹ پین یونٹس نے قبل از ہسپتال اموات میں کمی ضرور کی ہے مگر کمیونٹی سطح پر فوری ردعمل میں اب بھی بڑا خلا موجود ہے۔ اگر اسکولوں، عوامی مقامات اور اداروں میں تربیت یافتہ افراد موجود ہوں تو بچنے کے امکانات کئی گنا بڑھ جائیں گے۔
یہ منصوبہ عالمی یومِ قلب 2025 کے موقع پر شروع کیا گیا ہے، جو اس برس “اپنے دل کے لیے درست انتخاب کریں” کے موضوع کے تحت منایا جا رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں آگاہی مہمات کے ساتھ ساتھ عوام کو ہنگامی اقدامات جیسے سی پی آر کی تربیت دینا بھی ضروری ہے جو اچانک دل بند ہونے کی صورت میں بقا کے امکانات کو دو سے تین گنا بڑھا دیتا ہے۔
فارمیوو کے ڈائریکٹر کمرشل عبدالصمد نے کہا کہ ان کا مقصد ایسے ماسٹر ٹرینرز تیار کرنا ہے جو مزید ہزاروں افراد کو یہ مہارت منتقل کر سکیں۔ ہم عوامی مقامات، پولیس ڈیپارٹمنٹس اور تعلیمی اداروں پر خصوصی توجہ دیں گے تاکہ کوئی خاندان صرف اس وجہ سے اپنے پیارے کو نہ کھوئے کہ وہاں کوئی سی پی آر جاننے والا موجود نہیں تھا۔
حکام نے بتایا کہ یہ منصوبہ کراچی سے شروع ہوگا اور بتدریج پورے ملک میں پھیلایا جائے گا تاکہ ایک ایسا قومی نیٹ ورک قائم ہو سکے جہاں تربیت یافتہ شہری ایمبولینس یا ڈاکٹر کے پہنچنے سے پہلے ہی فوری اقدام کر سکیں۔ ماہرین نے اسے ایک فوری قومی ضرورت قرار دیا ہے کیونکہ پاکستان میں دل کی بیماریاں پہلے ہی سب سے زیادہ اموات کی وجہ ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: آئی سی وی ڈی دل بند ہونے جاتے ہیں سی پی آر
پڑھیں:
بنگلادیش: حسینہ واجد کودار پرلٹکانے کا حکم،بھارت سے فوری حوالگی کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251118-01-14
ڈھاکا (مانیٹرنگ ڈیسک /صباح نیوز) بنگلا دیش میں انسانیت کے خلاف جرائم کی بین الاقوامی عدالت نے 78 سالہ سابق وزیراعظم حسینہ واجد کو انسانیت کے خلاف جرائم کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سزائے موت سنادی، سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خان کمال کو بھی انسانیت کے خلاف جرائم پر سزائے موت سنائی گئی ہے۔ جسٹس غلام مرتضیٰ موجمدار کی سربراہی میں انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے 3 رکنی بنچ نے فیصلہ سنایا، ٹریبونل کے دیگر 2 ارکان میں جسٹس شفیع العالم محمود اور جج محیط الحق انعام چودھری شامل تھے۔ خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ڈھاکا میں قائم انسانیت کے خلاف جرائم کی بین الاقوامی عدالت نے حسینہ واجدکے خلاف ان کی غیر موجودگی میں فیصلہ سنایا، اس موقع پر سخت سیکورٹی انتظامات کیے گئے تھے۔عدالت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات پر حسینہ کو عمر قید اور بغاوت کے دوران کئی افراد کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی۔موت کی سزا سنائے جانے کے بعد عدالت کے اندر تالیاں اور خوشی کے نعرے سنائی دیے، یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ الجزیرہ کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ’الزام نمبر ایک کے مطابق وزیراعظم شیخ حسینہ نے اپنی پارٹی کے کارکنان کوطلبہ کے خلاف اکسانے والا حکم دے کر اور ضروری اقدامات نہ کر کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی‘۔ عدالت نے مزید کہا کہ ’الزام نمبر 2 کے مطابق شیخ حسینہ نے ڈرون، ہیلی کاپٹر اور مہلک ہتھیار استعمال کرنے کا حکم دے کر انسانیت کے خلاف ایک اور جرم کا ارتکاب کیا‘۔خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق جج غلام مرتضیٰ ماجد مجمدار نے ڈھاکا کی بھری ہوئی عدالت میں فیصلہ پڑھ کر سنایا کہ حسینہ واجد 3 الزامات میں مجرم پائی گئیں جن میں مجرمانہ سرگرمیوں کے لیے لوگوں کو اکسانا، قتل کا حکم دینا، اور مظالم کو روکنے میں غفلت شامل ہیں۔ جج نے کہا کہ ’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ انہیں صرف ایک سزا دی جائے گی اور وہ ہے موت کی سزا‘۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں قرار دیا گیا تھا کہ گزشتہ سال 15 جولائی سے 5 اگست کے درمیان حکومت مخالف مظاہروں کے دوران سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے تقریباً 1400 افراد جاں بحق اور ہزاروں زخمی ہوئے، جو 1971ء کی آزادی کی جنگ کے بعد سے بنگلا دیش میں سب سے بدترین سیاسی تشدد تھا۔شیخ حسینہ اگست 2024ء میں بنگلا دیش چھوڑ کر نئی دہلی میں جلاوطنی میں رہ رہی ہیں۔ حسینہ واجد کو عدالت کے لیے ریاستی وکیل فراہم کیا گیا لیکن انہوں نے عدالت کے اختیار کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ وہ تمام الزامات کو رد کرتی ہیں۔ ڈھاکا میں فیصلے کی تاریخ مقرر ہونے پر عدالت کے اردگرد سیکورٹی فورسز موجود تھیں اور بکتر بند گاڑیوں کے ذریعے چیک پوائنٹس مضبوط کیے گئے۔ڈھاکا میونسپل پولیس کے ترجمان طالب الرحمٰن نے کہا کہ فیصلے کے لیے پولیس ہائی الرٹ پر تھی اور دارالحکومت کے اہم چوراہوں پر چیک پوائنٹس قائم کیے گئے ‘ تقریباً آدھی تعداد یعنی 34 ہزار میں سے 17ہزار پولیس اہلکار ڈیوٹی پر تعینات رہے۔ حسینہ واجد نے یہ بھی خبردار کیا کہ ان کی سابقہ حکمران جماعت عوامی لیگ پر عبوری حکومت کی پابندی ملک میں 17 کروڑ افراد خاص طور پر انتخابات سے قبل کے لیے سیاسی بحران کو بڑھا رہی ہے۔بنگلا دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے کہا ہے کہ عدالت جو مرضی فیصلہ کرے مجھے پرواہ نہیں ‘ہم سب کچھ یاد رکھیں گے‘ہر چیز کا حساب لیا جائے گا‘میں اپنے ملک کے لوگوں کیلیے کام کرتی رہوں گی۔نوبیل انعام یافتہ محمد یونس میں کام کرنے والے عبوری حکومت کے ایک ترجمان نے مقدمے کے سیاسی محرکات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت نے شفاف طور پر کام کیا اور مبصرین کو اس کی دستاویز شائع کرنے کی اجازت بھی دی گئی۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ پر سے پابندی ہٹائے جانے کا کوئی منصوبہ زیرغور نہیں ہے، عبوری حکومت کسی بھی قسم کی اشتعال انگیزی، خصوصاً جلاوطن قیادت کی جانب سے کیے گئے اقدام کو انتہائی غیرذمہ دارانہ اور قابل مذمت سمجھتی ہے۔ اسلامی چھاترا شِبیر نے جولائی تا اگست 2024ء کی طلبہ و عوامی بغاوت کے دوران انسانیت کے خلاف کیے گئے جرائم کے مقدمے میں انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل کے فیصلے کو قوم کی توقعات کے عین مطابق قرار دیتے ہوئے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ ٹریبونل نے سابق وزیراعظم حسینہ واحد، سابق وزیر داخلہ اسد الزمان خاں کمال اور سابق آئی جی پی چودھری عبداللہ المأمون کو سزائے موت سنائی ہے۔ اسلامی چھاترا شِبیر کے مرکزی صدر جاہد الاسلام اور سیکرٹری جنرل نُر الاسلام صدام نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ یہ فیصلہ اُن خاندانوں کے لیے امید کی پہلی کرن ہے جن کے بچے، والد، شوہر اور پیارے ریاستی جبر کے نتیجے میں بے دردی سے قتل کیے گئے‘ پورے ملک میں ریاستی سرپرستی میں نسل کشی کی گئی‘ جولائی کی بغاوت کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ چاترا لیگ، جوبو لیگ اور عوامی لیگ کے مسلح غنڈوں نے بھی قتل و غارت میں حصہ لیا۔ اس قتل عام کی اصل منصوبہ ساز مفرور فاشسٹ حسینہ تھی، جس کے حکم پر پورے ملک میں 133 بچوں سمیت ہزاروں طلبہ و شہریوں کو شہید کیا گیا۔ شیخ حسینہ کو انسانیت کے خلاف جرائم کے مقدمے میں سزائے موت سنا دی گئی، فیصلے کے بعد ڈھاکا یونیورسٹی میں طلبہ نے مٹھائی تقسیم کرکے جشن منایا۔شیخ حسینہ واجد کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد ڈھاکا یونیورسٹی کے طلبہ اور ڈھاکا یونیورسٹی سینٹرل اسٹوڈنٹس یونین کے رہنماؤں نے مٹھائیاں تقسیم کیں۔گزشتہ روزاسٹوڈنٹ یونین نے سہ پہر شیخ حسینہ کے فیصلے کو بڑی اسکرین پر براہِ راست نشر کرنے کا انتظام کیا، جسے دیکھنے کے لیے بڑی تعداد میں طلبہ اساتذہ اور دیگر لوگ جمع ہوئے تھے۔